فوری انتخابات ناگزیر ہیں


پاکستان کی سیاست میں ایک بنیادی نقطہ پر بحث جاری ہے کہ ہمیں فوری انتخابات کا راستہ اختیار کرنا چاہیے یا انتخابات اپنے مقررہ شیڈول یعنی اگست 2023 میں ہی ہوں گے ۔ تحریک انصاف اور عمران خان کی مزاحمتی تحریک کا ایک نکاتی ایجنڈا فوری منصفانہ اور شفاف انتخابات ہیں۔ جبکہ اس کے برعکس مسلم لیگ نون اور بالخصوص پیپلز پارٹی فوری انتخابات کی بجائے اپنی حکومتی مدت پوری کر کے انتخابات کا راستہ اختیار کرنا چاہتے ہیں۔

بالخصوص پنجاب کے حالیہ ضمنی انتخابات میں تحریک انصاف اور بالخصوص عمران خان کے سیاسی بیانیہ کی واضح جیت نے عملاً حکومت کو فوری انتخابات سے روک دیا ہے۔ حالیہ حکمران جماعت کے اتحاد نے مشترکہ طور پر یہ ہی فیصلہ کیا ہے کہ ہمیں عمران خان کے دباؤ میں آنے کی بجائے فوری انتخاب کے مطالبہ سے واضح انکار کرنا ہو گا۔

عمران خان نے پنجاب کے ضمنی انتخابات میں جیت کے بعد ایک بار پھر حکومت اور اسٹیبلیشمنٹ کو یہ ہی واضح پیغام دیا ہے کہ وہ فوری طور پر انتخابات چاہتے ہیں۔ ان کے بقول اگر حکومت فوری انتخاب کا راستہ اختیار کرتی ہے یا اس کی تاریخ کا اعلان کرتی ہے تو ان کی جماعت عملاً حکومت کے ساتھ بیٹھ کر شفاف انتخابات، الیکشن کمیشن اور انتخابی اصلاحات پر بات چیت کے لیے تیار ہیں۔ عمران خان کے بقول یہ تاثر درست نہیں کہ وہ بات چیت کے خلاف ہیں بلکہ ان کی بڑی شرط بات چیت سے قبل انتخابات کی تاریخ کا اعلان ہے۔

حکمران جماعت کے بقول یہ عمران خان کی سیاسی قیادت سمیت اسٹیبلیشمنٹ پر دھمکی بھی یا سب کو سیاسی دباؤ ڈالنے کی کوشش ہے اور کسی ایک فرد واحد کی خواہش پر فوری انتخابات ممکن نہیں۔ بنیادی طور پر عمران خان حکومت کی تبدیلی کے بعد یہ جو تاثر تھا کہ نئی سیاسی حکمران قیادت ملک کے سیاسی و معاشی حالات کو کنٹرول کر لے گی، غلط ثابت ہوا۔ یعنی رجیم چینج کے نام پر جو بھی تبدیلی کا کھیل کھیلا گیا وہ عملی سطح پر اپنے مطلوبہ سیاسی نتائج دینے کی بجائے حالات کو اور زیادہ سنگینی کی طرف لے آیا ہے۔

پاکستان میں اس وقت جو سیاسی اور معاشی غیر یقینی صورتحال ہے اس میں استحکام کو پیدا کرنا ایک بڑا سیاسی چیلنج ہے۔ کچھ لوگ یہ منطق دیتے ہیں کہ موجودہ معاشی حالات کے بگاڑ میں نئے انتخابات ممکن نہیں۔ اگر یہ منطق مان لی جائے تو اس بات کی کیا ضمانت ہے یا کیا امکانات ہیں کہ انتخابات کے راستہ کو نظرانداز کر کے ہم معاشی ترقی کے عمل میں جا سکتے ہیں۔ کیونکہ ایک بات تو طے ہے کہ اگر فوری انتخابات کا راستہ اختیار نہیں کیا جاتا تو اس کے نتیجے میں قومی سیاسی بحران کم نہیں بلکہ بڑھے گا۔

جب ملک میں سیاسی فریقین کے درمیان محاذ آرائی بڑھے گی تو اس کے نتیجے میں صرف سیاسی بحران ہی نہیں بلکہ اس کا براہ راست اثر معاشی بحران کی صورت میں بھی نمودار ہو گا۔ دنیا میں موجود مالیاتی ادارے یا عالمی ممالک جو مالیاتی طور پر مستحکم ہیں وہ کیسے ایک ملک میں موجود غیر یقینی صورتحال میں سرمایہ کاری یا سیاسی بھروسا کر سکتے ہیں۔ آئی ایم ایف بھی کی پاکستانی معاملات پر گہری نظر ہے اور ان کو اندازہ ہے کہ اس وقت پاکستان کے سیاسی حالات میں جو غیر یقینی ہے اس کی موجودگی میں موجود حکومت پر زیادہ بھروسا نہیں کیا جاسکتا۔

اگر پاکستان نے معاشی طور پر مستحکم ہونا ہے تو ہمیں دو تین چیزیں فوری طور پر درکار ہیں۔ اول فوری انتخابات اور انتخابات کے نتیجے میں پانچ برس کی مدت پر مشتمل سیاسی حکومت جو لانگ ٹرم ، مڈٹرم اور شارٹ ٹرم فیصلے کرسکے۔ دوئم ہمیں چند ووٹوں پر مشتمل حکومت کے مقابلے میں ایک مضبوط اور مستحکم حکومت کی ضرورت ہے جو زیادہ جرات کے ساتھ بڑے سیاسی و معاشی فیصلے بھی کرسکے اور اتحادیوں کی بلیک میلنگ سے بھی بچ سکے۔ سوئم جو بھی نئی حکومت آئے اس کے پاس ایک واضح سیاسی اور معاشی روڈ میپ ہو جس میں اس کی اہم ترجیحات میں ملک میں معاشی و سیاسی اصلاحات بالخصوص ادارہ جاتی ڈھانچوں میں بنیادی نوعیت کی تبدیلیاں شامل ہوں۔

یہ بات سمجھنی ہوگی کہ سیاسی استحکام کے بغیر معاشی استحکام کو قائم کرنا آسان کھیل نہیں ہوتا۔ اس وقت بھی ہم وفاقی حکومت کو دیکھ رہے ہیں جو بنیادی طور پر دو ووٹوں کی بنیاد پر قائم ہے۔ ایسی کمزور حکومت کو بنیاد بنا کر ہم معاشی ترقی کے عمل میں نہ شامل ہو سکیں گے اور نہ ہی یہ حکومت کوئی بڑے معاشی فیصلے کرنے کی عملی صلاحیت رکھتی ہے۔ خاص طور پر ایسے موقع پر جب اگلا برس انتخابات کا ہو تو حکومتیں عمومی طور پر انتخاب کو بنیاد بنا کر معاشی پاپولر فیصلے کرتی ہیں جو معاشی حالات کو اور زیادہ بگاڑ پیدا کرنے کا ذریعہ بنتا ہے۔

اگر واقعی ہمیں فوری انتخابات کا راستہ اختیار کرنا ہے تو اس میں پہلی کڑی حکومت اور حزب اختلاف سمیت دیگر فریقین کے درمیان مکالمہ کو پیدا کرنا ہو گا۔ کیونکہ اگر ہم سب چاہتے ہیں کہ انتخابات منصفانہ اور شفاف بھی ہوں اور انتخابات کا عمل متنازعہ بھی نہ ہو اور سب انتخابی نتائج بھی قبول کریں تو اس کے لیے سب فریقین کو مل بیٹھ کر شفافیت کا راستہ اختیار کرنا ہو گا۔ کیونکہ عمران خان الیکشن کمیشن، چیف الیکشن کمشنر، الیکٹرانک ووٹنگ، دیار غیر پاکستانیوں کو ووٹ دینے کا حق سمیت بہت سے ایسے معاملات ہیں جن پر سیاسی فریقین میں بات چیت ہونی چاہیے تاکہ ہم کسی متفقہ نکات پر پہنچ سکیں۔

کیونکہ جو معاشی حالات ہیں اور جس طرف یہ حالات جا رہے ہیں ملک اس معاشی بحران یا معاشی دیوالیہ کا متحمل نہیں ہو سکتا ۔ بدقسمتی سے اس وقت مسئلہ یہ بھی ہے کہ حکومت ہو یا حزب اختلاف یا سیاسی دانشور سب کی سطح پر معاشی معاملات پر بھی سیاست ہو رہی ہے۔ یعنی معیشت جیسے سنگین مسئلہ پر بھی ہماری سیاسی تقسیم نے معاشی معاملات سے جڑے مسائل کو اور زیادہ سنگینی کا کھیل بنا دیا ہے۔ کیونکہ ہمارے سامنے معیشت سے زیادہ سیاست اہم ہے اور سیاسی طاقت کے کھیل نے اہل سیاست کو ریاستی مفاد ات سے دور کر دیا ہے۔

مسئلہ سیاسی ضد کا نہیں کہ حکومت ہو یا حزب اختلاف دونوں کو اپنی اپنی سیاسی انا یا ضد سے باہر نکلنا ہو گا۔ انتخابات کا فوری فیصلہ یا طے شدہ مقررہ مدت میں انتخابات کسی کی ہار یا جیت کا کھیل نہیں۔ دنیا میں قبل از وقت انتخابات کوئی غیر آئینی کھیل نہیں بلکہ حکومتیں ملکی یا ریاستی مفاد کی بنیاد پر یہ راستہ اختیار کر سکتی ہیں۔ اگر ہم نے اس بنیاد پر یہ فیصلہ کرنا ہے کہ فوری انتخاب کسی کے حق میں اور کسی کی مخالفت میں نہیں ہونا چاہیے۔

آج حکومت اگر سمجھتی ہے کہ فوری انتخاب ان کے حق میں نہیں تو اگر انتخاب بعد میں ہوتے ہیں تو حکومت کے پاس ایسا کون سا اہم جادو ہے جس کی بنیاد پر وہ معاشی ترقی کا جال بچھا کر ووٹروں کو اپنی طرف متوجہ کر سکتی ہے۔ حالات کی سنگینی تو یہ ظاہر کرتی ہے کہ اگر حالات ایسے ہی چلتے رہے تو تو موجودہ حکومت کو آگے بھی بڑی سیاسی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ مسلم لیگ نون میں بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو اب بھی یہ سمجھتے ہیں کہ نئے انتخابات ہی واحد آپشن ہے کیونکہ ہم آگے بھی عوامی مفاد میں کوئی بڑا معاشی ریلیف قوم کو نہیں دیں سکیں گے۔

جہاں تک آصف زرداری کا تعلق ہے وہ یقیناً فوری انتخابات کے حامی نہیں لیکن یہ فیصلہ ان کی جماعت کا ہے مسلم لیگ کو موجودہ حالات کو بنیاد بنا کر ایسا فیصلہ کرنا چاہیے جو ان کی سیاسی ساکھ سمیت ان کی سیاست کو بھی بچا سکے۔ کیونکہ جتنا انتخابات میں تاخیر ہوگی اتنی ہی ملک میں غیر یقینی سیاسی و معاشی صورتحال بھی عروج پر ہوگی اور مسلم لیگ نون کو بھی عوامی سیاست میں زیادہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ پنجاب میں اب جبکہ تحریک انصاف کی حکومت بن گئی ہے تو ایسے میں اسلام آباد میں بیٹھے ہوئے وزیر اعظم شہباز شریف کس حد تک سیاسی و معاشی طور پر ڈلیور کرسکیں گے خود ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔

اب سوال یہ ہی بنتا ہے کہ یا تو سیاسی قیادتیں خود سے یا اس میں اسٹیبلیشمنٹ سمیت دیگر فریقین جن میں صدر مملکت، چیف جسٹس آگے بڑھ کر مکالمہ کا ماحول بھی پیدا کریں اور سب جماعتوں کو اس نقطہ پر لائیں کے وہ مستقبل کی سیاست سمیت نئے انتخابات کے معاملہ پر مشترکہ حکمت عملی اور نئے رولز آف گیمز طے کر لیں تاکہ ملک میں شفاف انتخابات کا ماحول بھی پیدا ہو اور تمام فریقین انتخابی نتائج کو بھی قبول کریں وگرنہ دوسری صورت میں بحران ختم نہیں ہو گا۔ اس وقت جو سیاسی بداعتمادی ہے وہ ظاہر کرتی ہے کہ کسی تیسرے فریق کو ہی آگے بڑھ کر اس مذاکراتی عمل میں اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔ یہ کام مشکل ضرور ہے مگر ناممکن نہیں لیکن اگر سب فریقین یہ اتفاق کر لیں کہ ہمیں آگے بڑھنے کا ہی راستہ تلاش کرنا ہے تو مسئلہ کا حل نکالا جاسکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments