کک کک کھٹاک پٹاک – قصہ ایک باورچی کا


شادی کا کچن سے گہرا تعلق کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ رشتہ دیکھنے کا آغاز ہی اسی سوال سے ہوتا ہے کہ لڑکی کچھ پکا سکتی ہے یا نہیں۔ لڑکا اور اس کے گھر والے اس انتظار میں ہوتے ہیں کہ شادی ہوتے ہی نئی دلن کچن سنبھالے اور ان کی ذمہ داری ختم ہو۔ ابتدا میں تو دلہن بیگم بڑے چاؤ سے اور شوق سے یہ ذمہ داری سنبھالتی اور تعریفیں وصول کرتی ہے۔ لڑکے کو خاص طور پر اس سے دل چسپی ہوتی ہے کہ وہ اپنی بیگم سے نت نئی فرمائشیں کرے اور ون فرمائشوں کے نتیجے میں دلہن کچھ ہی مہینوں میں ہلکان اور دلہا ایک عدد توند کا مالک بن جاتا ہے۔

یوں اگر یہ کہا جائے کہ شادی شدہ زندگی اور کچن کا اٹوٹ رشتہ ہے تو غلط نہ ہو گا۔ کچن کی اس کھٹاک پھٹاک میں اکثر گھر کے دیگر مسائل کی کھٹاک پھٹاک بھی شامل ہو جاتی ہے جو خواتین کو نڈھال کر دیتی ہے لیکن ککنگ سے چھٹی نہیں ملتی۔ یہاں تک کہ جو کام کچن میں بڑے شوق، پیار محبت سے شروع ہوتے ہیں، اب جان کو آ جاتے ہیں۔ ڈھلتی عمر، صحت کے مسائل، مہمان داری اور گھر میں مریضوں کا ہونا، ان سب اسباب میں وہ کھٹاک پٹاک ممکن نہیں ہوتی جو ایک عمر میں چلتے پھرتے ہو جایا کرتی ہے۔ اور ہر عورت اس پر فخر کرتی ہے کہ میں تو چلتے پھرتے کچن کے کام کر لیا کرتی ہوں۔ ایک گھنٹے میں کچھ کھٹاک پھٹاک کیا اور دو تین ڈشیں بنا کر باہر نکل گئے۔ یہ بھی کوئی کام ہوا؟ پر ایک وقت وہ بھی آتا ہے جو غالب کی زبان میں۔

مضمحل ہو گئے قوا غالب
اب عناصر میں اعتدال کہاں
کے مصداق، انسان کو درج بالا ذمہ داریوں کے قابل نہیں رکھتا۔ ایسے میں وہ کوئی مدد گار چاہتا ہے۔

ایسی ہی صورت حال کا سامنا پچھلے دنوں مجھے ہوا۔ جب مجھے صحت کے دگر گوں مسائل کا سامنا کرنے کے بعد اور شوہر کے بیمار رہنے کے ساتھ ساتھ مسلسل مہمان داری کے بعد کچن میں ایک مدد گار کی ضرورت پیش آئی۔ ایسے میں جس کام کو ہم نے آسان سمجھا، معلوم ہوا کہ یہ تو جان جوکھوں کا کام ہے۔ پہلے تو اچھے کک کی تلاش میں کنووں میں ڈول ڈلوا دیے، ایک دو ماہ کے بعد کک صاحب دستیاب ہوئے، جن کی بہت تعریف کی گئی، تو یہ علم ہوا کہ وہ بہت مصروف ہوتے ہیں، پہلے معلوم کر لیا جائے کہ ان کے پاس وقت ہے بھی یا نہیں۔

ہماری خوش بختی کہ کک صاحب نے کچھ وقت دینے پر آمادگی ظاہر کی اور ہمارے گھر تشریف لائے۔ ابتدائی گفتگو کے بعد معلوم ہوا کہ ان کا تعلق ہمارے آبائی علاقے سے ہی ہے۔ جسے سن کر ہمیں خوشی ہوئی اور ہم نے اپنی مادری زبان میں گفتگو کا آغاز کیا۔ آں جناب نے اس کے بعد ہم سے جو گفتگو کی، اس سے ہمارے چاروں طبق روشن ہو گئے اور ہم پر یہ کھلا کہ ہم ان کا نہیں بلکہ وہ ہمارا انٹرویو لینے آئے تھے۔

ابتدا ہی میں انہوں نے یہ واضح کر دیا کہ آپ یہ ہر گز نہ سمجھیے گا کہ ایک علاقے کا ہونے کی وجہ سے کوئی ڈسکاونٹ ہو گا۔ میری فیس اور وقت مقرر ہوتا ہے۔ ہم تمام گفتگو اسی لحاظ سے کریں گے۔ خیر مرتے کیا نہ کرتے۔ چوں کہ ہم ضرورت مند تھے۔ ان سے تفصیل بیان کی اور ایک معاہدہ طے پا گیا، جس کی رو سے وہ ہر دو دن بعد تشریف لائیں گے اور دو گھنٹے کے لیے ہمارے کچن کو وہ سنبھالیں گے۔ اسی دوران انہوں نے بتا دیا کہ جو کچھ پکانا ہو گا، وہ ایک دن پہلے فون پر بتایا جائے گا اور آپ خود تمام سودا لے آئیے گا۔ یہ اس لیے ضروری ہے کہ میں ذہنی طور پر تیار ہوں اور کم وقت میں زیادہ سے زیادہ کام کر سکوں۔ ہم نے یہ تمام شرائط منظور کر لیں اور تنخواہ وغیرہ کا فیصلہ ہو گیا۔

جانے سے پہلے انہوں نے مزید فرما یا کہ ان دو گھنٹوں کا مطلب دو گھنٹے ہی ہو گا۔ اس سے زیادہ کی ہم امید نہ رکھیں، جب میں نے پوچھنے کی جسارت کی کہ اگر مہمان ہوں اور زیادہ ڈشیں بنانی ہوں تو انہوں نے کہا کہ ان دو گھنٹوں میں میں دس ڈشیں بھی بنا سکتا ہوں، لیکن اس سے اگلے گھنٹے کی میری دوسرے گھر میں اپائنٹمنٹ ہے۔ اور اگلے گھنٹے میں مجھے ان گھروں میں ڈیلیوری دینی ہے، اس کھانے کی جو میری بیگم گھر میں تیار کرتی ہے اور ٹفن بناتی ہے۔

اس دوران انہوں نے بار بار مجھ پر واضح کیا کہ ہم دونوں میاں بیوی ایک لمحہ بھی فارغ نہیں ہوتے۔ اور مجھے تو بالکل فرصت نہیں، آپ کے ہاں اس لیے آ گیا ہوں کہ آپ کی سفارش کی گئی تھی اور وہ ریفرینس بہت اعلیٰ درجے کا ہے۔ یقین کیجیے اس قدر افزائی پہ بس میری آنکھوں سے آنسو ٹپکنے کو ہی تھے کہ وہ چل دیے۔ میں نے گیٹ تک جا کر انہیں رخصت کیا اور اتنا قیمتی وقت دینے پر ان کا شکریہ بھی ادا کیا۔

رات کو سب گھر والوں کو یہ خوش خبری سنائی کہ الحمدللہ ہم بھی ایک عدد کک رکھنے والے اور ان کے وقت اور ذائقہ دار کھانوں سے مستفید ہو نے والے ہیں۔ ( جس کی انہوں نے بہت تعریف کی تھی) ۔ دو دون تک سہانے خواب دیکھے کہ بس اب آرام کا وقت ہے اور کوئی میرے لیے بھی میز پر کھانا رکھے گا۔ ایسے میں اپنی ایک پرانی دوست یاد آئی جو کہتی تھی کہ میں ہوٹل میں اس لیے چلی جاتی ہوں کہ کوئی میرے سامنے کھانا رکھے گا اور اس کے بعد مجھے برتن بھی نہیں دھونے پڑیں گے۔ ( خواہ کھانا بد مزہ ہی کیوں نہ ہو )

خیر دو دن بعد مقررہ وقت پر کک صاحب تشریف لے آئے اور کچن کا جائزہ لے کر پہلا سوال پوچھا کہ آپ کے ہاں ہیلپر نہیں ہے؟ میرے انکار پر انہوں نے بہت برا منایا۔ اور مجھے بتانے لگے کہ میں جہاں کہیں جاتا ہوں، وہاں ہیلپر ہوتے ہیں جو میرے لیے سب کچھ تیار رکھتے ہیں۔ ( یعنی سبزیاں کاٹ کر، اور مصالحے وغیرہ تیار کر کے ) اب میں نے دل میں سوچا کہ اگر کوئی میرے لیے اتنی خدمت کرنے کو تیار ہو تو کیا مجھے کسی کک کی ضرورت ہو گی؟ ایک آ اخری بار انہیں بتانے کی کوشش کی کہ آپ ہی ہمارے ہیلپر ہیں اور آپ وہ کھانا بنانے کی کوشش کیجیے، جس کے لیے تشریف لائے ہیں۔

انہوں نے کھانا بنانا شروع کیا اور اس دوران مجھے اپنا ہیلپر تصور کر لیا، جو تھوڑی تھوڑی دیر بعد انہیں مقررہ جگہ سے چیزیں اٹھا کر دے اور پھر واپس بھی رکھے۔ دو ڈشز کا سامان لا کر رکھا گیا تھا اور انہیں اسی کے بارے میں بتایا گیا تھا۔ تھوڑی ہی دیر بعد کچن ایک میدان جنگ کا نقشہ پیش کرنے لگا جس میں ہر طرف سامان حرب بکھرا ہوا تھا۔ میں نے آن جناب کی خدمت میں ڈرتے ڈرتے عرض کیا کہ کچن جس حالت میں تھا، جاتے ہوئے اسی حالت میں چھوڑیے گا، اور میرے بیٹے کی فرمائش ہے کہ ایک چکن پراٹھا رول بھی بنا دیجیے۔

اس پر وہ صاحب ہتھے سے اکھڑ گئے اور فرمانے لگے کہ کچھ باتیں میں پھر واضح کر دوں، ایک تو میں کک ہوں، کچن کی صفائی میرا کام نہیں۔ نہ ہی برتن دھونا میرا کام ہے۔ ( میں نے بکھرے ہوئے برتنوں پر نظر ڈالی، جن کا کھانے کی تیاری کے دوران بے دریغ استعمال کیا گیا تھا، ہر سبزی کے لیے الگ برتن، اور چار پانچ دیگچے تو سامنے ہی تھے، جب کہ ابھی کھانا پکا نہیں تھا) مزید فرمایا گیا کہ جو کھانے آپ نے پہلے بتائے تھے، بس وہی پکیں گے، اب کوئی آرڈر نہ دیں۔ میں نے یاد کرایا کہ ابتدا میں آپ نے فرمایا تھا کہ دو گھنٹے میں آپ خواہ دس ڈشیں بنا لیں۔ یو جناب نے کہا کہ اگر کوئی فالتو ڈش بنوائیں گے تو اس کے الگ پیسے ہوں گے۔ میں تو ایک ڈش بنانے کے 500 روپے لیتا ہوں۔ اور جب دعوت ہو تو مجھے پہلے مطلع کیا جائے اور فی ڈش ہیسے مجھے اسی وقت دے دیے جائیں،

اب تک میرے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا تھا۔ میں نے اس کو ذرا اچھی طرح بتایا، جن لوگوں کے لیے اس کی خدمات حاصل کی جا رہی ہیں، وہ سب اچھے گریڈ میں سرکاری افسران ہیں اور ان کی مصروفیت بھی یہ اجازت نہیں دیتی کہ وہ آپ کے ہیلپر کے فرائض انجام دے سکیں۔ ہم نے آپ کو اپنی خدمت کے لیے بلایا ہے۔ اگر ہیلپر میسر ہو اور مجھے سبزیاں کاٹ دے، مسالحہ بھگار دے، برتن دھو کر کچن صاف کر دے تو مجھے آپ کی چنداں ضرورت نہیں۔

اس صاف صاف بات پر انہوں نے جو جواب دیا، تو سمجھیے کہ مجھے جواب ہی دے دیا۔ کہ باجی پھر مجھے معاف ہی رکھیے۔ میں صرف آج کا کھانا پکا کر اجازت چاہوں گا۔ میں بغیر ہیلپر کے بغیر کام نہیں کر سکتا۔ مجھے اسی طرح کی عادت ہے اور دوسرے سب گھروں میں میرا کام اسی طرح چل رہا ہے۔ اس گفتگو کے بعد ہم دونوں نے ایک دوسرے سے اجازت چاہی اور ان کا بل ادا کر کے رخصت کر دیا۔

اس دن سے یہ سوچ رہی ہوں کہ اگر میں ایک کک ہوتی اور تیس سال سے اپنی اس کھٹاک پٹاک کا معاوضہ اور احسان چاہتی جو اس گھر میں جاری ہے تو وہ مل پاتا؟ تو صاحبو احسان مانیے ان خواتین کا جو آپ کے کچن میں کھٹاک پٹاک کرتی ہیں۔ آپ کی نت نئی فرمائشیں بھی پوری کرتی ہیں اور آپ کو کک سے بھی بچائے رکھتی ہیں۔ کک سے گفتگو کے دوران یہ انکشاف بھی ہوا کہ یہ اور اس جیسے تمام کک ایک مافیا ہیں۔ ان صاحب نے مجھے بتایا کہ ہم چالیس لوگوں کا ایک گروپ ہیں اور ایک دوسرے سے تعاون کر کے سب گھروں کو سروس دیتے ہیں۔ لیکن ہماری شرائط ایک جیسی ہیں۔ تو بتائیے چاہیے کسی کو ایک کک کی سروس؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments