مفاہمت کا بادشاہ آصف علی زرداری اور طفل مکتب عمران خان


نصف صدی سے صحافت کی وادی میں خبر کی تلاش اور سچائی پر قلم اٹھانے کی کوشش کر رہا ہوں پاکستانی سیاست میں ہر روز سورج ایک نئی خبر اور واقعہ لے کر طلوع ہوتا ہے۔ 22 جولائی کو پنجاب اسمبلی میں وزیر اعلیٰ کے رن آف الیکشن میں جو کچھ ہوا پاکستان کی جمہوری تاریخ میں اس کی نظیر نہیں ملتی۔ مفاہمت کے بادشاہ آصف علی زرداری نے ناممکن کو ممکن کر دکھایا۔ کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ آصف علی زرداری ہاری ہوئی جنگ کو آخری راؤنڈ میں فتح میں تبدیل کر دیں گے۔ کسی کے وہم گمان میں بھی نہ تھا کہ رن آف الیکشن کے لئے کرائی جانے والی ووٹنگ سے چند منٹ قبل مسلم لیگ (ق) کے صدر چوہدری شجاعت حسین کا خط آ جائے گا جس میں مسلم لیگ (ق) کے 10 ارکان بشمول ان کے کزن چوہدری پرویز الہی جو کہ خود وزارت اعلیٰ کے لئے پی ٹی آئی کے امیدوار ہیں، کو حمزہ شہباز کو ووٹ دینے کی ہدایت کی جائے گی۔

یہ الگ بات ہے پنجاب اسمبلی میں پوری مسلم لیگ (ق) نے بغاوت کر دی اور ان کے حکم کو قابل در خور اعتنا نہ سمجھا۔ 17 جولائی کو پنجاب اسمبلی کے 20 حلقوں میں ہونے والے ضمنی انتخابات میں پی ٹی آئی نے 20 میں سے 15 نشستیں جیت لیں جس سے پنجاب اسمبلی میں طاقت کا توازن پی ٹی آئی کے نامزد امیدوار کے حق میں ہو گیا۔ آخر وقت تک مسلم لیگ (ق) کے 10 ارکان یہی سمجھ رہے تھے کہ انہوں نے چوہدری پرویز الہی کو ہی ووٹ دینا ہے۔ وزیر اعلیٰ پنجاب کے رن آف الیکشن سے دو تین روز قبل پنجاب اسمبلی کے ارکان کی منڈی لگی دونوں اطراف خرید فروخت لے الزامات عائد بھی کیے جاتے رہے کسی حد تک ان الزامات میں صداقت بھی تھی۔

دونوں اطراف سے دو چار ارکان ووٹنگ کے بعد پارلیمانی منظر غائب ہوئے کسی کا کورونا کا ٹیسٹ پازیٹو آ گیا اور کوئی ترکی چلا گیا کسی نے پنجاب اسمبلی سے استعفاٰ ہی دے دیا سابق وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید احمد کی رقم پہنچانے کی آڈیو نے بڑی شہرت حاصل کی ہے۔ پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان نے بھی وزیر اعلی پنجاب کے الیکشن سے قبل لاہور میں ڈیرہ ڈال لیا تھا جب ان کے سب سے بڑے حریف آصف علی زرداری تو پہلے ہی سے لاہور میں ڈیرے ڈالے ہوئے تھے۔

ان کے لاہور میں بیٹھنے سے پی ٹی آئی کو سب سے زیادہ تکلیف تھی۔ لہذا عمران خان سمیت پی ٹی آئی کے ہر لیڈر کی توپوں کا رخ آصف علی زرداری کی طرف تھا۔ آصف علی زرداری اور چوہدری شجاعت حسین کے درمیان محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد سیاسی تعلقات نے دوستی کی شکل اختیار کر لی تھی۔ ایک اخبار نویس نے چوہدری شجاعت حسین سے آصف علی زرداری کی پیپلز پارٹی سے دوستی بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا کہ سارے بھٹوز تو اللہ کو پیارے ہو گئے ہیں۔ میرے والد چوہدری ظہور الہی کے قاتل بھی اپنے انجام کو پہنچ گئے۔ اب ہمارا پیپلز پارٹی سے کیا جھگڑا؟

پھر قاتل لیگ پیپلز پارٹی کے درمیان دوستی کا ایک نیا دور شروع ہوا جو اب تک قائم ہے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو گجرات میں چوہدری شجاعت حسین کے گھر آ کر چوہدری فیملی اور بھٹو خاندان کے درمیان دشمنی ختم کرنا چاہتی تھیں۔ چوہدری شجاعت حسین نے محترمہ بے نظیر بھٹو کو چادر پہنانا تھی لیکن چوہدری شجاعت حسین کی بہنیں محترمہ بے نظیر بھٹو کی ظہور پیلس آمد کی راہ میں حائل ہو گئیں۔

آصف علی زرداری کا چوہدری شجاعت حسین پر بڑا اثر ہے۔ وہ ان کی بات کو نہیں ٹالتے بلکہ اکثر و بیشتر ان کی باتوں کو قبولیت بخشتے ہیں۔ جب عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی ہنڈیا چولہے پر چڑھی نہیں تھی۔ چوہدری شجاعت حسین چوہدری پرویز الہی کو وزیر اعلیٰ پنجاب بنانے کی شرط پر عمران خان کے خلاف ووٹ دینے پر آمادہ ہو گئے مسلم لیگ (ن) پنجاب کسی صورت بھی مسلم لیگ (ق) کو دینے کے لئے تیار نہیں تھی لیکن یہ آصف علی زرداری تھے جنہوں نے میاں نواز شریف کو نہ صرف عدم اعتماد کی تحریک پیش کرنے پر آمادہ کیا بلکہ انہوں نے میاں نواز شریف سے چوہدری پرویز الہی کو وزیر اعلیٰ بنوانے کی آشیر باد بھی حاصل کر لی۔ چوہدری شجاعت حسین اس معاہدے کے ضامن بن گئے۔ باقاعدہ دعا خیر ہوئی چوہدری پرویز الہی نے سب کو مٹھائی کھلوائی لیکن اچانک کیا ہوا چوہدری پرویز الہی عمران خان سے کیا ملنے گئے کہ ان ہی کے ہو کر رہ گئے۔ انہوں نے پی ٹی آئی کی سپورٹ سے پنجاب کا وزیر اعلیٰ بننے کا اعلان کر دیا۔

شنید ہے ان کے صاحبزادے چوہدری مونس الہی کا اپنے والد چوہدری پرویز الہی پر بڑا اثر ہے۔ انہوں نے چوہدری پرویز الہی کو اپنا فیصلہ تبدیل کرنے پر مجبور کیا چوہدری شجاعت حسین اور چوہدری پرویز الہی کے درمیان اختلافات کا آغاز بھی یہیں سے ہوا چوہدری شجاعت حسین چوہدری پرویز الہی کو نواز شریف کا وزیر اعلیٰ بنوانا چاہتے تھے لیکن چوہدری پرویز الہی نے عمران خان کا وزیر اعلیٰ بننے کا فیصلہ کر لیا۔ چوہدری برادران میں سیاسی اختلافات کی خلیج دن بدن گہری ہوتی چلی گئی ان اختلافات کا منطقی انجام چوہدری شجاعت حسین کے اس خط میں ہوا جس کے تحت چوہدری شجاعت حسین عمران خان کے نامزد کردہ وزیر اعلیٰ کے امیدوار چوہدری پرویز الہی کے حق میں ووٹ دینے سے دستبردار ہو گئے اور انہوں نے حمزہ شہباز شریف کو ووٹ دینے کی ہدایت کی

یہ الگ بات ہے مسلم لیگ (ق) کے 10 ارکان صوبائی اسمبلی نے چوہدری شجاعت حسین کے حکم کو اپنی جوتی کی نوک پر رکھا اور سب ارکان نے چوہدری پرویز الہی کو ووٹ دیا۔ جب چوہدری پرویز الہی کو چوہدری شجاعت حسین کے خط کا علم ہوا تو مسلم لیگ (ق) نے فوری طور جوابی کارروائی کی اور مسلم لیگ (ق) کی پارلیمانی پارٹی کا اجلاس منعقد کرنے اور نیا پارلیمانی لیڈر بنانے کا پریس ریلیز جاری کر دیا۔ اس کے ساتھ ہی نئے پارلیمانی لیڈر ساجد بھٹی کی طرف چوہدری پرویز الہی کو ووٹ دینے کا اعلان کر دیا گیا۔ مسلم لیگ (ق) کے 10 ارکان جو تذبذب کا شکار تھے، آخر میں انہوں نے اپنے ڈی سیٹ ہونے کی پروا کیے بغیر چوہدری پرویز الہی کو اپنے ووٹ ڈال دیے۔

اس میں شک و شبہ کی گنجائش نہیں کہ آصف علی زرداری پچھلے چند دنوں سے بلاوجہ لاہور میں بیٹھے ہوئے نہیں تھے۔ ان کا اسٹیبلشمنٹ اور نواز شریف دونوں سے رابطہ ہے۔ انہوں نے جہاں چوہدری شجاعت حسین سے مسلسل تین چار ملاقاتیں کیں وہاں انہوں نے میاں نواز شریف کو بھی لمحہ بہ لمحہ پیش رفت سے آگاہ رکھا اور حکومتی اتحاد میں شامل جماعتوں کے سربراہی اجلاس سے بھی اپنے اقدامات کی منظوری لیتے رہے۔ جب آصف علی زرداری نے دیکھا کہ کھیل ان کے ہاتھ سے نکلتا جا رہا ہے تو انہوں نے ترپ کا پتا پھینکا جس سے بازی ہی الٹ گئی۔

بہر حال حمزہ شہباز کو ایک بار پھر کامیاب کرانے میں جہاں دیگر عوامل کا عمل دخل ہے وہاں آصف علی زرداری کے کردار کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ آصف علی زرداری نے میاں نواز شریف کو ایک بار پھر چوہدری پرویز الہی کو وزیر اعلیٰ بنانے پر آمادہ کر لیا تھا۔ شرط صرف یہ رکھی گئی کہ مسلم لیگ (ن) کے وزیر اعلیٰ کے طور پر انتخاب لڑیں لیکن چوہدری پرویز الہی نے عمران خان کا کیمپ چھوڑنے سے انکار کر دیا جس کے بعد چوہدری شجاعت حسین کو اپنا آئینی اختیار استعمال کرنا پڑا۔ اس اختیار کے استعمال کے بعد ہی ڈپٹی سپیکر دوست محمد مزاری کو چوہدری پرویز الہی کے حق میں ڈالے گئے ووٹوں کو سپریم کورٹ کے اس حکم کے تحت ہی 10 ووٹ مسترد کرنا پڑے جس کے تحت 22 جولائی کو رن آف الیکشن کرایا۔

عمران خان اپنے سیاسی مخالفین کو مختلف القابات سے نوازتے رہتے ہیں۔ آصف علی زرداری کو ملک کا سب سے بڑا ڈاکو قرار دیتے ہیں۔ انہوں نے اسی آصف علی زرداری کے تعاون سے محمد صادق سنجرانی کو چیئرمین سینیٹ بنوایا تھا۔ پھر اس کے بدلے پیپلز پارٹی نے اپنا ڈپٹی چیئرمین سینیٹ بنوا لیا تھا۔ دلچسپ امر یہ ہے بلوچستان ہو یا کوئی صوبہ عمران خان آصف علی زرداری کے سامنے بچھے جاتے تھے۔ وہ کل تک چوہدری پرویز الہی کو پنجاب کا ڈاکو کہتے تھکتے نہیں تھے۔ آج اسی شخص کو وزارت اعلیٰ کا امیدوار بنا لیا ہے۔

ویسے تو عمران خان کے یو ٹرن بڑی شہرت رکھتے ہیں لیکن میدان سیاست میں قدم قدم پر ماضی ان کا تعاقب کرتا ہے جو انہیں یو ٹرن لینے پر مجبور کر تا رہتا ہے۔ آصف علی زرداری سب پہ بھاری کا نعرہ لگایا جاتا تھا جسے پیپلز پارٹی نے آصف علی زرداری سب سے یاری میں بدل دیا۔ پنجاب اسمبلی میں آخری وقت جو کچھ ہوا اس کا کسی کو اندازہ نہیں تھا جس طرح انہوں نے عمران خان کو لاہور میں مات دی ہے۔ ان کے سیاسی مخالفین بھی میدان سیاست کے شہسوار آصف علی زرداری کی صلاحیتوں کے معترف ہو گئے ہیں۔

آصف علی زرداری کے سامنے عمران خان طفل مکتب نظر آتے ہیں۔ مسلم لیگ ق کے سربراہ چودھری شجاعت حسین نے کہا ہے کہ میں اداروں پر تنقید کرنے والوں کی حمایت نہیں کر سکتا، پرویز الہی میرا وزیراعلی کا امیدوار تھا اور آج بھی ہے اور کل بھی رہے گا لیکن وہ پی ٹی آئی کا امیدوار نہیں بن سکتا۔ اداروں کے ساتھ 30 سال سے ایک تعلق رہا ہے۔ کیسے تنقید کرنے والوں کی حمایت کر سکتا ہوں، انہیں اداروں کی وجہ سے پاکستان میں استحکام ہے۔ تمام جماعتوں کے لیڈران اپنے ذاتی مفادات اور ذاتی سوچ کو بالائے طاق رکھیں تاکہ ملک مزید بحرانوں کا شکار نہ ہوں۔ چودھری شجاعت نے کہا ہے کہ سیاسی مخالفت کو ذاتی مخالفت بنا کر غلط معنی نکالنے کی کوشش نہ کی جائے، جس کو بھی اقتدار میں آنے کا موقع ملے وہ سیاسی مخالفین کے پاس جائے، ملک کے بہتر مفاد کے لئے مل بیٹھ کر مشاورت سے آگے بڑھیں۔

سپریم کورٹ کے حکم پر 22 جولائی کو منعقد ہونے وزیر اعلیٰ پنجاب کے رن آف الیکشن میں ڈپٹی سپیکر دوست محمد مزاری نے مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے امیدوار حمزہ شہباز 179 ووٹ لینے پر وزیر اعلیٰ پنجاب منتخب قرار دے دیا جب کہ اسی شب گورنر پنجاب بلیغ الرحمنٰ نے وزیر اعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز شریف سے حلف بھی لے لیا ہے۔ پی ٹی آئی نے بھی اسی رات سپریم کورٹ لاہور رجسٹری کا دروازہ کھٹکھٹانے کے لئے اودھم مچا دیا اور زبردستی سپریم کورٹ کا رجسٹری آفس کھلوا کر درخواست جمع کرائی حکمران اتحاد نے پنجاب میں ڈپٹی سپیکر رولنگ کیس میں سپریم کورٹ سے فل بینچ بنانے کی اپیل کر دی ہے۔

مشترکہ اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ قرین انصاف ہو گا کہ عدالت عظمی کے تمام معزز جج صاحبان پر مشتمل فل کورٹ، سپریم کورٹ بار کی نظر ثانی درخواست اور دیگر متعلقہ درخواستوں کو ایک ساتھ سماعت کے لئے مقرر کر کے اس پر فیصلہ صادر کرے، اعلامیہ میں مزید کہا گیا کہ حکمران اتحاد میں شامل جماعتیں اس عزم کا واشگاف اعادہ کرتی ہیں کہ آئین، جمہوریت اور عوام کے حق حکمرانی پر ہر گز کوئی سمجھوتہ نہیں ہو گا۔ ہر فورم اور ہر میدان میں تمام اتحادی جماعتیں مل کر آگے بڑھیں گی اور فسطائیت کے سیاہ اندھیروں کا ڈٹ کر مقابلہ کریں گی۔

وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ نے بھی پنجاب میں ڈپٹی سپیکر رولنگ کیس میں سپریم کورٹ سے فل بینچ بنانے کی اپیل کرتے ہوئے کہا کہ چیف جسٹس ہمارے لئے بھی انصاف کا معیار ٹھیک کریں۔ انہوں نے استدعا کی ہے کہ ہمارے کیسز فل بینچ سنیں ماضی میں نواز شریف سمیت مسلم لیگ (ن) کی قیادت کو سزا سنانے والے جج ہمارے خلاف کیسز کی سماعت کرنے والے بنچوں میں بیٹھتے ہیں۔ اس سے عدالتی روایات کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔ جن کیسز میں مسلم لیگ (ن) فریق ہے۔ ان میں یہ جج نہ بیٹھیں یا پھر فل کورٹ ان کیسز کی سماعت کرے، تاکہ انصاف ہوتا نظر آئے ہمارے خلاف اپنا ذہن ایکسپوز کرنے والے ججوں کو ہمارے کیسز والے بنچوں میں نہیں بیٹھنا چاہیے،

پنجاب اسمبلی کے ڈپٹی سپیکر دوست مزاری نے کہا ہے کہ میں نے خود چوہدری شجاعت کو ٹیلیفون کال کر کے پوچھا تو انہوں نے تین مرتبہ کہا کہ یہ خط صحیح ہے۔ لہذا میں نے سپریم کورٹ کی رولنگ کے مطابق فیصلہ دیا ہے۔ دلچسپ امر ہے کہ راجہ محمد بشارت نے کہا ہے کہ چوہدری شجاعت حسین اس کے مجاز ہی نہیں۔

سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں چیف جسٹس پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے وزیراعلیٰ پنجاب کے معاملے پر پرویز الٰہی کی درخواست پر سماعت کی ہے۔ عدالت نے درخواست پر فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ حمزہ شہباز پیر تک بطور ٹرسٹی وزیر اعلیٰ کام کریں گے۔ وزیر اعلیٰ کے اختیارات محدود رہیں گے۔ تمام تقرریاں میرٹ پر ہوں گی۔ میرٹ سے ہٹ کر تقرریاں ہوئیں تو کالعدم کر دیں گے۔ وزیراعلیٰ سیاسی فائدے کے لیے کچھ نہیں کریں گے۔

سپریم کورٹ کا وزیر اعلیٰ پر چیک رہے گا۔ بادی النظر میں ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ سپریم کورٹ کے فیصلے کے برعکس ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے۔ سپریم کورٹ کا یہی بینچ کیس کی سماعت کرتا ہے جس فل کورٹ بنائی جاتی ہے۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کے ملکی سیاسی صورتحال پر گہرے اثرات مرتب ہوں گے۔ سر دست حکومتی حلقوں کی جانب سے چوہدری شجاعت حسین کے کردار کو سراہا جا رہا ہے۔ اسے جمہوریت اور آئینی اقدار کی جیت قرار دیا جا رہا ہے اور کہا جا رہا ہے کہ ملک کو عمرانی فتنے سے بچا لیا گیا ہے۔

حکومت اور اپوزیشن کے درمیان اسٹیبلشمنٹ کی ’نرم مداخلت‘ کے ذریعے جلد مذاکرات شروع ہونے اور اکتوبر میں ملک میں عام انتخابات ہونے کا امکان پیدا ہو گیا ہے۔ اسلام آباد میں ایک افواہ گردش کر رہی ہے۔ ملک میں موجودہ سیاسی و معاشی عدم استحکام کے پیش نظر اسٹیبلشمنٹ ماضی کی طرح سیاستدانوں کو مذاکرات کے لیے آمادہ کرنے پر غور کر رہی ہے۔ تاہم اس حوالے سے حتمی فیصلہ سیاستدانوں نے ہی کرنا ہے۔ دوسری طرف عمران خان نے بھی الیکشن، معیشت اور آرمی چیف کی تقرری پر مذاکرات کے لئے تیار ہونے کا عندیہ ہے۔ 25 مئی کو بھی عمران خان کے اسلام آباد مارچ کے موقع پر اسٹیبلشمنٹ نے سیاستدانوں کو مذاکرات کے لیے آمادہ کیا تھا لیکن اس وقت بھی کوئی مثبت پیش رفت نہ ہو سکی اب دیکھنا یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ سافٹ مداخلت کیا رنگ لاتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments