کون سا بھائی؟


جب سے اس دنیا میں آنکھ کھولی اور سانس لینا شروع کیا تب سے ایک فقرہ سن سن کے میرے کان پک چکے ہیں۔ شاید آپ لوگوں کا بھی اس سے واسطہ پڑا ہے یا نہیں بچپن کا زمانہ ہو یا لڑکپن کا ماضی کا ذکر کرو یا حال کا صرف اور صرف اس فقرہ نے مجھے اپنی گرفت میں کرنے کی کوشش ضرور کی ہے۔ اس فقرہ کو ادا کرنے والے شخص سے جب بھی جواب لینے کی کوشش کی تو جواب دینے سے قاصر رہا۔ وہ فقرہ صرف یہی ہے کہ:

” میں تیرا بھائی ہوں۔“

اس فقرے نے اٹھتے، بیٹھتے وقت، سوتے، جاگتے وقت میرا تعاقب کیا۔ جب بھی اس فقرے کو بولنے والے سے پوچھا کہ ”تم کون سے بھائی ہو“ وہ جواب دینے سے قاصر ہوجاتا ہے۔ ہمارے ملک کی موجودہ صورت حال بھی کچھ کسی سے چھپی ہوئی نہ ہے۔ گزشتہ شب پنجاب میں ہونے والے واقعہ نے بھی اس سے پردہ چاک کرنے کی کوشش کی ہے۔

میری مراد ”ہابیل یا قارئین“ ۔

اس کی وجہ صرف یہی ہے کہ لفظ بھائی کا عکس نظر آتا ہے مگر یہ چیز واضح کرنے سے قاصر ہے کہ کون سا بھائی ہے۔ موجودہ صورتحال میں کوئی خاص فرق نہیں ہے کیوں کہ اس وقت بھی بھائی کو بھائی کی اہمیت اور فرائض سے ناواقفیت ہے۔

اس بات کو سمجھنے کے لئے ہمیں تاریخ کے پس منظر میں جانا ہو گا پھر ہی اس کو اس انداز میں سمجھا جا سکتا ہے۔ ابتدائے کائنات کا مطالعہ کریں، تاریخ کے اوراق اٹھا کر دیکھیں تو ہمیں دو بھائی ملتے ہیں ”قارئین اور ہابیل“ ۔

ایک نے دوسرے کو قتل کر ڈالا وجہ انا، غرور، تکبر اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانا تھا۔ آخر یہ صورتحال کیوں پیدا ہوئی جو اس فساد کی بنیادی جڑ ہے؟

خدا نے ”آدم“ اور ”حوا“ کو پیدا کیا تو کہا ”پھلو اور بڑھو اور زمین کو معمور و محکوم کرو۔“
پھر خدا نے کہا ”

”باغ کے تمام پھل کھا سکتے ہو لیکن ایک درخت کا پھل نہیں کھانا جس دن کھاؤ گے تو مر جاؤ گے“ ۔ پھر وہی ہوا جس کا ڈر تھا وہ مرنے کا انداز خدا سے دوری ہے۔ خدا سے دور ہو جانے کا مطلب اس گناہ نے ”جینز“ پر اثر کیا جو دوری کی وجہ بنا۔ اس دوری نے ظاہری اور باطنی دونوں لحاظ سے ”ننگا“ کر دیا کہ تم نے غلط کام کیا ہے۔ ظاہری اعتبار سے تو ہم بخوبی واقف ہیں کہ جب خدا نے آدمی کو پکارا تو اس نے جواب دیا کہ ”میں ننگا ہو۔“ کلام خدا تصدیق کرتا ہے کہ:

” اور خداوند خدا نے آدمی کو پکارا اور اس سے کہا تو کہاں ہے؟ وہ بولا میں نے باغ میں تیری آواز سنی اور ڈرا۔ کیونکہ میں ننگا ہو اور میں چھپ گیا۔“ ( تکوین 03 : 9۔ 10 )

یہ تصدیق ہمیں کلام خدا سے ”آدم“ اور ”آدمی“ کے ”ننگا“ ہونے کی ملتی ہے۔ ہم اس کو عام فہم اور مطلب میں سمجھتے بھی ہیں۔ اب دوسری جانب باطنی ”ننگا پن“ بھی ہے جس نے دوری اور خون ریزی کو بھی جنم دے کر ایک دوسرے سے جدا کر دیا۔ جب اس حکم کی حکم عدولی ہوئی تو ایک طرف جسمانی اثر ہو کر ”ننگا“ کر دیا تو دوسری جانب اس نے انسان کے ”جینز“ پر اثر انداز ہو کر اس کے خون میں جگہ بنا لی۔ جس نے آگے آنے والی نسل پر اثر دکھایا اور قاتل جینز ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہو گئے جو دیکھتے ہی دیکھتے اس کا عملی مظاہرہ دکھانے لگے۔ اور اس کا باقاعدہ عملی نمونہ ”قارئین اور ہابیل“ کا پہلا اور بنیادی واقع ہے۔

کلام خدا اس کا موثر انداز میں تجزیہ کرتا ہے۔

جب ”قارئین اور ہابیل“ خدا کی نذر اپنی نذرانے پیش کرتے ہیں تو ایک کا نذرانہ منظور ہوتا ہے جبکہ ایک کا نہیں ہوتا۔ جب یہ معاملہ وقوع پذیر ہوتا ہے تو وہی حکم عدولی کا اثر اور دوری والے عناصر ”جینز“ میں اپنا آپ اس موقع پر ظاہر کرتے ہیں۔ تب ایک بھائی کا ”قاتل“ اور دوسرا ”مقتول“ بن جاتا ہے۔

” اور خداوند نے قارئین سے کہا کہ تو کیوں غصہ ہوا اور تیرا چہرہ کیوں بگڑا ہوا ہے۔ اگر تو بھلا کرے تو کیا بھلا نہ پائے گا۔ اور بدی کرے تو کیا گناہ تیرے دروازے پر موجود نہ ہو گا۔ بلکہ اس کے جذبات تیرے تابع ہوں گے اور تو ان پر غالب ہو گا۔“

( تکوین 04 : 06۔ 08 )

یہاں پر بھی بدی اور اس کے تاثرات غالب ہونے کا عکس واضح انداز میں ملتا ہے۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ غرور اور تکبر ہمیشہ اپنوں کو اپنوں سے جدا کرتا ہے۔ محبت کو نفرت میں تبدیل کرتا ہے۔ اپنے خون کے پیاسے بنا دیتا ہے اپنے کو بیگانہ کروا دیتا ہے۔ تو پھر یہی ہوا جو حقیقت آج بھی آہیں اور سسکیاں لے کر بتاتی ہے۔ چاہے کوئی اس کو مانے یا نہ مانے لیکن نہ ماننے والوں کا تعلق بھی براہ راست اسی ”قاتل“ سے جا ملتا ہے جو اپنی حقیقت اور اصلیت کو بھول کر برائی کے تابع ہو جاتے ہیں۔ اس حقیقت کا اعلان تو پہلے ہی خدا نے کر دیا تھا اور آج بھی روزانہ کی بنیاد پر دیکھنے کو ملتا ہے لیکن اس قوم کو اثر نہیں ہوتا۔

” کیوں کہ تو خاک ہے اور پھر خاک میں ہی لوٹ جائے گا۔“ ( تکوین 03 : 19 )

اس حقیقت کا رنگ مدہم ہو کر بدی کا رنگ غالب آ جائے تو پھر وہی ہوتا ہے جس کا اندازہ عام فہم سے نہیں ہو سکتا۔ مگر وہ ”قارئین“ نے کر کے دکھا دیا۔

” اور“ قارئین ”نے اپنے بھائی“ ہابیل ”سے کہا کہ آ کھیت کو چلیں اور جب وہ کھیت میں تھے تو“ قارئین ”نے اپنے بھائی“ ہابیل ”پر حملہ کر کے اسے مار ڈالا۔“ ( تکوین 04 : 08 )

یہ وہ باطنی اثر ہے جس نے اس موقع پر اپنا اصل روپ نکال کر دکھا دیا اور خون کا پیاسا قرار پایا۔

اس نے باطنی اعتبار سے ”ننگا“ کر دیا اور بتایا کہ برائی نہ صرف جسمانی لحاظ سے ”ننگا“ کرتی ہے بلکہ وہ انسانی ”جینز“ پر بھی اثر انداز ہو کر نسل در نسل باطنی خرابی کا سبب بھی بنتی ہے۔ موجودہ وقت جس کو آج کا دور کہتے ہیں اکثر قاتل اور مقتول کے معاملات کھیت میں ہی پائے جاتے ہیں۔ کھیت سے مراد ویرانی ہے۔ اخباروں میں خبریں اردگرد ماحول میں یہی دیکھنے کو ملتی ہے کہ فلاں بچے کی لاش کھیت ملی یا بند کمرے میں سے لاش ملی۔

بچی کی لاش کھیت کنارے ملی بھائی نے زمین کے عوض قتل کر دیا۔ دوسری جانب ہر بندہ مجھے اپنا بھائی بھی مانتا ہے۔ ہر قول و فعل میں اس بات کا اقرار بھی کرتا ہے اور بڑے دعوے سے کہتا کہ میں تیرا بھائی ہوں۔ مگر اس بات کو واضح کرنے سے قاصر ہے کہ وہ کون سا بھائی ہے؟ اکثر مواقع پر میں نے یہ تصدیق کرنے کی کوشش بھی کی ہے کہ تم کون سے بھائی ہو۔ بھائی، بھائی میں فرق ہے لیکن تمام یہ لفظ کہنے والوں سے میرا آج بھی سوال ہے کہ:

” قاتل یا مقتول تم کون سے بھائی ہو؟“


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments