پاکستان کا نازک دور اور اشرافیہ کی عیاشی


جب سے ہوش سنبھالا ہے ایک بات ہر دوسرے دن سماعتوں سے ٹکراتی ہے کہ ”پاکستان تاریخ کے نازک ترین دور سے گزر رہا ہے“ پچھتر سال ہونے کو آئے ہمیں آزاد ہوئے لیکن یہ کم بخت نازک دور ایسا چمٹا ہے کہ عوام کی جان چھوڑنے کا نام ہی نہیں لے رہا۔ عوام کا خصوصی تذکرہ اس لیے کیا کیونکہ یہ نازک دور صرف عوام کے لیے ہے۔ سیاستدانوں، بڑے سرکاری افسران یا طاقتور ادارے پہلے دن سے پانچوں انگلیاں گھی میں اور سر اس کڑاہے میں رکھے ہوئے ہیں جہاں عوام کی رگوں سے نچوڑے ہوئے ٹیکس کے پیسے سے بھاری تنخواہیں ہیں، درجنوں کنال پہ پھیلے وسیع و عریض بنگلے ہیں اور درجنوں نوکر چاکر الرٹ کھڑے اپنے آقا کے اشارے کے منتظر ہیں۔

بجلی فری ہے، سرکاری گاڑیوں کے فیول کی مد میں ہزاروں روپے الگ ہیں۔ جہاز اور ریلوے کے ٹکٹ ارزاں نرخوں پہ حاصل کرنے کی سہولت کے علاوہ طرح طرح کے ایسے الاؤنسز ہیں جو عام آدمی کی سوچ میں بھی نہیں آ سکتے اور یہ اس ملک کی بیوروکریسی، سیاستدانوں اور مقتدر طبقے کے لیے ہے جہاں دو کروڑ سے زائد لوگ اب بھی رات کو بھوکے سوتے ہیں۔

چند دن پہلے آپ نے ایک وزیر صاحب کے منہ سے یہ جملہ ضرور سنا ہو گا کہ ہمارے پاس تو زہر کھانے کے پیسے نہیں ہیں۔ سری لنکا والی صورتحال کا الارم ہر دوسرے دن کسی نا کسی میڈیا چینل پہ بجایا جا رہا ہوتا ہے۔ آئی ایم ایف کا بیل آؤٹ پیکج لینے کے لیے رنگا رنگ شرائط مان کر عوام پر روزانہ مہنگائی بم پھوڑے جا رہے ہیں حکومتی وزراء صبح شام خالی خزانے کی دہائیاں دیتے نظر آتے ہیں لیکن دوسری طرف اسی حکومت کی بیوروکریسی پہ عنایتوں کی بارش دیکھیے کہ گریڈ 17 سے 22 تک کے افسران کے لیے 2022 کے بنیادی پے اسکیل پہ 150 فیصد ایگزیکٹو الاؤنس کی منظوری دے دی گئی ہے۔

ابھی چند دن پہلے جون کے وفاقی بجٹ میں تمام ملازمین کی طرح ان افسران کو بھی 15 فیصد تنخواہ میں اضافہ دیا گیا تھا اور اب یہ بھاری الاؤنس۔ ذرائع نے کنفرم کیا ہے کہ ان مقاصد کے لیے بجٹ میں آل ریڈی 200 ارب روپے رکھے جا چکے ہیں یکم جولائی کو لاگو ہونے والے پے اینڈ پنشن پیکج میں اس کا نوٹیفکیشن جاری نہ کر کے حکومت نے اس کو روک لیا تھا اور یہ تجویز سرد خانے میں چلی گئی تھی لیکن ایک بار پھر اس تجویز کو نئی شرائط کے ساتھ منظوری کے لئے وزیراعظم سیکرٹریٹ کو بھجوایا جا چکا ہے۔ آئی ایم ایف کے ساتھ اخراجات پر کنٹرول کے مجوزہ پلان کی منظوری کے وقت ایگزیکٹو الاؤنس کی ایڈجسٹمنٹ کی بھی منظوری لی گئی ہے۔

معروف صحافی آصف محمود کے مطابق اسلام آباد میں تمام سیکشن افسرز، تمام ڈپٹی سیکرٹریز، تمام جوائنٹ سیکرٹریز، سینیئر جوائنٹ سیکرٹریز، ایڈیشنل سیکرٹریز، اسپیشل سیکرٹریز، وفاقی سیکرٹریٹ کے تمام سیکرٹریز، اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کے تمام افسران سمیت اسسٹنٹ کمشنرز، ڈپٹی کمشنر اور چیف سیکرٹری اس مال غنیمت میں سے اپنا حصہ وصول کریں گے اور اس بند بانٹ کے بعد کھڑے کھڑے ایک بیوروکریٹ کے تنخواہ میں دو لاکھ روپے ماہانہ تک اضافہ ہو جائے گا۔ اور یہ ساری رعونت کے ساتھ پھر عوام دشمن پالیسیاں بنائیں گے اور کندھے اچکا کر وعظ دیا کریں گے کہ کیا کریں ملکی معاشی حالات بہت خراب ہیں۔ ہمیں مشکل فیصلے کرنا پڑ رہے ہیں۔ ہمیں تو زہر کھانے کے لیے بھی پیسے نہیں مل رہے۔

اگر آپ پاکستان کی تاریخ پہ نظر دوڑائیں تو صاف صاف نظر آئے گا کہ یہی وہ بیوروکریسی ہے جو پاکستان کو دیمک کی طرح چاٹ رہی ہے۔ سیاست دانوں کی کرپشن پہ بات کرنا اب ایک فیشن بن چکا ہے۔ ہر چینل پہ اگر کرپشن کی بات ہوتی ہے تو صرف سیاستدانوں کی حد تک۔ لیکن بیوروکریسی کی وائٹ کرپشن پہ کوئی بات نہیں کرتا آج تک کسی نے یہ پوچھنے کی جسارت کی کہ کیوں واشنگٹن ڈی سی کا وائٹ ہاؤس 147 کنال پہ پھیلا ہوا جبکہ صرف کمشنر سرگودھا کی سرکاری رہائش گاہ 107 کنال کی وسعت رکھتی ہے۔ یہ صرف ایک مثال ہے ورنہ آپ خود اپنی تحصیل، ضلع میں اسسٹنٹ کمشنر، ڈپٹی کمشنر، یا ڈسٹرکٹ پولیس افسرز کی سرکاری رہائش گاہیں اندر سے دیکھ لیں تو آپ کی آنکھیں حیرت سے پھٹی کی پھٹی رہ جائیں کہ کیا یہ واقعی نازک دور سے گزرتا پاکستان ہے؟

پوری دنیا میں سب سے زیادہ تنخواہیں اور مراعات یونائٹڈ نیشن آرگنائزیشن دیتا ہے لیکن یقین کریں ہماری بیوروکریسی نے مراعات کے معاملے میں اقوام متحدہ کے افسران کو بھی احساس کمتری میں مبتلا کر رکھا ہے۔ پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈیولپمنٹ اکنامکس کی رپورٹ کے مطابق ہماری بیوروکریسی کی اوسط تنخواہ اقوام متحدہ کے افسران کی تنخواہ سے 12 فیصد زیادہ ہے۔

اس سب کے باوجود اصل دکھ اس بات کا ہے کہ عوامی رگوں سے زبردستی نچوڑے ہوئے ٹیکس پہ پلنے والے یہ افسران اسی عوام کو جانوروں کی طرح ٹریٹ کرتے ہیں۔ یہ آپ سب بھی جانتے ہیں کہ سرکاری اداروں میں عوام کو ذلیل کرنے کے لیے کس طرح نت نئے طریقے آزمائے جاتے ہیں۔

پچھلے تین ماہ سے پاکستان میں حکومتی استحکام نہ ہونے کے برابر ہے۔ پاکستان کے سب سے بڑے صوبے میں وزرات اعلیٰ کے لیے ایک سرکس ہے جس کا ہاؤس فل شو ہر دوسرے دن پیش کیا جاتا ہے لیکن ایسی صورتحال میں چند ماہ کی پاکستان مسلم لیگ نون کی حکومت آتے ہی بیوروکریسی کو نوازنا بالکل نہیں بھولی۔ چند مہینے یا پھر عام انتخابات کا انتظار کرنا بھی گوارا نہیں کیا۔

دوسری طرف پاکستان کا عام نوجوان ڈگریاں ہاتھوں میں تھامے دفتر دفتر چکر لگاتا پھر رہا ہے صوبوں کے پبلک سروس کمیشن ہوں یا فیڈرل کا وہاں بھی نوجوانوں کے لیے ایسا کچھ نہیں ہے جو انہیں مطمئن کر سکے۔ پرائیویٹ سیکٹر کو پاکستان میں پنپنے ہی نہیں دیا گیا ورنہ ہم اپنے پڑوسی ملک انڈیا کو دیکھیں تو وہاں کا پڑھا لکھا نوجوان بجائے سرکاری نوکر بننے کے پرائیویٹ سیکٹر میں اپنا فیوچر بنانا پسند کرتا ہے کیونکہ وہاں سہولیات اور سیلری پیکجز زیادہ ہوتے ہیں جبکہ پاکستان میں ستر فیصد پرائیویٹ سیکٹر میں اتنی کم تنخواہیں ہیں کہ اس سے بمشکل گھر کا کرایہ اور بل بجلی ہی ادا کیا جا سکتا ہے۔

اس پہ مستزاد اس وقت مہنگائی کی شرح تاریخ کی بلند ترین سطح پہ ہے۔ بیروزگاری بھی عروج پہ ہے نوجوان اپنے مستقبل کے حوالے سے بہت زیادہ مایوسی کا شکار نظر آتے ہیں۔ ایسے وقت میں اتنے بھاری الاؤنسز کی خبریں نوجوانوں کی مایوسی میں مزید اضافہ کرتی ہیں۔ البتہ خوشی کی بات یہ ہے کہ جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد خان نے بیوروکریسی کی وائٹ کرپشن کو سینٹ میں اٹھانے کا اعلان کر دیا ہے بلکہ عملی طور پہ 22 جولائی کو انہوں نے سیکرٹری سینٹ کو خط لکھا ہے کہ اس معاملے کو سینٹ میں زیربحث لانے کا کہا ہے۔ سینیٹر مشتاق نے ٹویٹ کرتے ہوئے کہا کہ

حکومت کی جانب سے وفاقی ملازمین اور اسلام آباد کیپیٹل ٹیریٹری کے گریڈ 17 تا 22 ملازمین کو حالیہ بجٹ میں تنخواہ میں 15 ٪اضافہ کے علاوہ 150 ٪ اضافہ کے ساتھ ایگزیکٹیو الاؤنس دیے جانے کے مسئلہ کو زیر بحث لانے کے لیے تحریک سینیٹ سیکرٹریٹ میں جمع کروا دی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments