غازی یونیورسٹی میں ”ڈاکٹر وزیر آغا صدی ( 1922۔ 2022 )“ کا انعقاد


شعبہ اردو غازی یونیورسٹی ڈیرہ غازی خان جیسی نوزائیدہ یونیورسٹی کا ابھرتا ہوا ستارہ ہے جو طلبہ کی تعلیمی، تدریسی، تحقیقی، تنقیدی، نصابی و ہم نصابی سرگرمیوں سے ان کی حقیقی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے ہر دم کوشاں اور سرگرم عمل ہے۔ محترم ڈاکٹر سہیل عباس بلوچ صاحب کی کرشماتی شخصیت اور علم دوست پالیسیوں کی وجہ سے شعبہ بلاشبہ ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔

گزشتہ روز یعنی 22 جولائی 2022 ع کو دنیائے ادب کے نامور شاعر، نقاد، مترجم، انشائیہ نگار اور مدیر اوراق جناب ڈاکٹر وزیر آغا کی علمی، ادبی خدمات کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے ”ڈاکٹر وزیر آغا صدی“ کے عنوان سے سیمینار ملٹی پرپز ہال میں منعقد ہوا۔ سیمینار کے انعقاد میں رئیس جامعہ محترم پروفیسر ڈاکٹر کامران عبداللہ صاحب نے خصوصی دلچسپی کا اظہار کیا۔ بہت ہی مختصر وقت میں پروگرام ترتیب دیا گیا۔ ایک طرف طلبہ، اساتذہ فائنل امتحانات کے عمل سے گزر رہے تھے اور دوسری جانب چھاجوں مینہ برس رہا تھا، ساتھ ہی بجلی کی طویل بندش نے عزائم کو متزلزل کیا اور یہ امکان تھا کہ شاید پروگرام التوا کا شکار ہو جائے لیکن صدر شعبہ پروگرام کے انعقاد کے لیے پرعزم رہے۔

یہ ضرور ہوا کہ صبح 11 بجے شروع ہونے والا پروگرام سہ پہر 3.30 بجے شروع ہوا۔ ہنگامی طور پر جنریٹر کا بندوبست کیا گیا۔ شعبہ اسلامیات کے چیئرمین محترم ڈاکٹر ارشد منیر صاحب نے اس سلسلے میں خصوصی تعاون کیا، شعبہ اردو اس تعاون کے لیے شکرگزار ہے۔ آواز اور روشنی کے انتظامات مکمل ہوئے تو پروگرام اپنی عملی صورت میں رواں دواں ہونے لگا۔

ڈاکٹر سہیل عباس بلوچ صاحب رئیس جامعہ محترم پروفیسر ڈاکٹر محمد کامران عبداللہ صاحب، رجسٹرار جامعہ محترم ڈاکٹر اللہ بخش گلشن صاحب اور دیگر صدر ہائے شعبہ، فیکلٹی ممبرز کے ہمراہ ہال میں داخل ہوئے۔ شعبہٴ اردو کے اساتذہ اور طلبہ کی جانب سے مہمانان گرامی کا شاندار استقبال کیا گیا۔

مہمان خصوصی پروفیسر ڈاکٹر محمد کامران عبداللہ صاحب رئیس جامعہ کی اجازت سے پروگرام کا باقاعدہ آغاز ہوا۔ محترمہ ڈاکٹر راشدہ قاضی نے مائیک سنبھالا اور حسب ترتیب تلاوت کلام پاک (طالب علم شعبہٴ اردو ) ، اور نعت رسول مقبول (طالب علم شعبہ اسلامیات ) نے عقیدت و احترام اور روحانی سرمدی جذبوں سے سرشار کر دیا۔ ڈاکٹر راشدہ صاحبہ اپنے مخصوص ادبی اسلوب میں نظامت کے امور سنبھالتے ہوئے ”ڈاکٹر وزیر آغا صدی“ کے انعقاد کا تعارف کرایا اور غرض و غایت بتائی اور ڈاکٹر وزیر آغا کے حوالے سے ڈاکومنٹری حاضرین کے سامنے پیش کی گئی جس کا سکرپٹ ڈاکٹر عابد خورشید صاحب نے تحریر کیا تھا اور اس کی خوب صورت صداکاری و عکاسی محمد شہباز صاحب نے کی۔

ڈاکومنٹری میں ڈاکٹر وزیر آغا کی شخصیت، ان کے فن پر بات کی گئی تھی۔ ڈاکٹر وزیر آغا کا دارالمطالعہ، ان کی رہائشگاہ کا اندرونی اور بیرونی منظر، ان کے گھر کو جاتی راہ گزر، وزیر کوٹ یعنی ڈاکٹر وزیر آغا کے گھر کے پاس بوڑھا برگد کئی کہانیوں کا امین دکھائی دے رہا تھا کیونکہ ڈاکٹر وزیر آغا اور یہ برگد کا درخت دونوں ہم عصر اور ہم عمر رہے ہیں، ڈاکٹر وزیر آغا کے ملکی اور عالمی اعزازات اور ان کی تصانیف کے عکس کے علاوہ آغا صاحب کی آخری آرام گاہ کے مناظر پردہ سکرین پر دکھائے جا رہے تھے اور ان دکھائے جانے والے مناظر کے پس منظر میں رواں تبصرے نے ایک سماں باندھ دیا تھا۔ حاضرین چشم تصور سے ڈاکٹر وزیر آغا کو اپنے سامنے دیکھ رہے تھے۔

ڈاکومنٹری تمام ہوئی تو راقم کو ڈاکٹر وزیر آغا کی شخصیت کے حوالے سے مقالہ پڑھنے کی دعوت دی گئی۔ راقم نے اپنا مضمون ”ڈاکٹر وزیر آغا خطوط کے آئینے میں“ پڑھا۔ ڈاکٹر وزیر آغا کے رسمی، غیر رسمی، علمی ادبی معاملات کے علاوہ ان کی بے تکلفی اور ہنسی مذاق کے مرقع ان خطوط میں نظر آتے ہیں، ساقی فاروقی، انور سدید، غلام جیلانی اصغر، ستیہ پال آنند اور مشفق خواجہ وغیرہ کے نام یہ خطوط وزیر آغا کی شخصیت کے کئی در وا کرتے ہیں۔ راقم کی طرف سے یہ تجویز بھی دی گئی کہ ڈاکٹر وزیر آغا کے خطوط کلیات کی شکل میں مرتب کر کے شایع کر دیے جانے چاہئیں۔

میری حاضری ہو چکی تو شعبہ انگریزی کے فائنل کے طالب علم اور میرے بہت ہی عزیز ریحان سعید کو آغا صاحب کی مشہور غزل پیش کرنے کی دعوت دی گئی۔ ریحان سعید ایک خوش گلو فن کار ہے، اس نے آغا صاحب کی خوب صورت غزل گا کر دلوں کے تار چھیڑ دیے :

دھوپ کے ساتھ گیا وہ ساتھ نبھانے والا
اب کہاں آئے گا وہ لوٹ کے آنے والا
سبز شاخیں کبھی ایسے تو نہیں چٹخی ہیں
کون آیا ہے پرندوں کو ڈرانے والا
اب تو آرام کریں سوچتی آنکھیں میری
رات کا آخری تارا بھی ہے جانے والا۔ ۔

میرے دوست اور شعبہ اردو کے ممتاز استاد ڈاکٹر خورشید صاحب کو اظہار خیال کی دعوت دی گئی۔ ڈاکٹر صاحب کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ انہوں نے اپنی زندگی کا کافی عرصہ ڈاکٹر وزیر آغا کی سرپرستی میں گزارا ، یہی وجہ ہے کہ انہیں آغا صاحب کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ وہ آغا صاحب کی زندگی کے بہت سے واقعات کے عینی شاہد ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے ”ذکر وزیر آغا“ کے نام سے کتاب لکھ کر وزیر آغا کو خراج تحسین پیش کیا ہے، ان کی مزید دو کتابیں بھی وزیر آغا شناسی پر ہیں۔ ڈاکٹر عابد خورشید نے آغا صاحب کے امتیازات پر جامع اور مدلل گفتگو کی۔ وقت کی کمی آڑے رہی ورنہ گفتگو کا سلسلہ طویل تر ہوتا۔

جامعہ غازی کے رجسٹرار اور اس بزم کے مہمان اعزاز ڈاکٹر اللہ بخش گلشن صاحب جن کا تعلق اگرچہ بیالوجی کے شعبے سے ہے لیکن انہوں نے ادبی اسلوب اختیار کیا اور طلبہ کو نصیحت کی کہ وہ موبائل اور دوسری فضول سرگرمیوں میں وقت ضائع کرنے کے بجائے لکھنے لکھانے کی طرف توجہ مبذول کریں۔

اب پروفیسر ڈاکٹر سہیل بلوچ صاحب صدر شعبہ اردو ڈائس پر تشریف لائے اور انہوں نے محترم وائس چانسلر اور دیگر مہمانوں کی آمد کا شکریہ ادا کیا۔ ڈاکٹر سہیل عباس بلوچ صاحب اپنی وضع اور کلاسیکی اسلوب کے منفرد آدمی ہیں، انہوں نے ڈاکٹر وزیر آغا کو بھرپور انداز میں خراج تحسین پیش کیا۔ انہوں نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ڈاکٹر وزیر آغا اور اس قبیل کی دیگر شخصیات اپنے تئیں افراد نہیں ہوتے بلکہ وہ اپنی ذات میں انجمن اور ادارہ ہوتے ہیں۔ ڈاکٹر وزیر آغا نے علم و ادب کے چراغ روشن کیے جس سے نئے لکھنے والوں نے روشنی حاصل کی۔ ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ ڈاکٹر وزیر آغا کی ادارت میں نکلنے والا ادبی مجلہ اوراق کی خدمات کو جھٹلایا نہیں جا سکتا۔ رسالہ اوراق نے ہمیشہ نئے موضوعات پر لکھنے والوں کو اپنی جانب متوجہ کیا۔

انہوں نے بجا طور پر کہا کہ کہ وضع داری، برداشت اور ادب کے ساتھ سچی جڑت ہمارے اکابر کی تھی وہ الا ماشاء اللہ اب کم دیکھنے کو ملتی ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے یہ حیران کن انکشاف بھی کیا کہ ان کی ڈاکٹریٹ کا زبانی امتحان ڈاکٹر وزیر آغا نے اپنی رہائش گاہ پر لیا تھا کیونکہ وہ اپنی علالت کے سبب یونیورسٹی تشریف نہیں لا سکتے تھے۔ اس طرح کی بہت سی علمی باتیں اذہان کو منور کرتی گئیں۔

آخر میں آج کے سیمینار کے مہمان خصوصی محترم وائس چانسلر کو تالیوں کی گونج میں صدارتی خطبہ کے لیے زحمت دی گئی۔ محترم وائس چانسلر نے ڈاکٹر وزیر آغا صدی کے حوالے سے سجائی جانے والی اس بزم کو فراخدلی سے سراہا اور اس تمنا کا اظہار کیا اس طرح کے ثروت مند پروگراموں کا سلسلہ جاری رہنا چاہیے۔ وائس چانسلر صاحب ایک متدین شخصیت ہیں اور ان کی تحقیقات کا میدان سائنس ہے، انہوں نے کہا کہ بچوں میں write up skills کا ہونا بہت اہم ہے، اس پر توجہ دی جانی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ سائنس کی دنیا میں اس سائنس دان کو سائنس دان ہی تصور نہیں کیا جاتا جس میں لکھنے کی صلاحیت نہ پائی جاتی ہو۔ اپنے اظہار خیال میں انہوں نے یہ بات بھی کی کہ آپ کی تحریر اور تخلیقی عمل آپ کو زندہ رکھتا ہے جس کی مثال ڈاکٹر وزیر آغا ہیں کہ جو ہمارے درمیان موجود نہ ہونے کے باوجود موجود ہیں۔

تقریب کے اختتام پر جناب وائس چانسلر کو شعبہ اردو کی جانب سے یادگاری شیلڈ پیش کی گئی۔ ڈاکٹر عابد خورشید صاحب نے بھی اپنی نئی کتاب ”ذکر وزیر آغا“ جناب وائس چانسلر کو پیش کی۔ یہ تمام خصوصی مناظر محترم ڈاکٹر شعیب اور حسام صاحب نے اپنے کیمرے کی آنکھ میں محفوظ کر لیے۔ پروفیسر ڈاکٹر سہیل عباس بلوچ صاحب، ڈاکٹر راشدہ قاضی صاحبہ، ڈاکٹر عابد خورشید صاحب، ڈاکٹر نازیہ راحت صاحبہ، ڈاکٹر وسیم عباس گل صاحب، اقراء غفار صاحبہ اور سید علی خاں جتوئی صاحب کو وزیر آغا صدی کے کام یاب انعقاد پر فرداً فرداً مبارکباد پیش کرتا ہوں۔

(رپورٹ : ڈاکٹر جمیل الرحمان، شعبہ اردو غازی یونیورسٹی )


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments