اردو ناول پر فرائیڈ کے اثرات


اردو ادب میں فرائیڈ سے براہ راست اثرات قبول کرنے والے ناول نگاروں میں مرزا ہادی رسوا، سعادت حسن منٹو، عزیز احمد، عصمت چغتائی، راجندر سنگھ بیدی، ممتاز مفتی، حجاب امتیاز علی، بانو قدسیہ اور اکرام اللہ کے نام قابل ذکر ہیں۔ جنھوں نے فرائیڈ کے افکار و نظریات کے اثرات کو قبول کیا اور نفسیاتی الجھنوں اور جنسی مسائل کو سامنے لانے کی شعوری کوشش کی۔

مرزا ہادی رسوا کو اس حوالے سے اولیت کا درجہ حاصل ہے جنھیں فلسفے اور نفسیات سے گہرا شغف تھا۔ اس کے اثرات ناول ”امراؤ جان ادا“ کے کرداروں کی نفسیاتی الجھنوں میں نظر آتے ہیں۔ لکھنوی تہذیب کی جو تصویریں ہمیں رتن ناتھ سرشار کے ہاں ملتی ہیں اس کا تسلسل ”امراؤ جان ادا“ میں بھی ملتا ہے، مگر قدرے مختلف انداز میں۔ ”امراؤ جان ادا“ میں بھی کرداروں کی بھیڑ ہے تاہم کچھ کردار انفرادی مسائل اور ذاتی احساس و جذبات لیے نفسیاتی نقطہ نظر سے اہم بن جاتے ہیں۔

طوائفوں کا تذکرہ اس سے پہلے بیشتر ناولوں میں موجود ہے، مگر ”امراؤ جان ادا“ کا کردار سب سے منفرد اور نفسیاتی مسائل میں الجھا ہوا ہے۔ امراؤ جان کے ساتھ کئی دوسرے کردار بھی اپنے اندر نفسیاتی مسائل، جذباتی الجھنیں اور جنسی تشنگی لیے ہوئے ہیں۔ مثلا نواب سلطان، گوہر مرزا، فیض علی، خانم، بوا حسینی، خورشید اور بسم اللہ جان وغیرہ۔ مرزا ہادی رسوا نے فرائیڈ کے اثرات کو براہ راست قبول کیا۔ جس کا واضح ثبوت یہ ناول ہے۔

انسانی فطرت اور انسانی نفسیات سے جو واقفیت مرزا محمد سعید کے ہاں ملتی ہے، وہ اس دور کے کسی اور ناول نگار کے ہاں نہیں ملتی۔ یہ تو نہیں معلوم کہ فرائیڈ کا انھوں نے مطالعہ کیا تھا یا نہیں، تاہم نفسیات سے ان کی دلچسپی ضرور تھی۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ان کے ناولوں میں علم نفسیات سے تعارف نظر آتا ہے۔ اور ان کے کرداروں کے ارتقا میں نفسیاتی شعور موجود ہے۔ اس ضمن میں ان کے ناول ”خواب ہستی“ اور ”یاسمین“ قابل ذکر ہیں۔

ناول ”خواب ہستی“ میں مذہب، روحانی زندگی اور عورت کی جدید تعلیم کے نقصانات کو موضوع بنایا گیا ہے۔ جبکہ ”یاسمین“ میں اختر کی جنسی اور جذباتی زندگی کا ارتقا پیش کیا گیا ہے۔ کہ لاکھ کوششوں سے فطری جبلی تقاضوں کے آگے بند باندھا جائے، اسے وقتی طور پر دبایا جا سکتا ہے مگر انھیں مستقل فراموش کرنا ناممکن ہے۔ فرائیڈ کی یہ بات بھی یہاں درست نظر آتی ہے کہ تہذیب کے زیر اثر اگر کوئی ان جبلی تقاضوں کو دبانے پر قادر ہو بھی جائے، تو بھی وہ اپنی حیثیت سے کہیں بڑھ کر اس کی قیمت ادا کر رہا ہوتا ہے۔

یہی حال اس ناول کے کردار اختر کا نظر آتا ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ مرزا محمد سعید کے تخلیق کردہ کرداروں کی زندگی کے ارتقا میں نفسیات سے گہرا اثر قبول کیا گیا ہے تو غلط نہ ہو گا۔ اور یہ بات ان کے ناول ”یاسمین“ پر پوری طرح صادر آتی ہے۔ اس ناول میں نفسیاتی نقطہ نظر سے اختر اور یاسمین کے کردار بہت اہم ہیں۔ ان دونوں کی شخصیت کی تشکیل میں کئی پیچیدگیاں ہیں۔ اس طرح کہہ سکتے ہیں کہ مرزا محمد سعید کی شخصیت اور ان کی تخلیقات پر فرائیڈ کے گہرے اثرات موجود ہیں۔

عزیز احمد کے ناولوں پر فرائیڈ کے براہ راست اثرات موجود ہیں۔ محققین اور نقاد ان کی جنس نگاری کے معاملے میں تقسیم نظر آتے ہیں۔ کچھ لوگوں کے نزدیک عزیز احمد نے جنس کے صحت مند اور فطری پہلوؤں کو نظر انداز کر کے فحش نگاری اور سستی جذباتیت کو فروغ دیا ہے۔ جب کہ کچھ لوگوں نے ان کی جنس نگاری کو سراہتے ہوئے انھیں اردو کا ڈی ایچ لارنس کہا ہے۔ عزیز احمد کے ناول ”ہوس“ اور ”گریز“ اس ضمن میں قابل ذکر ہیں۔ ناول ”ہوس“ میں جنس کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔

اس میں پردے کو موضوع بنایا گیا ہے۔ یہاں پردے کے متعلق دو خیالات سامنے آتے ہیں، پہلا خالصتاً اسلامی اور دوسرا رجحان جدید تعلیم یافتہ نوجوانوں کی سوچ ہے جو اس سے بیزار ہیں۔ ناول کا مرکزی کردار اس نئی نسل کا نمائندہ ہے جو اپنی موجودہ تہذیب میں پردے کے سخت مخالف ہے۔ ایک طرف وہ پردے کو جنسی و جذباتی گھٹن کا ذمہ دار ٹھہراتا ہے تو دوسری طرف اس کے نفسیاتی مضر اثرات دکھاتا ہے۔ اس کے نزدیک فطری جنسی اور جبلی احساسات کو پردے میں قید کرنے سے فائدے کی بجائے نقصان ہوتا ہے۔

چونکہ جنسی جبلت کو دبانا ممکن نہیں اس لیے جس معاشرے میں پردے کی پابندی ہے وہاں خاندان کے اندر ہی خرابیاں پیدا ہوتی ہیں۔ ناول ”ہوس“ کا موضوع پردے کے پس پردہ وہ نفسیاتی حقائق ہیں جو خاندان میں خرابی کا باعث بنتے ہیں۔ یہاں ہمیں ایک نوجوان کی لاشعوری خواہشات اور خود ساختہ پابندیوں کے خلاف احتجاج نظر آتا ہے۔ اس طرح ہم کہہ سکتے ہیں کہ عزیز احمد کے ناول ”ہوس“ پر فرائیڈ کے گہرے اثرات موجود ہیں۔

عصمت چغتائی کا ناول ”ٹیڑھی لکیر“ جنسی نفسیات خاص طور پر فرائیڈ کے نظریہ جنس سے خاصا متاثر نظر آتا ہے۔ اس ناول میں بے شمار کردار ہیں جو کسی نہ کسی حوالے سے نفسیاتی اور جنسی الجھنوں میں گھرے نظر آتے ہیں۔ ناول کا مرکزی کردار شمن اپنے رویے اور کردار سے نفسیاتی الجھنوں کا مرکب ہے۔ اس لیے ناول نگار نے اسے ”ٹیڑھی لکیر“ کہا ہے۔ عصمت نے اس کردار کی تعمیر میں فرائیڈ کے افکار و نظریات سے کافی حد تک استفادہ کیا ہے۔

اس ناول کے مطالعہ سے واضح ہوتا ہے کہ شمن اور ناول کے دوسرے کرداروں کے قول و فعل میں فرائیڈین فکر غالب ہے۔ عصمت چغتائی کے ناول ”ضدی“ میں انسانی جذبات اور ماحول کے زیر اثر انسانی نفسیات کا شعور ملتا ہے۔ اس ناول میں پورن اور آشا کی کہانی ہے۔ معاشرہ ان دونوں کے درمیان ایک مضبوط دیوار بن جاتا ہے۔ اور اس طرح وہ لاشعوری قوتوں کے زیر اثر موت کی طرف سفر کرتے ہیں۔ اس ناول پر بھی فرائیڈ کے اثرات موجود ہیں۔ علاوہ ازیں عصمت چغتائی کے ناول ”معصومہ“ اور ”سودائی“ پر فرائیڈ کے اثرات ہیں۔

ناول ”معصومہ“ میں عصمت نے ایک متوسط طبقے کی معاشی بدحالی کو دکھایا ہے۔ اس کو بنیاد بنا کر نیلوفر نامی لڑکی کے طواف بننے کی کہانی پیش کی گئی ہے۔ عصمت نے اس ناول میں انسانی نفسیات کی بہت سی خرابیوں کی تشریح معاشی پس منظر میں کرنے کی کوشش کی ہے۔ ان کے نزدیک جنس کی بھوک، عزت، دولت، شہرت کی بھوک اور روٹی کی بھوک وغیرہ کا تعلق فرد کے معاشی حالات سے ہے۔ اس طرح اس ناول میں جنس کے بیان کا تعلق ذہن کی کارکردگی سے زیادہ پیٹ کی بھوک سے ہے۔ اس ناول پر بھی فرائیڈ کے اثرات نظر آتے ہیں۔

منٹو کے ناول ”بغیر عنوان کے“ پر بھی فرائیڈ کے گہرے اثرات موجود ہیں۔ منٹو نے اس ناول میں بیس سالہ نوجوان سعید کی ذہنی زندگی کو پیش کیا ہے۔ اور فرائیڈ کے نظریہ تحلیل نفسی کی روشنی میں اس کی نفسیاتی تحلیل کی ہے۔ اس لیے فرائیڈ کے نظریات کی گہری چھاپ اکثر جگہ نظر آتی ہے۔ اس ناول میں سعید نامی نوجوان کی شخصیت کو Id اور Super ego کی کش مکش میں مبتلا دکھایا گیا ہے۔ سعید جبلی جذبے کی تسکین کی راہ میں رکاوٹ معاشرے کی غلط رسوم و رواج اور مصنوعی زندگی کو سمجھتا ہے۔

اسے اس بات کا اندازہ ہے کہ اس کے فطری جذبے کی تسکین اس لیے بھی ناممکن ہے کہ وہ معاشی اور معاشرتی طور پر مضبوط نہیں ہے۔ سعید کی اس سوچ سے فرائیڈ کے اس قول کی تصدیق ہوتی ہے کہ دولت، حکومت اور اس طرح کی دوسری طاقتوں کے حصول کا مقصد دراصل انسان کا جنسی جبلتوں کی تسکین کرنا ہے۔ سعید، فرائیڈ کے قول کی مزید تصدیق کرتے ہوئے کہتا ہے کہ ہمیں تہذیب کے دباؤ کے پیش نظر اپنی لغزشوں کو چھپانا پڑتا ہے۔ سعید پر معاشرتی دباؤ اس میں کئی الجھنیں پیدا کر دیتا ہے اور وہ ان میں مسلسل گھرا رہتا ہے۔

ممتاز مفتی کے سوانحی ناول ”علی پور کا ایلی“ پر فرائیڈ کے بہت گہرے اثرات ہیں۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ ایلی کی زندگی، فرائیڈ کی ذاتی زندگی کے بہت قریب ہے۔ ایلی کی شخصیت کی تشکیل میں فرائیڈ کے افکار و نظریات سے بہت حد تک استفادہ کیا گیا ہے۔ راجندر سنگھ بیدی کے ناولٹ ”ایک چادر میلی سی“ پر بھی فرائیڈ کے اثرات موجود ہیں۔ اس ناول پر فرائیڈ کی وضع کردہ اصطلاح ”اوڈی پس کمپلیکس“ کے اثرات ہیں۔ اوڈی پس کے قصے میں تقدیر کی ستم ظریفی کا بہت دخل ہے۔ ناول کے کردار رانو اور منگل کے رشتے میں بھی تقدیر کا عمل دخل موجود ہے۔ علاوہ ازیں اکرام اللہ کے ناول ”گرگ شب“ حجاب امتیاز علی کے ناول ”ظالم محبت“ ، ”اندھیرا خواب“ اور ”پاگل خانہ“ اور بانو قدسیہ کے ناول ”راجہ گدھ“ پر فرائیڈ کے واضح اثرات ہیں۔

گو کہ فرائیڈ اور نفسیات کے زیر اثر اردو ادب میں لکھے گئے ناولوں کی تعداد بہت کم ہے، لیکن یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments