اب کے تشریحِ وفا کا نہیں امکاں جاناں


پرانے وقتوں میں جب ملکوں میں کوئی آئین نہیں ہوتا تھا تو بادشاہ کے اچانک مرجانے اور کسی والی وارث نہ ہونے کی صورت میں بحران سے بچنے کی خاطر بہت آسان طریقے اختیار کیے جاتے تھے۔ مثلاً امرا و وزرا ساری رات شہر کے داخلی دروازے پر انتظار کرتے تھے اور جو بھی شخص علی الصبح سب سے پہلے شہر میں داخل ہوتا تھا، اسی کے گلے میں مالائیں ڈال کر بادشاہ منتخب کر لیا جاتا تھا۔ پھر آہستہ آہستہ وقت بدلنے لگا، بادشاہت کی جگہ جمہوریت نے لے لی، آئین و قوانین کی تشکیل ہوئی اور امور مملکت ایک نظام کے تحت چلائے جانے لگے۔

پاکستان کے قیام کے بعد اللہ بھلا کرے انگریزوں کا، جو قوانین کی شکل میں پینل کوڈ اور اس کی تشریح کے لئے کرمنل پروسیجر کوڈ جیسی موٹی کتابیں یہاں چھوڑ گئے۔ جن کو آج تعزیرات پاکستان اور مجموعہ ضابطہ فوجداری کا نام دے کر کاروبار مملکت چلایا جاتا ہے۔ اور تو اور لیکن یہ کافر معمولی سے مسائل کے حل کے لئے بھی مقامی اور خصوصی قوانین کی کتاب لوکل اینڈ اسپیشل لاز کے نام سے مرتب کر گئے۔ بعد میں مختلف ادوار میں حکمرانوں نے اپنی پسند، ضرورت اور ترجیحات کے مطابق ان میں اضافہ کرتے ہوئے مختلف دفعات بھی شامل کیں اور ان قوانین کو تھوڑا سا اسلامی ٹچ بھی دے دیا۔ لیکن پاک و ہند میں قوانین اور انفراسٹرکچر کی بنیاد آج بھی اسی عمارت پر کھڑی ہے جو انگریز یہاں چھوڑ کر گئے تھے۔

دو قومی نظریے کے تحت اور سنہ 1940 کی قرارداد کی منظوری کے بعد صرف سات سالوں میں یہ ملک تو معرض وجود میں آ گیا، لیکن بدقسمتی سے آئین کی تیاری میں نو سال کا عرصہ لگ گیا۔ یہی وجہ ہے کہ 1956 کے پہلے آئین کے نفاذ تک ریاست پاکستان کا سربراہ، برطانیہ کا بادشاہ ہوا کرتا تھا اور پاکستان کا سب سے بڑا عہدے دار گورنر جنرل بھی تاج برطانیہ کا نمائندہ سمجھا جاتا تھا۔

اللہ اللہ کر کے کفر ٹوٹا اور 1956 میں پاکستان کے پہلے آئین کی تشکیل مکمل قرار پائی اور اس کے نتیجے میں مملکت خداداد کو پہلی بار اسلامی جمہوریہ پاکستان کہلانے کا شرف حاصل ہوا۔ ملک میں جمہوریت کے خدو خال کو واضح اور نمایاں کرتے ہوئے، تاج برطانیہ کے وفادار حلف یافتہ گورنر جنرل کا عہدہ ختم کر دیا گیا اور نیا عہدہ بنام صدر پاکستان تخلیق ہوا۔ لیکن نصیب دشمناں اسلامی جمہوریہ کو کچھ ایسی نظر لگی کہ پہلا آئین دو سال کی عمر میں ہی اللہ کو پیارا ہو گیا، کیونکہ 7 اکتوبر 1958 ء کو اس ملک کے ساتھ میرے عزیز ہم وطنو ہو گیا تھا۔

1956 کے آئین کے خاتمے کے بعد یکم مارچ 1962 میں جنرل ایوب خان نے عوام کو نئے آئین کا تحفہ تھمایا، جس میں بنیادی انسانی حقوق کی تو ضمانت دی گئی تھی، لیکن طاقت کا مرکز صرف صدر کی ذات تھی، جس کو عقل کل مانتے ہوئے بے پناہ اختیارات تفویض کیے گئے تھے۔ جبکہ عوام کو تاڑی مارنے کے بھرپور مواقع حاصل تھے۔ دلچسپ بات یہ کہ ملک کا نام دائرہ اسلام سے خارج کرتے ہوئے جمہوریہ پاکستان رکھ دیا گیا تھا اور اس سے بھی دلچسپ یہ کہ اس تبدیلی پر اس وقت مذہبی حلقوں کو اسلام خطرے سے دوچار ہوتا ہوا بھی نظر نہیں آیا تھا۔

بہرحال 1972 کے عبوری آئین کے بعد 1973 میں اس ملک کو ایک ایسا آئین دیا گیا، جس پر اس وقت کی تمام سیاسی اور مذہبی جماعتوں کا اتفاق ہوا، اور وہ اتفاق آج بھی قائم ہے۔ اسے پاکستان کے اب تک کے سب سے بہترین دستور کے طور پر مانا جاتا ہے اور اس کا سہرا ذوالفقار علی بھٹو کے سر جاتا ہے۔ اس آئین کے تحت ملک کا نام دوبارہ دائرہ اسلام میں داخل کیا گیا اور ساتھ میں اسلام کی مضبوطی کے لئے دیگر اقدامات بھی کیے گئے۔ جن کے مطابق اسلام کو ریاست کا سرکاری مذہب قرار دیا گیا۔ اس کے علاوہ صدر اور وزیر اعظم کے لئے بھی مسلمان ہونا لازمی قرار دیا گیا۔ اردو پاکستان کی قومی زبان کردی گئی، ساتھ میں عربی زبان کے فروغ کو بھی آئین کا حصہ بنایا گیا۔ مزید یہ کہ جو شخص ختم نبوت ﷺ کا منکر ہو گا وہ دائرہ اسلام سے خارج تصور کیا جائے گا۔

عربی زبان کی ترویج اور ترقی کے لیے حکومتی سطح پر باقاعدہ انتظامات بھی کیے گئے۔ طلبہ و طالبات کے آٹھویں جماعت تک عربی کی تعلیم لازمی قرار دی گئی اور سرکاری سطح پر لیٹرین کا نام بیت الخلا رکھ دیا گیا۔ حمیتی حضرات نے بھی اس میں اپنا حصہ ڈالتے ہوئے فون پر ہیلو کی بجائے السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ بولنا شروع کیا اور بچوں کو خدا حافظ کہنے کے بجائے اللہ حافظ بولنے پر اصرار کیا۔

کسی بھی ملک کا دستور بناتے ہوئے اس بات کو یقینی بنایا جاتا ہے کہ اس کی ہر شق وضاحت اور صراحت کے ساتھ تحریر کی جائے تاکہ کسی قسم کا ابہام نہ رہے، لیکن پاکستانی نژاد امریکی ماہر قانون توصیف کمال کی نظر میں پاکستان کا موجودہ دستور تضادات اور ابہام کا ایک ایسا مجموعہ ہے، جسے غیر معیاری متن نے اور بھی متنازع دستاویز بنا دیا ہے۔ اس کے علاوہ وہ آئین پاکستان کو عدم مساوات کی ترویج اور ملک میں سیاسی عدم استحکام کو فروغ دینے کا ذمہ دار بھی قرار دیتے ہیں۔

شاید یہی وجہ ہے کہ مختلف ادوار میں حکومتوں کی جانب سے اعلٰی عدالت میں کبھی ریفرنس بھیج کر رائے طلب کی جاتی ہے تو کبھی تشریحات کی ضرورت پڑ جاتی ہے اور بعض اوقات ان تشریحات کو سمجھنے کے لئے بھی بینچ بنائے جاتے ہیں۔ صورت حال یہ ہو گئی ہے کہ بندہ دن کو وزیر اعظم ہوتا ہے تو رات کو اسے چماٹیں مارکر عدالتی احکامات پر عملدرآمد کروانے کی خبریں ملتی ہیں۔ اسمبلیوں میں دھینگا مشتی، کشتی اور مرہم پٹی کے مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں اور سب سے بڑا ستم یہ کہ بندہ اپنے آپ کو ووٹ دینے سے بھی نا اہل ہوجاتا ہے۔

نوٹ مضمون کی تیاری میں بی بی سی، وکیپیڈیا و دیگر ذرائع سے مدد لی گئی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments