لو آپ اپنے دام میں صیاد آ گیا!


ضمنی الیکشن جیتنے کے بعد عمران خان اور ان کے ساتھیوں کی گردنوں میں سریا آ گیا تھا۔ وہ غرور و تکبر کے پتلے بن گئے تھے۔ ان کی زبانیں شعلہ نوائی کرتی تھیں اور آنکھوں سے انگارے برستے تھے۔ پنجاب میں ابھی حکومت بنی نہیں تھی مگر منتقم مزاج عمران خان اور نفرت میں غرق ان کے ہرکاروں نے مخالف سیاستدانوں اور سرکاروں افسران و اہلکاروں کو سنگین دھمکیوں کی سان پر رکھ لیا تھا۔ یوں لگتا تھا کہ حکومت ملنے کے بعد وہ مخالفین کو بھسم کر دیں گے۔ مگر اللہ کی لاٹھی بے آواز ہے۔ خدا گنجے کو ناخن نہیں دیتا۔ اتحادی پارٹیوں نے سیاست کے بے تاج بادشاہ آصف زرداری کی سیاسی بصیرت اور بہترین حکمت عملی کے نتیجے میں مخالفین کی چال انہیں پر پلٹ دی۔ پرویز الٰہی ایک بار پھر بے نیل و مرام لوٹے اور پنجاب کی سربراہی کی پگ بار دیگر حمزہ شہباز کے سر سجی۔

تحریک انصاف کے سربراہ تو اس غیر متوقع اور عبرت ناک شکست پر دم بخود ہیں مگر ہم ان کی حیرت پر حیران ہیں۔ انہوں نے تاریخی ہزیمت کے بعد حسب سابق ایک مرتبہ پھر وہی گھسا پٹا اور بد مزہ بھاشن دیا جسے سن سن کر ہم اکتا چکے ہیں۔ انہیں ایک بار پھر مغربی اور یورپی جمہوریت کی خوبیاں اور اپنی جمہوریت کی قباحتیں یاد آنے لگیں۔ یہ بات ان کے لیے حیران کن تھی کہ وزارت اعلٰی کے الیکشن میں ایک سو چھیاسی ووٹ لینے والی پارٹی کس طرح ہار جاتی ہے اور ایک سو اناسی ووٹ لینے والی کیسے فاتح قرار پاتی ہے؟

عمران خان کو تو شاید یاد نہ ہو مگر ہم انہیں یاد دلائے دیتے ہیں کہ سیاست میں سب کچھ ممکن ہے۔ یہ بالکل ایسے ہی ہوا جیسے سینیٹ میں عدم اعتماد کی تحریک کے وقت چونسٹھ ووٹ کا حامل اتحاد شکست کھا گیا تھا اور انچاس ووٹوں والے جیت گئے تھے۔ جس طرح سینیٹ کے چیئرمین کے انتخاب میں اکثریتی پارٹی کو منہ کی کھانا پڑی تھی اور اقلیتی پارٹی نے فتح کے شادیانے بجائے تھے۔ جس طرح 2018 کے الیکشن کے بعد پنجاب میں اکثریت حاصل کرنے والی پارٹی کو دیوار سے لگادیا گیا تھا اور اس سے حکومت سازی کا اختیار چھین کر ایک اقلیتی پارٹی کی حکومت کے قیام کی راہ ہموار کی گئی تھی۔

آج بھی پنجاب کی وزارت اعلٰی کے الیکشن کے ہنگام ویسا ہی کھیل کھیلا گیا۔ فرق صرف یہ ہے کہ اس وقت اس فعل کو آپ اراکین اسمبلی کے ضمیر کی بیداری سے تعبیر کرتے تھے اور آج جب یہی کام آپ کے ساتھ ہوا تو اسے ضمیر فروشی کا نام دے دیا۔ آج پنجاب کے ڈپٹی اسپیکر نے جو رولنگ دی وہ من و عن سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں دی گئی مگر یہ بات تحریک انصاف کو ہضم نہیں ہو رہی۔ اس لیے کہ یہ فیصلہ ان کے خلاف گیا ہے۔ اس وقت وزیر اعلٰی پنجاب کے انتخاب میں تحریک انصاف کے پچیس ایم پی ایز کے ووٹ اس لیے شمار نہیں کیے گئے تھے کہ انہوں پارٹی سربراہ کی ہدایات کے خلاف عمل کیا تھا۔ آج ڈپٹی اسپیکر پنجاب نے بالکل اسی اصول کے مطابق ق لیگ کے سربراہ کے خط کی روشنی میں جب ق لیگ کے اراکین کے ووٹ مسترد کیے تو عمران خان اور ان کے حامیوں کو جمہوری روایات اور سیاست میں اخلاقیات کے اصول یاد آ گئے۔ تحریک انصاف کے سربراہ کا خط مقدس اور ق لیگ کے صدر کا خط غیر مقدس کیسے قرار دیا جاسکتا ہے؟

آج عمران خان اور ان کے حواری سیاست میں بے اصولی اور جمہوری روایات کی پائے مالی کا رونا رو رہے ہیں مگر یہ تو فرمائیں کہ سیاست میں اس غلاظت کی روایت 2013 کے بعد کس نے ڈالی تھی؟ نواز شریف نے تو 2013 کے بعد سیاسی بالغ نظری، جمہوری روایات اور اخلاقی قدروں کو فروغ دیتے ہوئے کے پی میں تحریک انصاف کے مینڈیٹ کو تسلیم کرتے ہوئے اسے حکومت بنانے کا موقع دیا تھا۔ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں پیپلز پارٹی کو حکومتوں کو بالکل نہیں چھیڑا تھا۔ نواز شریف کی سیاسی رواداری کے جواب میں عمران خان نے کبھی دھرنوں اور احتجاجی مظاہروں سے ملک کے سیاسی و معاشی استحکام کو داوٴ پر لگایا اور کبھی اداروں کے ذریعے حکومت کو مفلوج کرنے کی کوشش کی۔ کبھی سینیٹ چیئرمین کے انتخاب میں مکروہ چال چلی اور کبھی بلوچستان میں منتخب حکومت کی پیٹھ میں چھرا گھونپا گیا۔ کیا اس وقت یہی لوگ نواز شریف اور اس کی حکومت کے خلاف زہریلی چالیں چل کر اپنی فتح کے شادیانے نہیں بجاتے تھے؟

آج اگر حکومتی اتحاد نے آئین و قانون کے اندر رہتے ہوئے سپریم کورٹ کی آئینی تشریح کے مطابق خالص جمہوری انداز میں شاندار سیاسی فتح حاصل کی ہے تو آپ کو اتنی تکلیف کیوں ہو رہی ہے؟ سیاست کو حق و باطل کا معرکہ بنا کر سیاسی مخالفین کو صفحۂ ہستی سے مٹانے کے نعرے لگانے والے آج اپنی شکست تسلیم کرنے سے انکاری کیوں ہیں؟ حکمران اتحاد نے نہیں، سیاست کو جہاد کا نام آپ نے دیا تھا، آج آپ یہ جہاد ہار گئے تو ملک میں آگ لگانے کے درپے کیوں ہیں؟

چند ہفتے قبل جو گڑھا سپریم کورٹ کے ذریعے آپ نے نون لیگ کے لیے کھودا تھا، آج جب خود اوندھے منہ اس میں گرے ہیں تو واویلا کیوں مچا رہے ہیں؟ سیاست میں منتقم مزاجی، بے اصولی، عدم برداشت، نفرت، بدکلامی، سب و شتم اور بد تہذیبی کو آپ نے رواج دیا ہے۔ ایک عرصے سے جو آپ بو رہے تھے، آج اسے کاٹتے ہوئے پریشان کیوں ہیں؟ آج اپنے ہی پھیلائے ہوئے دام میں الجھ بیٹھے ہیں تو پٹ سیاپا کیوں مچا رکھا ہے؟

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments