عورت پر تشدد: آخر کب تک؟


کہتے ہیں کہ جب ایک بیٹی پیدا ہوتی ہے تو ماں باپ سب سے پہلی دعا یہی مانگتے ہیں کہ اللہ ہماری بیٹی کے نصیب اچھے کرے کیونکہ ان کو بیٹی کی پیدائش سے نہیں اس کے نصیب سے ڈر لگتا ہے لیکن شاید اسی ڈر نے بیٹیوں کے والدین کو بہت بار کمزور بنایا ہے، جس کی قیمت ہماری بیٹیاں ادا کرتی آئی ہیں اور آج تک کر رہی ہیں۔

مجھے آج بھی یاد ہے جب ہمارے گھر چوتھی بہن ہوئی تھی تو اس وقت بہت سے لوگوں نے میرے والد سے ہمدردی کا اظہار کیا تھا اور کہا تھا کہ کاش یہ بیٹا ہوتا یا یہ پیدا ہی نہ ہوتی کیونکہ تمہارے کندھوں پہ پہلے سے تین بیٹیوں کا بوجھ ہے اور ایک اور بیٹی نے آ کر اس بوجھ میں مزید اضافہ کر دیا ہے، میری والدہ بحیثیت ایک عورت اس وقت شاید واقعی لوگوں کی باتوں سے ڈر گئی تھیں اور پریشان تھیں لیکن میرے والد نے اس وقت جو بات کہی تھی مجھے آج تک نہیں بھولتی ”یہ میری بیٹیاں نہیں بلکہ میرے چار بیٹے ہیں اور یہ بات وقت ثابت کرے گا“ اور واقعی یہ بات وقت نے ثابت کی اور آج ہم اپنے والد کی چار بیٹیاں ان کے بازو ہیں لیکن دوسری طرف ایک تلخ حقیقت یہ بھی ہے کہ بہت سے والدین اپنی بیٹیوں کے ساتھ کھڑے نہیں ہوتے اور

وجہ ہوتی ہے معاشرے کا اور دوسروں کا ڈر جس کی وجہ سے بیٹیاں زندہ جہنم میں جلتی رہتی ہیں لیکن ان کو صبر اور برداشت کا درس دے کہ چپ کروا دیا جاتا ہے۔ بچپن سے بتا دیا جاتا ہے لڑکیوں کو کہ اپنے جذبات اور سوچ کا اظہار کرنا ایک اچھی عورت کی نشانی نہیں بلکہ اچھی عورت وہ ہے جو ہر ظلم اور جبر کو برداشت کرے لیکن کب تک یہ نہیں بتایا جاتا اور پھر یہیں سے خوابوں کی قربانی کا نا ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے جو کہ مرنے تک ساتھ رہتا ہے۔

ایک لڑکی جب ماں باپ کے گھر سے رخصت ہوتی ہے تو اس کے ذہن میں سو وسوسے ہوتے ہیں لیکن ان کے ساتھ ساتھ بہت

سے ارمان بھی ہوتے ہیں کہ جس گھر وہ جا رہی ہے وہاں اس کو اپنے ملیں گے اور اس کی زندگی اچھی ہوگی لیکن بدقسمتی سے آج کل اس کے بالکل الٹ ہو رہا ہے، ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان میں ستر سے اسی فیصد خواتین گھریلو تشدد کا شکار ہیں، اس میں جسمانی تشدد کے ساتھ ساتھ نفسیاتی اور جذباتی تشدد بھی شامل ہے، نہ جانے کتنی ہی بیٹیاں اس تشدد کی وجہ سے زندگی کی بازی ہار بیٹھی ہیں اور شاید ہارتی رہیں گی۔ عزت اور غیرت کے نوم پر قتل کرنے سے لے کر رشتے سے انکار کے نام پر قتل کرنا اور جبر کا نشانہ بنانا ہمارے مردوں اور معاشرے کے لئے بالکل عام سی بات ہے اور لوگ بڑے فخر سے اس بات کو پیش کرتے ہیں۔ مجھے آج بھی یاد ہے جب قندیل بلوچ کے قتل کی خبر سوشل میڈیا پہ شائع ہوئی تھی تو بہت

سے لوگوں نے اس کے بھائی کو اس کی نام نہاد غیرت کے اس مظاہرے پہ شاباش دی تھی، یعنی ایک انسان کا اس بہیمانہ

طریقے سے چلے جانا لوگوں کے لیے کوئی معنی نہیں رکھ رہا تھا، اسی طرح جب نور مقدم کو قتل کیا گیا تو لوگوں نے قاتل

سے زیادہ مقتول کی کردار کشی کی جا رہی تھی، کہیں پہ فتوے لگ رہے تھے اور کہیں ماں باپ کی تربیت پہ سوال لیکن کسی

کو یہ نظر نہیں آیا کہ ایک جیتی جاگتی انسان سے اس کے زندہ رہنے کا حق چھین لیا گیا۔ دعا زہرا کیس میں لوگوں نے ماں باپ کو طعن و تشن کا نشانہ بنایا اور بہت سے ایسے بے شمار کیسز جہاں مرد کے ظلم و زیادتی کو چھوڑ کر عورت کی غلطی کو ڈھونڈا جاتا ہے۔ اور اس پر مزید ظلم یہ کہ ہمارا انصاف کا کمزور نظام کہیں بھی عورت کو اس طرح سے تحفظ نہیں دیتا کہ عورت اپنے فیصلوں میں خود مختار کہلائے، کہنے کو تو عورت کے حقوق کے علمبردار بہت ست ادارے ہیں لیکن حقیقی معنوں میں عورت آج بھی جبر کا شکار ہوتی ہے تو اس کو بے یارو مددگار چھوڑ دیا جاتا ہے۔ آپ تاریخ اٹھا کہ دیکھ لیں کتنی عورتوں کو جو تشدد کا شکار ہوئیں ان کو انصاف ملا؟ باتیں کرنے کو سب تیار ہیں لیکن باتیں کرنے والے اکثر یہ بھول جاتے

ہیں کہ خاندان کے ناموس کی حفاظت صرف عورت کی ہی نہیں بلکہ مرد کی بھی ذمہ داری ہے تو پھر سزا ہر بار عورت کو ہی کیوں؟ جب ایک عورت کی عزت پہ وار کیا جاتا ہے تو اس کو بدقسمت اور متاثرہ کیوں کہا جاتا ہے؟ اس جانور کو رذیل اور ناپاک کیوں نہیں کہا جاتا جو اپنی مردانگی کے زعم میں اپنے اندر کے جانور کو قابو نہیں رکھ سکتا؟ عورت کی پاکیزگی تو خون کا ایک قطرہ بتا دیتا ہے بقول لوگوں کے لیکن ایک آوارہ مرد کی پاکیزگی کا اندازہ کیسے لگایا جاتا ہے؟ عورت کو تو صبر کا درس دیا جاتا ہے لیکن مرد کو نفس اور جذبات قابو رکھنا کون سکھائے گا؟ یہ وہ سوال ہیں جو آج تک شاید ہم خود سے کرنے سے کتراتے ہیں۔

گزشتہ برس دو دوستوں کی شادی ہوئی، شادی سے پہلے بہت بات چیت تھی اور ہم دوستیں خوب مذاق کرتیں اور طے پایا کہ ہر ہفتے ملا کریں گے اور پھر شادی ہوئی دوستوں کی لیکن کہتے ہیں نا کہ انسان جو سوچتا ہے ویسا اکثر نہیں ہوتا۔ دونوں دوستوں کو زیادہ پڑھا لکھا ہونے پہ طعنے ملنے لگے، والدین سے رابطہ ختم کرنے کا حکم ملا اور پھر دوستوں سے بھی الگ ہونے کا حکم صادر ہوا اور ہاتھ اٹھانے کا نا ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوا جو کہ اب تک جاری ہے لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ والدین اف تک نہیں کر رہے، ان دونوں کو صبر کرنے کا کہا جا رہا ہے لیکن ان دو مردوں کو شاید وہ سب یہ سمجھانا بھول گئے کہ آپ دو لڑکیاں بیاہ کہ لے کر گئے ہیں کوئی بے جان کھلونے نہیں، جن کہ ساتھ جو مرضی سلوک کریں۔ اس بے بسی پہ بعض اوقات

میرا دل خون کے آنسو روتا ہے، ہمیں مری ہوئی بیٹی تو قبول ہوتی ہے لیکن ایک زندہ، طلاق یافتہ بیٹی ایک سیاہ دھبہ لگتی ہے۔ چند دن پہلے بیرون ملک ایک پاکستانی نژاد خاتون کو صرف اس بات پہ قتل کیا گیا کہ اس نے اپنے شوہر کے جبر سے تنگ آ کے اس سے خلع لی لیکن جب آپ اس واقعے پہ لوگوں کا ردعمل دیکھیں گے تو آپ کا سر شرم سے جھک جائے گا، معاشرے کا رویہ ایک عورت کی طرف اس قدر سرد ہے کہ اکثر بحیثیت ایک عورت مجھے بھی اپنا آپ کہیں محفوظ نہیں لگتا۔ یہ بات سمجھنے کی اشد ضرورت ہے کہ عورت ایک انسان ہے جس اے اللہ نے بھی نرمی برتنے کا حکم دیا ہے اور خدا نے اطاعت کا پابند عورت کو ہی نہیں کیا، مرد کو بھی صبر اور استقامت کے مظاہرے کا حکم دیا ہے۔

آخر کب ہم یہ بات سمجھیں گے کہ مار اور تشدد برداشت کرنا ایک عورت کو عظیم نہیں بناتا بلکہ اس ظلم کے خلاف ڈٹ جانا اصل بہادری ہے اور اس بہادری پہ اس کے اپنوں کو سب سے پہلے مبارک دینی چاہیے۔ آخر کب تک کبھی پہناوے کہ نام پہ، کبھی رہن سہن کے نام پہ، کبھی خود مختاری کے مطالبے پہ عورت کو مجرم قرار دے کر زندگی کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں یا بنیادی حقوق سے محروم کر دیا جاتا ہے لیکن یہ سلسلہ کہیں تھمنے نہیں آ رہا۔ ہم اپنی بیٹیوں کو خاموشی اور برداشت کا درس ہمیشہ سے دیتے آئیں ہیں لیکن کیوں کبھی بیٹوں کو یہ نہیں بتایا کہ عورت کو پاؤں کی جوتی نہ سمجھا جائے؟ کیوں سارے برداشت اور صبر کے سبق ایک عورت کے لئے ہوتے ہیں لیکن ایک مرد کے لئے نہیں؟

اپنی بیٹیوں کو انکار کرنا سکھائیں، جبر برداشت کرنا نہیں، ان کا ساتھ دیں، بوجھ نہ سمجھیں اور اپنے بیٹوں کو عورت کے انکار کو برداشت کرنا سکھائیں، تربیت صرف لڑکی کی نہیں بلکہ لڑکے کی بھی کریں، اس کو بتائیں کہ غیرت مند ہونا یہ نہیں کہ آپ اپنی بہن بیٹی پہ ہاتھ اٹھائیں یا ان کو ختم کر دیں بلکہ غیرت یہ ہے کہ آپ اپنی بیٹیوں بہنوں کا سائبان بنیں۔ عزت کا بوجھ عورت کے کندھوں پہ ہی نہیں۔ اور وہ لوگ جو مذہب کا حسب ضرورت استعمال کر کے اس گھریلو تشدد کے منفی رویے کو فروغ دے رہے ہیں ان کو یہ یاد رکھنا چاہیے کہ ایک حساب اوپر کرنے والا بھی موجود ہے، مذہب کو اپنی ضرورت کے مطابق استعمال کرنا اب بند ہونا چاہیے۔ عورت کو کھلونا سمجھنے والوں کو نظام قانون ایسی مثالی سزا دے کہ آئندہ کوئی بھی ایسی جرات نہ کر سکے اور دوسری طرف علمائے کرام کو دوسری اور تیسری شادی کے فوائد بتانے سے گریز کر کے اسلام میں عورت کا اصل مقام کیا ہے یہ بات معاشرے کو سمجھانی چاہیے، لوگوں کو آگاہی دینی چاہیے کہ کسی کی بہن، بیٹی پہ تہمت یا فتوی لگانے سے گریز کریں۔ یقین کیجئے اگر ان نقاط پہ عمل کیا جائے تو دنیا رہنے کے قابل بن جائے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments