سندھی فسادات، پی ٹی ایم، اے این پی اور پختون سیاست


لڑائی میں مار کھائے اور چہرے پر پڑے نیل کے بارے کوئی پوچھے تو انگریز ہلکے پھلکے انداز میں جواب دیتا ہے کہ تم نے دوسرے بندے کی حالت نہیں دیکھی۔ بلال ہوٹل ہر کھانا کھانے گیا تھا یا اپنے ساتھیوں سمیت پچھلی دفعہ کی توہین کا بدلہ لینے، حقیقت یہ ہے کہ بلال لڑائی کے دوران قتل ہوا ہے، کسی منصوبہ بندی کے تحت نہیں۔ وہ کسی پارٹی کا کوئی سرگرم رکن سماجی کارکن یا کسی بڑے خاندان کا چشم و چراغ نہیں تھا ایک عام انسان تھا، لیکن جس منظم انداز اور فوری طور پر اس شخصی لڑائی کو دو قوموں کے درمیان نسلی فسادات میں تبدیل کر دیا گیا وہ کافی الارمنگ اور قابل غور ہے۔

سندھ میں بھتہ خوری اور رقم چھیننے کے واقعات ہوتے رہتے ہیں اور اس میں اکثر بھتہ خور اور ان کے شکار مرتے رہتے ہیں لیکن بشریٰ زیدی کے واقعی کے بعد یہ دوسری دفعہ ہوا کہ دو بندوں کے درمیان کھانے یا بھتے پر لڑائی ہوئی اور اس میں ایک گاہک یا بھتہ خور مر گیا لیکن اس کو اسی پس منظر میں دیکھنے کی بجائے لسانی بنیادوں پر نسلی مخاصمت اور نفرت کی شکل دی گئی۔ جس طرح پرانے بلڈنگز کو گرانے کے لئے کنٹرولڈ ڈیمالیشن تکنیک استعمال کی جاتی ہے اسی طرح اس نفرت انگیز ایکسرسائز کو بھی بہت کنٹرولڈ طریقے سے روبہ عمل لاکر ختم کیا گیا۔ جس کے نتائج تجزیہ کے محتاج ہیں۔

امریکی وار ان ٹیرر کے بعد شاید یہ دوسری دفعہ ہوا کہ جرم کرتے ہوئے اس کی سوشل میڈیا پر لائیو سٹریمنگ بھی ہوتی رہی۔ سندھی نوجوانوں کی ٹولیاں، ہاتھوں میں پکڑے ہوئے موبائلوں سے فلمیں بناتے اور مختلف سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر لائیو سٹریمنگ کرتے ہوئے، پختونوں کے ہوٹلوں دکانوں اور روزگار کے دوسرے اڈوں پر جاکر، ان کے شناختی کارڈ چیک کرتے ہوئے، ان کو ایک جیسے پیغامات دیتے ہیں کہ ہمیں آپ کی شکل اچھی لگتی ہے نہ آپ کی چائے، آپ اپنا کاروبار بند کر دیں اور یہاں سے چلے جائیں ایسا نہیں کرو گے تو پھر آپ کو پہنچنے والی نقصان کی ذمہ داری آپ پر ہوگی۔ بلال کاکا کی موت محض ایک انگیخت اور کیٹلسٹ تھا باقی سب کچھ پہلے سے تیار تھا۔

پختون صدیوں سے یہاں سندھ میں موجود ہیں، لیکن ماضی میں فوجی آپریشنوں اور ملک چلانے والوں کی منصوبہ بندی کی وجہ سے اب زیادہ تعداد میں بے گھر ہوئے ہیں۔ پرائی جنگ میں جب ان کے محدود کھیت کھلیان جلے اور گھر مسمار ہوئے تو انسانی فطرت کا پیچھا کرتے ہوئے وہ بھی امن اور روزگار کی تلاش میں پنجاب اور سندھ میں منتقل ہوئے۔

سندھ میں ایم کیو ایم کی مکمل اجارہ داری کو توڑنے کے لئے پختون سرزمین پر اس انداز سے آپریشن کیے گئے کہ زیادہ سے زیادہ پختون اپنے علاقوں سے نقل مکانی کر کے کراچی چلے جائیں، جس سے اپنے علاقے میں موجود قوم پرستی سے فاصلہ اور جارحیت پسند ایم کیو ایم کو کاؤنٹر کرنے کے دوہرے مقاصد حاصل کرنے تھے۔ پختون علاقوں میں بد امنی، بھتہ خوری، لوڈشیڈنگ اور ٹارگٹ کلنگ نے روزگار کو ویسے بھی ناممکن بنایا ہے جس کی وجہ سے سرمایہ اور سرمایہ کار دوسرے صوبوں میں چلے گئے یوں روزگار کے مواقع ناپید ہونے کی وجہ سے ان جز وقتی مہاجرین کو اپنے علاقوں میں واپس جانے سے سندھ کے پرامن اور بھائی چارے والے ماحول میں رہنا اور روزگار کرنا بہتر لگا اس لئے یہیں کے ہو گئے۔

تقسیم کے بعد آئے ہوئے ہندوستانی مہاجرین کے ہاتھوں سندھی بڑے شہروں سے پہلے ہی ہاتھ دھو چکے ہیں۔ لیکن اب ان کی زبان کلچر اور روایات اسی طرح اجنبی ہونے سے دوچار ہیں جس طرح شہروں سے ان کی سیاست اجنبی ہو کر گوٹھوں اور دیہات میں پناہ لیے ہوئی ہے۔ ان کی زمینیں، تجارتی مراکز اور منافع بخش کاروبار ان کے ہاتھوں سے نکل چکے ہیں جس کی وجہ سے وہ اپنے ملک میں ریڈ انڈین بننے جیسے عدم تحفظ کے احساس سے دوچار ہیں۔ اس لئے بلال کاکا کا واقعہ نسلی فسادات میں تبدیل ہونا تعجب خیز نہیں ہونا چاہیے۔

لمحۂ فکریہ یہ ہونا چاہیے کہ ایک طرف نوجوانوں کی ٹولیاں موبائل کیمروں کی موجودگی میں نقصان پہنچانے کی دھمکیاں دیتے ہوئے دوسری نسل کے روزگار بزور بازو بند کر کے کسی کو اپنی کارکردگی نشر کر رہے ہیں اور دوسری طرف مقتول کے لا ابالی پن کے ویڈیو کلپس، بندوقوں اور شراب کی بوتلوں سمیت تصاویر اور تھانے کا ریکارڈ فوراً اپلوڈ ہو جاتا ہے، تاکہ طرفین ایک دوسرے کے نقصان کا احساس اور ازالہ کرنے اور غلطی ماننے کی بجائے ایک دوسرے کے ساتھ بحث و تکرار کرتے رہیں، یوں قتل کو ڈاکا، مقتول کو مجرم اور قاتل کو مظلوم کہتے رہیں، تاکہ جہاں تک اور جب تک اس سارے ایکسرسائز کو کرنے والے چاہیں فسادات وہاں تک پھیلائیں اور جب اور جہاں چاہیں روک دیں۔

کل کوئٹہ میں بھی اسی طرح بظاہر بھتہ خوری پر ہونے والی دو افراد کی ذاتی لڑائی ہوئی جو لگتا ہے اب اچکزئی اور کاکڑ قبائل کے درمیان قبائلی لڑائی میں تبدیل ہونے والی ہے۔ لڑاؤ اور حکومت کرو اورنگزیب عالمگیر سے لے کر انگریز اور انگریز سے لے کر ہماری پسندیدہ پالیسی ہے۔ اس لئے یہ عین ممکن ہے کہ اچکزیوں اور کاکڑوں کی لڑائی اس حد تک بڑھائی جائے جس سے آنے والے انتخابات میں پی میپ کی پوزیشن پر بدترین منفی اثر پڑے۔ کیونکہ پی میپ بلوچستان میں پختونوں کی نمائندہ جماعت ہونے کے باوجود اس کا مرکزی رہنما اچکزئی کہلاتا ہے۔

محمود خان اچکزئی اسٹیبلشمنٹ کے ناپسندیدہ ہو کر بھی بلوچ صورت حال کی وجہ سے بلوچستان کی سیاست میں کم برائی تصور کرتے ہوئے ناگزیر سمجھے جاتے ہیں۔ لیکن جس انداز سے مولانا فضل الرحمان نے بپھری ہوئی مسلم لیگ کو پیچھے لگا کر اسٹیبلشمنٹ کے لئے عمران خان کو مینیج کیا، اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ مولانا کو بلوچستان کی سیاست میں بڑا حصہ دار بنایا جاسکتا ہے جس کا نقصان پی میپ اور فائدہ جے یو آئی اور اے این پی کو مل سکتا ہے۔

جس غیر یقینی صورتحال سے ملک میں سیاست اور حکومت دوچار ہے اس میں انتخابات کا اعلان شاید مینیجرز کی حکمت عملی طے کرنے تک روکا گیا ہے۔ بڑی تبدیلیاں ان حلقوں اور صوبوں میں متوقع ہیں جہاں پر غیر پسندیدہ سیاسی پارٹیاں اور سیاستدان موجود ہیں۔ 2013 میں پختونخوا سے پی ٹی آئی کے ذریعے اے این پی کا تقریباً خاتمہ کر دیا گیا جس کی واپسی کا وعدہ اے این پی کے ساتھ اگرچہ 2018 کے انتخابات میں بھی کیا گیا تھا اور ساتھ بلوچستان میں بھی حصہ دلانے کا لالچ دیا گیا تھا، لیکن بہلاوا اور حقیقت الگ الگ چیزیں ہیں۔ سوشل میڈیا کے گویائی کے دور میں گونگے پن میں مبتلا اے این پی کے اشاروں کی زبان کے پیغام کا اس دفعہ بھی ماضی سے مختلف نتیجہ نکلا تو معجزہ ہو گا۔ کیونکہ پروفیشنل میڈیا مینیجرز کے دور میں اخباری رپورٹروں کے ذریعے اپنا پیغام عوام تک پہنچانے کی اے این پی مزید متحمل نہیں ہو سکتی۔

حالیہ سندھی فسادات سے اے این پی کے لئے پختونخوا میں کوئی حوصلہ افزاء صورت حال نظر نہیں آتی۔ اندازہ ہے کہ پختونخوا مستقبل میں جے یو آئی اور پی ٹی آئی کی کشمکش کے لئے مختص کیا جائے گا۔ پہلے سلیم صافی کے ساتھ اچانک راؤ انوار کو انٹرویو کے لئے بٹھایا گیا تاکہ بھولے بسرے زخم پھر سے ہرے ہوجائیں اور پھر چند ہفتوں بعد بڑے منظم انداز میں سندھ میں موجود پختونوں کو لسانی بنیادوں پر سندھی قوم پرستوں کا نشانہ بنا کر وہاں پر مقیم پختونوں کو عدم تحفظ سے دوچار کیا گیا جو لامحالہ پختون قوم پرست جماعتوں کے دامن میں پناہ ڈھونڈنے کے لئے نکلیں گے۔

کراچی میں اے این پی کے علاوہ پی ٹی ایم کی خاطر خواہ موجودگی ہے، جبکہ پی میپ بلوچستان کے پختون علاقوں تک محدود ہے۔ اب پی ٹی ایم کے غیر پارلیمانی نقطہ نظر کی وجہ سے سندھ کے پختونوں کے پاس صرف اے این پی کی چوائس بچتی ہے، اس لیے سندھ میں وقوع پذیر ہونے والے فسادات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اے این پی کو پختونخوا سے نکال کر مستقبل میں سندھ کے شہری علاقوں میں مستقل طور پر منتقل کیا جا رہا ہے۔ جہاں وہ پیپلز پارٹی کی حلیف بن کر کھلم کھلا ایم کیو ایم کی ٹکر کی قوم پرست سیاست کر سکے گی۔ افغان بارڈر سے دور ہو جائے گی تو پارلیمانی سیاست میں اپنا کردار بھی ادا کر سکے گی۔

اس طرح افغان بارڈر کے آرپار پختون قوم پرستی کی بیس کمزور ہو کر پختونخوا مکمل طور پر مولانا اور عمران خان کے لئے مختص ہو جائے گا جس سے افغانستان کے اندر کی حالت پر بھی لامحالہ اثر پڑے گا۔ دوسری طرف عمران خان سے کراچی کا پختون ووٹ کاٹ کر اسے بھی پختونخوا تک محدود کیا جاسکتا ہے کیونکہ لاہور کے ضمنی انتخابات میں واپس آ کر اس نے غیر متوقع طور پر اسٹیبلشمنٹ کے لئے مسئلہ کھڑا کر دیا ہے۔

سندھ میں مولانا کے دست راست راشد سومرو نے فسادات کے دوران سندھی قوم پرستی کی حمایت کر کے مولانا کے ہدایات پر عمل کیا ہے، تاکہ سندھ میں پختون اور سندھی ووٹ کی تقسیم واضح ہو جائے۔ پختونخوا تک محدود کرنے کا شکوہ مولانا فضل الرحمان نے چند دنوں پہلے ایک اخباری انٹرویو میں یہ کہہ کر خود بھی کیا، کہ ہمیں پختونخوا سے باہر سیاست کرنے کا حق نہیں دیا جاتا۔

پختون پشاور میں میں دھماکوں میں مرتے ہیں، وزیرستان میں ٹارگٹ کلنگ میں، کراچی میں پولیس مارتی ہے، پختونخوا میں گزارہ نہیں ہوتا اور حیدرآباد میں روزگار کرنے نہیں دیتے، جبکہ عمران خان کی حکومت نے نو سال میں ان کے لئے کچھ بھی نہیں کیا تو پختونوں کے پاس کون سی چوائس باقی رہتی ہے؟

شازار جیلانی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

شازار جیلانی

مصنف کا تعارف وجاہت مسعود کچھ یوں کرواتے ہیں: "الحمدللہ، خاکسار کو شازار جیلانی نام کے شخص سے تعارف نہیں۔ یہ کوئی درجہ اول کا فتنہ پرور انسان ہے جو پاکستان کے بچوں کو علم، سیاسی شعور اور سماجی آگہی جیسی برائیوں میں مبتلا کرنا چاہتا ہے۔ یہ شخص چاہتا ہے کہ ہمارے ہونہار بچے عبدالغفار خان، حسین شہید سہروردی، غوث بخش بزنجو اور فیض احمد فیض جیسے افراد کو اچھا سمجھنے لگیں نیز ایوب خان، یحییٰ، ضیاالحق اور مشرف جیسے محسنین قوم کی عظمت سے انکار کریں۔ پڑھنے والے گواہ رہیں، میں نے سرعام شازار جیلانی نامی شخص کے گمراہ خیالات سے لاتعلقی کا اعلان کیا"۔

syed-shazar-jilani has 127 posts and counting.See all posts by syed-shazar-jilani

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments