ثانیہ خان۔ امریکی پاکستانی کمیونٹی میں ایک اور قتل


اٹھارہ جولائی 2022ء کو پاکستانی کمیونٹی میں ایک اور قتل ہوتا ہے۔ اس دفعہ 29 سالہ ثانیہ کا قاتل اس کا 36 سالہ سابق شوہر راحیل احمد ہے۔ جو ٹینیسی سے سات سو میل کا فاصلہ طے کر کے شکاگو، ثانیہ کے گھر آتا ہے اور پہلے ثانیہ اور پھر خود اپنی آپ کو گولی مار کے ہلاک کر دیتا ہے۔

طلاق مکمل ہو جانے کے باوجود اس کے شوہر کو اس کا خواب دیکھنا اور اور آزادی سے زندگی گزارنا منظور نہ تھا۔ ثانیہ جو کبھی فلائیٹ اٹینڈنٹ کے طور پہ فضا میں اڑتی تھی اب اپنی فوٹوگرافی کے جنون کی حد تک شوق کی تکمیل میں ایک سال قبل ہی شکاگو منتقل ہوئی تھی۔ اس کا خواب سیاحی فوٹوگرافر کے طور پہ کام کرنا تھا۔ اسے بھلا کیا خبر تھی کہ دوسروں کی زندگی کے بہترین شاٹس اپنے کیمرے میں قید کرتے کرتے ایک دن کسی ظالم شخص کی بندوق کا ایک شاٹ اسے اس کی خوبصورت خوابوں سے آراستہ زندگی سے آزاد کر دے گا؟

ثانیہ کا تعلق امریکہ منتقل ہونے والی پہلی نسل کے جنوبی ایشیائی مسلمان گھرانے سے تھا۔ اور بدقسمتی سے مردانہ تسلط والے پدر سری معاشرے کی پروردہ کہ جہاں عورت کا طلاق کا مطالبہ کلنک کا ٹیکہ اور مردانیت پہ ڈھیلا مارنے کے مترادف سمجھا جاتا ہے۔ لہٰذا جب اس نے طلاق لینا چاہی تو یہ جائز مطالبہ اسکے اپنے گھرانے اور شوہر کی عزت پہ تازیانہ تھا۔ اس سلسلے میں ثانیہ کو اپنے گھرانے سے کسی قسم کا تعاون نہ تھا۔ وہ اپنی آزادی کی جنگ تنہا لڑ رہی تھی۔ اپنی ٹک ٹاک میں ثانیہ لکھتی ہے۔

”ایک جنوبی ایشیائی خاتون کے طور پر طلاق سے گزرتے ہوئے کبھی ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے آپ زندگی میں ناکام ہو گئے ہیں۔ جس طرح سے کمیونٹی آپ کو لیبل کرتی ہے، آپ کو ملنے والی جذباتی حمایت کی کمی اور کسی کے ساتھ رہنے کا دباؤ کیونکہ ’لوگ کیا کہیں گے’ تنہا کر دیتا ہے۔ ”

ایسے سماج میں جہاں طلاق لینا سزا اور عزت کے نام پہ اپنی ہی اولاد کے جان اور اس کا تحفظ بے وقعت ہو جائے، طلاق لینے کے لیے کتنا بہادر ہونا اور کس قدر دردناک تنہائی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

طلاق کے بعد کے سفر کے متعلق ثانیہ نے اپنی ٹک ٹاک میں لکھا۔ ”ابتدائی چند ماہ سیاہ ترین ہوتے ہیں۔ پریشانی سے بھرے، راتوں کی نیندیں اڑانے والے۔ یہ سوچتے ہوئے کہ آپ نے صحیح کیا یا نہیں؟ یہ سوچتے ہوئے کہ اللہ نے آپ کو چھوڑ دیا اور نا امیدی محسوس کرتے ہوئے۔“

یہ الفاظ ثانیہ کے ہیں جو امریکہ میں پیدا ہوئی، یہاں کے تعلیمی اداروں میں تعلیم پائی۔ اس کے شوق ہائیکنگ، اور آزاد فضاؤں میں اڑنا اور اس کا جنون فوٹوگرافی اور سیاحت تھا۔ خوابوں کے پر نوچنے والے اور اونچی اڑان پہ قدغن لگانے والے سماج میں اگر اس نے ایسے خواب دیکھے تو سزا تو ملنی ہی تھی۔

جب میں نے مشیگن (امریکہ) میں اپنے گروپ GATE کی جانب سے گھریلو تشدد پہ ایک سیمینار کروایا تو پاکستانی امیگرنٹ، ایک درمیانی عمر کی بظاہر ہنستی مسکراتی عورت کے الفاظ میں نہیں بھول سکتی جو اس نے سرگوشی سے میرے کان میں کہے۔ ”بہت اچھا کام کیا گوہر باجی۔ میں بیس سال سے شوہر سے پٹ رہی ہوں۔“

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر کب تک ہماری بیٹیاں ان روایات کی بھینٹ چڑھتی رہیں گی کہ جو پدر سری معاشرے اور جہالت کی پر وردہ ہیں؟ آخر ناموس کے نام پہ قتل ہمارے سماج بالخصوص مسلمان معاشرے کی میراث ہی کیوں بن چکا ہے؟ اس کا جواب تلاش کرنا ہم سب کی ذمہ داری ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments