سپریم کورٹ کے فیصلے کا عوامی، سیاسی اور قانونی پہلو


سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ کا وزیر اعلیٰ پنجاب کی تقرری کے حوالے سے آنے والے فیصلے پر دوبارہ سماعت کا حکومتی جماعتوں نے بائیکاٹ کر دیا ہے۔ اور یہ اعلان کیا ہے کا عدلیہ کے اہم اور حساس فیصلوں پر سیاسی حربوں کا اثر زائل کرنے کے لئے وہ سیاسی مہم جوئی کے ذریعے عدلیہ سمیت عوام کو اس بات پراعتماد میں لینے کی کوشش کریں گے کہ اس فیصلے پر سپریم کورٹ کا فل بینچ تشکیل دیا جائے اور آرٹیکل تریسٹھ اے کے اطلاق کے تمام ممکنہ پہلوؤں کا مکمل جائزہ لیا جائے۔

اس قانون کے زمرے میں سنائے جانے والے فیصلے کے مطابق مخالف جماعتوں نے یہ اعتراض اٹھایا تھا کہ آئین و قانون میں پارٹی کے چیئرمین کا پارٹی کے پارلیمانی لیڈر کو اور اس کے فیصلے کو رد یا منسوخ کرنے کے بارے میں، واشگاف ذکر نہیں ہے۔ جس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اس آرٹیکل کے حوالے سے تشریح اور توضیح کی گنجائش موجود ہے۔ اب اسی نقطے کو بنیاد بنا کر پاکستان تحریک انصاف کے رہنماؤں نے پریس کانفرنسز اور میڈیا بریفنگ کے ذریعے حکومتی اتحادی جماعتوں کو شدید تنقید کا نشانہ بنانے کا کوئی موقع جانے نہیں دیا۔ شہباز گل، شاہ محمود قریشی، علی زیدی، اسد عمر اور فرخ حبیب نے اپنے اپنے بیانیے میں اس فیصلے پر تنگ نظری سے تبصرہ کرتے ہوئے سیاسی مخالفت پر مبنی بیان دیے ہیں جس میں ان میں سے کچھ تو ذاتیات کی حد تک جاتے معلوم ہوئے ہیں۔

دوسری جانب حکومتی اتحادی جماعتوں نے ”کمپین کولیشن“ کے ذریعے ایسے تمام قوانین جن میں تشریح اور توضیح کی گنجائش باقی ہے انھیں قانون نافذ کرنے والے اداروں اور عدلیہ کے وقار کو بلند رکھنے کے لیے زیر بحث لانے کے مطالبے پر زور دیا ہے۔ سپریم کورٹ کا اس حوالے سے فل بینچ سماعت نہ کرنے کی ممکنہ وجہ یہ ہے کہ اس معاملے کو زیادہ طوالت نہ بخشی جائے کیوں کہ سیاسی انتشار کا خدشہ ہے۔ ملک کی معیشت پہلے ہی گھٹنوں کے بل آ چکی ہے مزید سیاسی افراتفری سے دیوالیہ ہونے کا خطرہ بڑھ جائے گا۔

جب کہ حکومتی جماعتوں کے لیے اس فیصلے میں کسی قسم کی بھی تبدیلی پنجاب حکومت میں وزارت اعلیٰ کے عہدے پر منتخب حمزہ شہباز شریف کی کابینہ کو برخاست کر سکتی ہے۔ حکومتی اتحادی جماعتوں کا اس حوالے سے خدشات کا اظہار بھی سیاسی دباؤ اور افراتفری کے پیش نظر ہے۔ حکومت مخالف جماعتوں کے حامی گروہوں کا جانب سے سیاسی دباؤ میں اضافے سے حکومتی عہدیداروں کی توجہ سنگین مسائل سے ہٹائی جانے کی سازش معلوم ہوتی ہے۔

اس اثنا میں گزشتہ شب سے ٹیلی ویژن پر پرائم ٹائم نشریات میں نشر کیے جانے والے ٹاک شوز میں عدلیہ پر اثر انداز ہونے والے تاریخی فیصلوں کے حوالے اور ماورائے عدالت سیاسی حربوں کے ذریعے حساس فیصلوں پر ججز کا جانبدار تاثر ختم کرنے کے لیے مختلف بیانیے سامنے آئے ہیں۔ زیادہ تر مبصرین کے تبصرے ان کی ذاتی آراء اور سیاسی شعور پر مبنی ہیں جن میں سے تحریک انصاف اور عمران خان کے حامیوں نے حکومتی جماعتوں کے سپریم کورٹ کے سماعت میں شامل نہ ہونے اور بائیکاٹ کرنے کے فیصلے کو توہین عدالت کہا گیا ہے۔

پی ڈی ایم کی مشترکہ پریس کانفرنس کا جائزہ لیا جائے تو ایسا لگتا ہے ان کا بائیکاٹ کرنا پاکستان کے سیاسی مستقبل کے لیے ایک مثبت قدم ثابت ہو سکتا ہے۔ سپریم کورٹ کے فیصلے پر اس سے مماثلت رکھتے ہوئے تمام مقدمات جہاں وضاحت کی گنجائش ہے ان پر نظر ثانی کرنا اور قوانین میں ترامیم کرنا یا اضافی شقیں درج کرنا ایک طویل اور مکمل توجہ طلب کام ہے۔ جس کی حکومت فوری طور پر متحمل نہیں ہو سکتی۔ ملک میں معیشت اور انتظامی مسائل کو لے کر سوشل میڈیا پر مختلف سیاسی مہمات حکومت اور انتظامی اداروں پر پہلے سے ہی دباؤ بنائے ہوئے ہیں۔

سوشل میڈیا پر شائع ہونے والی ویڈیوز میں کچھ تو بارش کے بعد نکاسی آب کا مناسب انتظام نہ ہونے پر پنجاب حکومت پر تنقید کا بادل بنائے ہوئے ہیں اور کچھ عدلیہ اور اداروں کے قوانین میں ترامیم کی طرف توجہ دلانے کے لیے مکمل دباؤ ڈال رہی ہیں۔ حکومت کے لیے یہ یقینی طور پر ایک اعصاب شکن چلینج ہے جس میں قوت ارادی اور فیصلہ کرنے کی طاقت کا امتحان لیا جا رہا ہے۔

اس معاملے کا عوامی پہلو یہ ہے کہ حکومتی جماعتوں کا سپریم کورٹ کے فیصلے کا بائیکاٹ کرنا اور یہ تاثر دینا کے مقرر کردہ ججز جانبدار فیصلہ سنا سکتے ہیں، مخالف جماعتوں کو ان کے خلاف توہین عدالت کا مرتکب ہونے کے الزامات لگانے کا موقع دے رہا ہے۔ جس سے عوام میں عدلیہ اور اداروں کے خلاف ایک منفی جذبہ بیدار ہو سکتا ہے۔ عوام کا عدالتوں پر اعتماد دھندلا پڑ سکتا ہے۔ اور یہ تاثر بن سکتا ہے کہ پاکستان کے اعلیٰ ادارے بھی سیاسی اثر و رسوخ کے زیر سایہ کام کرتے ہیں۔

ملک میں گروہ سازی، انارکی پھیل سکتی ہے۔ قومی اتحاد پر عوام کے اعتماد کو شدید چوٹ پہنچ سکتی ہے۔ اور اس معاملے کا سیاسی پہلو یہ ظاہر کرتا ہے کہ یہ پے در پے سیاسی حملے کسی بیرون طاقت کے کارنامے ہیں ملک پر دفاعی اداروں اور حکومت کی انتظامی گرفت کمزور ترین حد تک جا پہنچی ہے۔ سوشل میڈیا ان تمام سیاسی مسائل میں ایک بہت اہم کردار ادا کر رہا ہے یہ بات نہیں بھولنی چاہیے۔ سیاست دانوں کو اقتدار کی لالچ ہے اور وہ اس کے لیے اداروں، افواج اور قومی اتحاد کی حرمت کا کبھی خیال نہیں رکھیں گے۔

نتیجہ یہ ہو گا کے ملک دیوالیہ ہو جائے گا اور بیرونی طاقتوں سے مغلوب ہو جائے گا۔ اب معاملے کا انتہائی اہم ”قانونی پہلو“ یہ ہے کہ قانون کی تشریح اپنے مفاد میں کرنا اور اس کو سیاسی حربے کے طور پر طاقت کے حصول کے لئے استعمال کرنا آنے والے وقت میں پاکستانی سیاست کی خوشنما تصویر نہیں پیش کرتا۔ سیاسی پارٹیاں، تکنیکی مہارتوں، افرادی قوت اور نظریہ ضرورت کو بنیاد بنا کر آئین و قانون کی دھجیاں اڑا سکتی ہیں۔ کیوں کے اس سطح کی سیاست ٹیکنوکریٹس کر سکتے ہیں یہ بیوروکریسی کے مقیاس ذہانت سے بھی بعید معلوم ہونے والے جدید سیاسی پراپیگنڈے لگتے ہیں۔ وکلا گردی، پولیس گردی اور عوامی استحصال ایسے ہی سیاسی حربوں کے پیدا کیے گئے ناسور ہیں۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments