بصری آلودگی اور مون سون


سن دو ہزار بیس میں مون سون کے دنوں میں کراچی میں دو افراد بل بورڈ کے گرنے سے بری طرح زخمی ہوئے۔ اور ایسا ہر سال ہی ہوتا ہے۔ یہ بڑے بڑے بدنما اسٹرکچرز جو بے شتر مہار ہر جگہ لگے ہیں۔ اشتہاری کمپنیوں اور ان کے مالکان کے علاوہ عام آدمی کے لئے بس باعث آزار ہی ہیں۔ کبھی آندھیاں انھیں گراتی ہیں اور کبھی بارشیں۔ اور جانی اور مالی نقصان ہر گزرنے والے کا۔

اس سال جو اربن فلڈنگ کی وجہ سے پاکستان کے مختلف شہروں بالخصوص شہر قائد اور پنجاب کے دل میں جو حالات ہیں وہاں پانی میں انسانوں، جانوروں، سواریوں کے علاوہ کوڑے کے ڈھیر، شاپر، کاغذ، پلاسٹک کی بوتلیں، ٹن، گلی سڑی سبزیوں کے چھلکے اور اس کے ساتھ بہت کچھ تیرتا نظر آتا ہے۔ اور اس دفعہ تو عید الاضحٰی کا گند بھی اس میں شامل ہو گیا۔ سیلابی پانی تو بذات خود بیماریوں کا گھڑ ہوتا ہے کجا کہ اس میں ہر طرح کی گندگی اپنا حصہ ڈال کے تعفن اور بو کے بھبھوکے چھوڑے۔ ایسی صورت میں وبائیں نہ پھوٹیں تو کیا ہو؟ یعنی آسمان سے گرا، کھجور میں اٹکا۔

موسمیاتی تغیر سے برساتیں اب جناتی اور غیر معمولی ہوتی جا رہی ہیں۔ جس کے بہاؤ میں کچے، خستہ، ٹوٹے پھوٹے مکان اور عمارتیں بھی آتے ہیں۔ اور ہر دفعہ کئی جانیں موت کو گلے لگاتی ہیں۔ املاک کو نقصان اس سے الگ۔ دیوار کا زمین بوس ہونا اور چھت کا دھڑام سے نیچے آجانا ایک عام بات ہے۔

شہری زندگی میں بارشوں کا ایک اور عذاب بجلی، کیبل، فون کی تاروں، کھمبوں اور ٹرانسفارمرز سے جڑا ہے۔ جب پانی گلی کوچوں میں کھڑا ہوتا ہے تو یہ ان چیزوں کی سفاکیت بھی عروج پر ہوتی ہے۔ بجلی اور پانی تو ازل سے دشمن ہیں۔ اور اسی خار کا نتیجہ برقی کرنٹ ہے جو پھر کئی لوگوں کی جان لے کر ہی ٹلتا ہے۔

یہ ہر ساون کی کہانی ہے۔ بلکہ ان سب چیزوں کا وبال تو ہم سارا سال بھگتتے ہیں۔ گند کے ڈھیر، ابلتے ہوئے بلدیہ کے کوڑے دان، بے ترتیب، ٹوٹے، چمکدار، بے تناسب ہورڈنگز، کپڑے کے اشتہار، پینا فلیکس، تاروں کے جگہ جگہ جھمگٹے جن کی گندگی اور بد صورتی کے ساتھ ہم ہر وقت جینے کے عادی ہو گئے ہیں۔ غلیظ ماحول میں رہنا ہمارے لئے کوئی مسئلہ ہی نہیں۔ کیونکہ اگر ہم ان باتوں سے عاجز ہوں۔ تو کچھ تو انفرادی اور اجتماعی سطح پر بولیں اور کریں۔ ورنہ آسمان جب برسے گا تو زمین کی بد انتظامی ہر صورت دوہری ہو کر سامنے آئے گی۔

پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک میں جہاں حکومتیں کرسی اور اقتدار کی خاطر اپنا دین روپوں اور پیسے میں تولیں اور عوام بریانی کی ایک پلیٹ پر ایمان ہار دیں۔ شہری منصوبہ بندی اور دیگر حکومتی ادارے اپنا سب کچھ سفارش، رتبوں اور چاپلوسی کی نظر کر دیں اور بروقت کچھ بھی نہ کرنے کا تہیہ کر لیں۔ تو وہاں شیر آ رہا ہے۔ شیر آنے والا ہے۔ تیاری کریں۔ ہوش پکڑیں جیسی آوازیں کوئی نہیں سنتا۔ اور شیر آنے پر دس بیس بندوں کا مر جانا۔ کئی گھروں کا گر جانا، کاروبار کا ڈوب جانا، انسانوں کا جانوروں سے بھی بدتر رہنا ایک رسم ہی بن جاتی ہے۔

اور سب سے بڑا گلہ تو شہریوں سے ہی ہے۔ جن کے لئے گوبر بھرے راستوں سے گزرنا منظور ہے۔ سڑانڈ اٹھاتے خالی پلاٹوں کے ہمسائے اپنی رہائش گوارا ہے۔ موسلا دھار بارش میں ابلتے گٹر اور اس میں ڈوب کر آنا جانا معمول ہے۔ اخلاق باختہ، غیر ضروری اشتہارات کی بھر مار تکلیف نہیں دیتا۔ لیکن وہ عام طور پر اپنی بہتر زندگی کے لئے اور خاص طور پر مون سون کے لئے کچھ نہیں کرتے۔ پتہ نہیں وہ محلہ کمیٹیاں کہاں گئیں جو کئی دور اندیش بزرگوں پر مشتمل ہوتی تھیں جنہیں اپنے محلے پیارے اور شہر عزیز تھے۔ جو خود کو انسان سمجھتے تھے۔ کوئی اور ان کے لئے کرے نہ کرے، وہ خود کرتے تھے۔ کوئی بولے نہ بولے وہ سب ایک دوسرے کے لئے بولتے تھے۔ لیکن بہتر اور صاف ماحول ان کا حق اور اس کے متضاد ہونے کے اثرات سے واقف تھے۔ خدارا! ہر سال ایک ہی قسط بار بار چلانے سے بہتر ہے، سارا سال ایک مناسب شہری نظام چلانے کی ترکیب کریں ورنہ ڈنگ ٹپاؤ اور وقتی جوڑ توڑوں کی ساری بے رحمی قدرتی آفات کے دنوں میں کسی کو نہیں بخشے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments