راز


پورے محلے میں انہی کا گھر تھا جو سب سے عالیشان اور بہت بڑا تھا، کام کرنے والوں کی تعداد گھر کے مکینوں سے زیادہ تھی۔

جو کہ گھر کا سارا کام کرتے لیکن ان کو صرف مہینے کی سوکھی تنخواہ ملتی اور اس کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہاں جو دو ملازم دن رات گھر میں رہتے تھے انہیں کھانے پینے کو اتنا ملتا تھا کہ وہ اپنا پیٹ بھر سکیں۔

شیخ صاحب کا انتقال بہت پہلے ہو چکا تھا ان کی صرف بیٹیاں ہی تھیں بیٹا کوئی نہیں تھا اور پھر کچھ عرصے بعد ان کی بیگم کا بھی انتقال ہو گیا یوں گھر میں مانا سب سے بڑی ہو گئی حالانکہ وہ سب سے چھوٹی تھی، دونوں بہنوں کی شادی ہو چکی تھی اور وہ ملک سے باہر تھیں جب ہر سال آتیں تو گھر میں طرح طرح کے کھانے پکتے اور جشن کا سماں ہوتا، مانا کے ساتھ اس کی خالہ رہتی تھیں جو سگی تو نہیں تھی لیکن انہوں نے بچپن سے ان بہنوں کو پالا تھا اور مانا کی امی انہیں سگی بہن کا درجہ دیتی تھیں۔

رشتے داروں کے علاوہ محلے، پڑوس کے لوگ بھی باتیں بناتے کہ مانا کے کس کے آسرے پر بٹھا کے رکھا ہے جو اس کی شادی نہیں کر رہے اور اس کی عمر بڑھتی جا رہی ہے۔

” کوئی کہتا کہ کروڑوں کی جائیداد کسی اور کے ہاتھوں میں کیسے جائے گی اگر مانا کی شادی ہو گئی تو“ ۔
کسی کے منہ سے نکلتا کہ ”بھئی اپنی خوبصورتی پر بہت ناز ہے یہ اپنے آگے کسی کو کچھ نہیں سمجھتی“ ۔

لیکن کوئی بھی مانا کو سمجھنے کے لئے تیار نہیں تھا کہ آخر اس کا بھی کوئی مسئلہ ہو سکتا ہے یا وہ کسی کو پسند کر سکتی ہے اور نہیں تو وہ ذہنی طور پر ابھی تک اپنے ماضی سے نا نکلی ہو یا کسی نے اس کو نکالنے کی کوشش ہی نا کی ہو۔

شاید اس میں خود اس کا بھی قصور تھا وہ اپنے آپ میں اتنی مگن تھی کہ ظاہر ہی نا ہوتا تھا کہ اسے شادی کی پرواہ بھی ہے، گھر میں کام کرنے والی ماسیاں اس کی سخت طبیعت سے بے زار تھیں اور اسے کوئی خاص اچھا نہیں سمجھتی تھیں کیونکہ کبھی اس نے عید بقر عید بھی کوئی جوڑا نہیں دیا تھا یہاں تک کے خالہ بی بھی کم خرچ کرنے کا مشورہ دیتی تھیں، بس ماسیاں ان کے یہاں کام مناسب تنخواہ کی وجہ سے کر لیتی تھیں اور پھر اس پر یہ ہوا کہ گھر میں چور کود گئے لے کر تو کچھ بھی نہیں گئے تھے کیونکہ چوکیدار جاگ گئے تھے مگر محلے میں ہر طرف یہ ہی مشہور ہو گیا کہ مانا کے چاہنے والے کود گئے تھے جس کی وجہ سے وہ شادی نہیں کرتی تھیں اور اس پر ہر تیسرے مہینے مانا کا دو دو ہفتے کے لئے غائب ہونا بھی سب کے لئے بڑا مشکوک تھا۔

گھر میں بہت رشتے آئے مگر ہر رشتے کو خالہ بی نے منع کر دیا کہ ابھی نہیں ہو سکتا، ماسیاں حیران رہ گئیں کہ کیوں نہیں ہو سکتا شادی کی عمر نکلی جا رہی ہے، خوبصورتی ہی تو سب کچھ نہیں ہوتی۔

اگر کوئی کچھ کہنے کی ہمت بھی کرتا تو خالہ بی اسے ڈانٹ دیتی تب آپس میں یہ لوگ یہ ہی بات کرتے کہ شاید اس کے ماں باپ زندہ ہوتے تو ایسا نا ہوتا۔

اب کے بڑی بہن آئیں تو ایک ماسی نے ہمت کر کے پوچھ ہی لیا۔
” فری باجی آخر آپ اب جو آئی ہیں تو مانا باجی کی شادی کر کے جائیں“ ۔

اس ماسی کی فری باجی نے ایسی شامت بلائی کہ اس نے توبہ کرلی اور کام چھوڑ کر چلی گئی اس کے بعد کسی نے بھی کچھ نہیں کہا۔

مانا اپنی جگہ پے چپ بیٹھی تھی اس کا چہرہ بالکل سفید ہو رہا تھا ماسیوں نے دیکھا کہ وہ بڑے دل کے ساتھ فری باجی سے گلے ملیں اور گاڑی میں بیٹھ گئیں اور خالہ بی بھی اس کے ساتھ چلی گئیں۔

کوئی بھی ماسی پورا دن نہیں رہتی تھی ایک آتی تو دوسری جاتی تھی اس لئے حالات کا اندازہ کسی کو بھی نہیں تھا۔

جب صبح والی ماسی کام کر رہی تھی تو ایمبولینس آ کر رکی اور اس میں سے ایک اسٹریچر نکال کر لوگ اندر لے آئے جب چادر ہٹائی تو مانا تھی جس کے چہرے پر زندگی کے کوئی آثار نا تھے۔

فری باجی اپنی جگہ پر بیٹھی کی بیٹھی رہ گئیں جب تک دوسری بہن آتیں تب اس کی تدفین کی جاتی۔
دور دور تک یہ خبر پھیل چکی تھی اور پتا نہیں کہاں کہاں سے لوگ آرہے تھے۔
” کوئی کہہ رہا تھا یہ ہماری ہمدرد تھیں اس کی وجہ سے ہمارا گھر چلتا تھا“ ۔

بہت سارے بچے گھر میں آتے چلے گئے جن کے ساتھ ان کے نگران بھی تھے جو بتا رہے تھے کہ مانا نے اپنی دولت سے آشیانہ نام کا ایک بچوں کے لئے ایک ٹھکانہ بنایا تھا۔

جب اس کا جنازہ اٹھایا جانے لگا تو بہت سارے آوازوں میں فری باجی کی آواز گونجی کے

” میری کینسر شدہ بہن کی شادی کیسے ہو سکتی تھی، اس کے پاس تو مہلت ہی نہیں تھی اتنے سال بھی وہ دعاؤں سے جی گئی اور لوگوں نے فسانے بنا ڈالے“ ۔

اور پھر مانا کا گھر ویران ہو گیا لوگ اپنے اپنے گھروں کو چلے گئے دونوں بہنیں بھی اپنے گھر جانے کو تیار تھیں انہوں نے خالہ بی کو بہت کہا اپنے ساتھ چلنے کو مگر وہ نہیں مانی۔

” مین آشیانہ کے بچوں کے ساتھ رہوں گی جس میں میری مانا کی مہک ہے اور کوئی تو ہو جو لوگوں کو جواب دے سکے کہ مانا بہت صاف تھی انہی کہ دل برے تھے“ ۔

لوگ چلے جاتے ہیں اور انسان اپنے رویوں اور غلط اندازوں کے سبب مرنے سے پہلے ہی مار دیتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments