پنجاب میں سیاست کا منظر نامہ


پنجاب کی سیاست میں پچھلے کچھ عرصے میں جو کچھ ہوا بالکل عجیب و غریب منظر ہے۔ ایسا شاید تاریخ میں اس سے پہلے نہ ہوا ہو۔

پنجاب میں تحریک انصاف نے اپنی حکومت بنائی تو وزیر اعلی عثمان بزدار کو منتخب کیا۔ بزدار صاحب اپنے دور حکومت میں مسلسل تنقید کی زد میں رہے۔ ان کی کارکردگی ملک کے سب سے بڑے صوبے کے حوالے سے تسلی بخش نہیں تھی۔ عمران خان پر دباؤ ڈالا جاتا رہا کہ پنجاب کا سی ایم تبدیل کیا جائے مگر خان صاحب عثمان بزدار کی کارکردگی کے حوالے سے مطمئن رہے۔

وفاق میں تحریک انصاف کی حکومت گئی تو پنجاب میں تحریک انصاف کے ایک چیلنج تھا کہ اپنی حکومت کو بچایا جائے۔ جوڑ توڑ کا عمل تیز ہوا۔ جہاں مسلم لیگ نون اور پاکستان پیپلز پارٹی پنجاب میں حکومت بنانے کے لیے سرگرم نظر آئے وہی چوہدری برادران نے اس لڑائی کا بھرپور فائدہ اٹھایا۔ پرویز الٰہی کے گھر صبح شام ملاقاتوں کے بیسیوں دور چلے۔ زرداری صاحب، عمران خان اور شہباز شریف نے پنجاب میں اپنی اپنی حکومتوں کے لیے تعاون مانگا۔ چوہدری پرویز الٰہی نے چند سیٹوں پر جب فیصلہ ہوتے دیکھا تو شرط یہ رکھی کہ وزیر اعلی مجھے بنایا جائے۔ خان صاحب کے لیے جہاں یہ مشکل فیصلہ تھا وہی نون لیگ کیسے چند ووٹوں کے لیے پرویز الٰہی کو وزیر اعلی نامزد کرتی یوں آخر کار مسلم لیگ ق نے تحریک انصاف کے ساتھ اتحاد بنانے کا فیصلہ کیا۔

ادھر جوڑ توڑ کے ماسٹر مائنڈ آصف زرداری اور نون لیگ نے بیس سے زائد ارکان جو کہ تحریک انصاف کے ممبر تھے۔ انہیں پارٹی سے منحرف کروا کر حمزہ شہباز کی وزارت اعلی کے لیے حمایت حاصل کرلی۔ تحریک انصاف نے اس دوران عثمان بزدار سے استعفیٰ دلوایا۔ پھر اپنے ہی دیے استعفیٰ کو غیر قانونی قرار دے کر عدالت میں چیلنج کر دیا۔ کبھی کہا گیا ہاتھ سے استعفیٰ لکھنا تھا تو کبھی کہا گیا کہ یہ استعفی گورنر کے بجائے عمران خان کو لکھا گیا۔ گورنر چوہدری سرور سے استعفی لے لیا گیا۔ نیا گورنر پنجاب لگایا گیا۔

اجلاس نہ ہوئے کیس عدالتوں میں جاتے رہے۔ ہر کوئی اپنے اراکین کی چوکیداریاں کرتا رہا۔ اجلاس میں ایک دوسرے کے خلاف دست و گریباں ہوتے رہے۔ ایک دوسرے کے ارکان کو خریدنے کی کوشش کی جاتی رہی۔ اس دھکم پیل میں آخر کار موجودہ حکومت نے اپنا وزیر اعلی نامزد کیا۔ مسلم لیگ نون نے اپنے ہی خاندان کے ایک اور فرد کو تخت پنجاب پر بٹھا کر ثابت کر دیا کہ یہ جمہوریت نہیں بلکہ موروثیت ہے۔

تحریک انصاف نے منحرف ارکان کے خلاف عدالت میں کیس دائر کر دیا۔ یوں فیصلہ تحریک انصاف کے حق میں آیا بیس ارکان نا اہل ہوئے۔ وزیر اعلی حمزہ شہباز شریف کو ایک بار پھر سے خود کو وزیر اعلی بنانے کا چیلنج درپیش آیا۔ تحریک انصاف کے پاس ایک اور موقع ہاتھ آیا۔ پنجاب میں بیس نشستوں پر ضمنی انتخابات کا اعلان کر دیا گیا۔ الیکشن سے قبل جو بازی مسلم لیگ نون کے حق میں جا رہی تھی اسے تحریک انصاف نے اپنے حق میں کر دیا۔ یوں ضمنی انتخاب میں تحریک انصاف نے برتری حاصل کر کے تقریباً اپنا وزیر اعلی بنانے کے قریب تھا۔ مسلم لیگ نون نے انتخابات میں شکست تسلیم کی۔

دو روز قبل پنجاب اسمبلی کا اجلاس ہوا۔ ڈپٹی اسپیکر دوست مزاری نے ووٹنگ کے نتائج کا عجیب و غریب فیصلہ دے کر۔ قاف لیگ کے وہ دس ووٹ مسترد کر دیے جو کہ پرویز الٰہی کے حق میں پڑے تھے۔ وجہ آخری وقت میں چوہدری شجاعت کا خط تھا جس نے اسمبلی میں تہلکہ مچا کر رکھ دیا۔ دوست مزاری نے خط اسمبلی اجلاس میں پڑھ کر سنایا۔ اس کے بعد عدالت کے فیصلے کو جواز بنایا اور یوں حمزہ شہباز عجیب و غریب طریقے سے وزیر اعلی پنجاب منتخب ہوئے۔ کیس عدالت چلا گیا ہے۔ بظاہر یوں لگتا ہے کہ کیس کا فیصلہ تحریک انصاف کے حق میں آئے گا۔ حمزہ شہباز تب تک ٹرسٹی وزیراعلی رہے گے۔ غالباً پیر کو آنے والا فیصلہ دونوں میں سے کسی ایک کے ارمان پر پانی پھیر سکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments