تخت لاہور کا معرکہ


تمھارے خط میں نیا اک سلام کس کا تھا۔
نہ تھا رقیب تو آخر وہ نام کس کا تھا۔
وہ قتل کر کے مجھے، ہر کسی سے پوچھتے ہیں۔
یہ کام کس نے کیا یہ کام کس کا تھا۔

داغ دہلوی کی غزل کے یہ اشعار تخت لاہور کے فیصلہ کن معرکے میں آخری وقت پر بساط الٹنے پر یاد آئے۔ لگتا ہے کہ پاکستان کی سیاست خط کے ارد گرد گھوم رہی ہے۔

ایک خط سابق وزیراعظم عمران خان نے نے لہراتے ہوئے کہا تھا کہ
، میں الزام نہیں لگا رہا میرے پاس خط اس کا ثبوت ہے۔ ،
اس خط کو تہہ کر کے جیب میں رکھنے کے بعد کہا۔
، بیرونی سازش کی ایسی بہت سی باتیں ہیں جو مناسب وقت پر اور بہت جلد سامنے لاؤں گا۔
اس کے بعد سوشل میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا پر تبصرے شروع ہوئے یہ خط کس کا ہے اور کس نے لکھا ہے؟
اسی خط کو بنیاد بنا کر عمران خان نے سازش کا بیانیہ تیار کیا جسے وہ آگے بڑھاتے رہے۔

امریکی سازش کے بیانیے کے ذریعے انہوں نے عوامی حمایت حاصل کی۔ قومی سلامتی کمیٹی کی بار بار تردید سے سپریم کورٹ کے فیصلے کے باوجود عمران خان نے خط کے بارے میں اپنے بیانیے کو ہی پورا سچ باور کرایا۔ ضمنی انتخابات میں کامیابی کو اسی بیانیے کی جیت قرار دیا۔

انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد عمران خان تخت لاہور کے فیصلہ کن معرکے کی طرف بڑھے۔

بظاہر یہی لگ رہا تھا کہ تحریک انصاف اور اس کی اتحادی جماعت مسلم لیگ قاف کی عددی اکثریت انہیں کامیابی کی نوید سنائے گی۔

اسمبلی اجلاس سے قبل تحریک انصاف کی خواتین اور دوسرے ممبران ”وکٹری“ کا نشان بلند کرتے ہوئے یہ کہہ رہے تھے۔

”آج دل مطمئن ہے ہم خوش ہیں کہ کامیابی کی طرف بڑھ رہے ہیں“

پنجاب اسمبلی کا اجلاس تاخیر سے شروع ہوا اور ووٹنگ بھی۔ ووٹنگ شروع ہونے سے کچھ پہلے ایک خط کا تذکرہ شروع ہوا اور بعض چینلز پر یہ مونس الہیٰ کی اسمبلی سے واپسی کا تذکرہ اور اور ان کے حوالے سے یہ بریکنگ نیوز چلنے لگی۔

”میں ہار گیا، عمران ہار گئے اور زرداری جیت گئے“

اس پر تبصرے شروع ہوئے مگر بے یقینی کی کیفیت جاری رہی کوئی خط سے انکار کر رہا تھا، کوئی اسے جعلی قرار دے رہا تھا۔

خط کے مندرجات کا کسی کو علم نہ تھا اور ساتھ ساتھ یہ خیال آرائی بھی جاری تھی کہ اگر واقعی یہ خط ہے تو پرویز الٰہی اور قاف لیگ کے ارکان ووٹنگ میں حصہ نہیں لیں گے۔ یہ تو طے ہے کہ وزیر اعلیٰ پرویز الٰہی ہی ہوں گے مگر نون لیگ اور اس کے اتحادیوں کے امیدوار بن کر ۔ وقت گزرتا رہا کہ یہ خبر آ پہنچی کہ پرویز الٰہی سمیت قاف لیگ کے تمام ممبران نے بھی ووٹ پول کر دیے ہیں۔ ووٹنگ کا مرحلہ پر امن طریقے سے گزر گیا تو خط کے تذکرے پھر سے ہونے لگے اور متوقع صورتحال پر تبصرے بھی۔

کہا گیا کہ تحریک انصاف کی کامیابی نوشتہ دیوار ہے اسے کسی صورت روکا جانا ممکن نہیں۔ اس دوران ووٹوں کی گنتی شروع ہوئی تبصرے جاری تھے کہ کاونٹنگ کا عمل مکمل ہو گیا۔ اب نتائج کا انتظار تھا ہر ایک کی نگاہیں ڈپٹی اسپیکر دوست محمد مزاری پر مرکوز تھیں۔ ڈپٹی اسپیکر نے اپنا فیصلہ سناتے ہوئے چوہدری شجاعت حسین کے خط کا ذکر کیا، اس کے مندرجات پڑھے کہ قاف لیگ کے ارکان کو عمران خان کے امیدوار کو ووٹ ڈالنے سے منع کیا گیا ہے۔

سابق وزیر قانون راجہ بشارت نے آئین کی دفعہ پڑھ کر سنائی چوہدری شجاعت حسین اور ڈپٹی اسپیکر کے فیصلے کو غلط قرار دیا۔ اس کے جواب میں نے کہا کہ وہ آئین کی دفعہ پڑھ چکے ہیں آپ سپریم کورٹ کا فیصلہ بھی پڑھ لیں۔ خط کے مندرجات کے سپریم کورٹ کے فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے مسلم لیگ قاف کے ووٹ شمار نہ کرنے کی رولنگ دیتے ہوئے حمزہ شہباز کی ڈرامائی کامیابی کا اعلان کیا۔

تاریخ نے شاید بہت جلد اپنے آپ کو دہرایا ہے ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی قاسم سوری نے ایک خط کی بنیاد پر اسے پڑھے بغیر تحریک عدم اعتماد کو مسترد کر دیا تھا۔

پنجاب اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر دوست محمد مزاری نے بھی ایک خط کی بنیاد پر مسلم لیگ قاف کے ووٹ مسترد کر دیے فرق صرف یہ تھا کہ

ڈپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی نے خط کے مندرجات پڑھ کر رولنگ دی۔
تحریک انصاف تخت لاہور کی جنگ میں فتح کے قریب آ کر شکست سے دوچار ہو گئی۔

تحریک انصاف نے منحرفین کے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے پر خوشی کے شادیانے بجائے اور اسے عوامی فتح سے تعبیر کیا تھا وہی فیصلہ تخت لاہور کے معرکے میں اس کی فتح کی راہ میں حائل ہو گیا ایسے ہی موقع پر کہا جاتا ہے خود کردہ را علاج نیست (اپنے کیے کا کوئی علاج نہیں ہوتا) ۔

ماہرین قانون نے سپریم کورٹ کے اس فیصلے پر آئین کی دفعات کے تناظر میں تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس فیصلے کے نتیجے میں پارٹی سربراہ کو بادشاہ بنا دیا گیا ہے۔ پنجاب اسمبلی میں وہی بادشاہت عددی اکثریت پر غالب آئیں اور تحریک انصاف جیتی ہوئی بازی ہار گئی۔

اس بازی کو پلٹنے میں ایک بار پھر ”زرداری سب پر بھاری“ کی گردان سنائی دے رہی ہے۔

آصف علی زرداری اور چوہدری شجاعت حسین کے درمیان طے ہونے والے معاہدے کو انتہائی خفیہ رکھا گیا اور خط کی بھنک مسلم لیگ کے اراکین کو بھی نہ لگنے دی گئی۔ اس رازدارانہ حکمت عملی کے باعث تحریک انصاف اور مسلم لیگ قاف دونوں دھوکا کھا گئے۔

منصوبے کو خفیہ رکھنے کے لیے آئی جی پنجاب کی درخواست پر ان کا فوری تبادلہ کر دیا گیا۔
اس تبادلے سے چوہدری پرویز الٰہی اور تحریک انصاف نے یہ باور کر لیا کہ ”ستے خیراں نے“ ۔

آخر میں جب خط کی بنیاد پر ڈپٹی اسپیکر دوست محمد مزاری نے فیصلہ سنایا تو بازی پلٹ گئی۔ اب نہ ”جائے رفتن نہ پائے ماندن“ کی کیفیت سے تحریک انصاف اور پرویز الٰہی دوچار ہیں۔

ایک خط کی بنیاد پر عمران خان نے مخالفین اور منحرفین کو کٹہرے میں لاکر شکست دینے کے بعد ایک خط ہی کے ذریعے تخت لاہور کی جیتی بازی ہار گئے۔

چوہدری پرویز الٰہی کو آصف زرداری نے وزارت علیا کی پیشکش کی وہ معاہدہ طے کرنے کے بعد منحرف ہو گئے اسی انحراف کی انہیں یہ سزا ملی یا ضرورت سے زیادہ خود اعتمادی ان کو لے ڈوبی یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔

تحریک انصاف اسے ٹھنڈے پیٹوں برداشت نہیں کرے گی عمران خان نے احتجاج کی کال بھی دیدی ہے۔ سیاسی کھیل کا انجام کیا ہو گا یہ مستقبل قریب میں معلوم ہو جائے گا مگر ایک بات واضح ہو رہی ہے کہ سیاست دان جب تک اپنے فیصلے پارلیمنٹ میں نہیں کریں گے اور عدالت عدالت کھیلیں گے ان کے مسائل حل نہیں ہوں گے۔ اب معاملہ پھر عدالت گیا تو سوال یہ ہے کہ عدالت اب کون سا نکتہ نکال کر اپنے فیصلے کو بدلے گی؟

ملک اس وقت معاشی طور پر تباہ حال ہے سیاست دان اقتدار کے کھیل سے نکل کر ”میثاق معیشت“ کے لئے اکٹھے ہوں اور ملک و قوم کو اس بحرانی کیفیت سے نکالیں۔ عوام کو جو مہنگائی کے عفریت کا شکار ہیں انہیں ریلیف دیا جائے۔ یہ ملک ہو گا تو سیاست اور سیاست دان بھی ہوں گے۔ اگر اس ملک کی بقا اور سلامتی کو خطرات سے نہ نکالا گیا تو مشرقی پاکستان کے سقوط کا سانحہ ہمارے سامنے رہنا چاہیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments