بوسنیا کی چشم دید کہانی ۔ ( 7 )


یو این کے قواعد و ضوابط کے مطابق ہم ہفتہ وار چھٹی کے حقدار نہ تھے۔ ہمیں تیس دن مسلسل کام کرنے کے بعد چھ دن کی چھٹی ملتی تھی اور غیر سرکاری طور پر دو دن راہداری کے طور پر اضافی ملنے کے ساتھ ساتھ سرائیوو تک سرکاری گاڑی میں مفت پک ڈراپ کی سہولت بھی دی جاتی تھی۔ یہ ماورائے قانون رعایت تھی جس کی موج بلا خوف و خطر ہر کوئی اڑاتا تھا اور اس باب میں تمام محمود و ایاز ایک ہی صف میں کھڑے تھے۔

اس کے علاوہ ہمارے لیے ڈیڑھ دن فی ماہ اور ترجمانوں کے لیے ڈھائی دن فی ماہ سالانہ چھٹی بھی تھی۔ یہ ڈیڑھ اور ڈھائی دن کی چھٹی کا طریق مکتب یو این کے ان نرالے دستوروں میں سے ایک تھا جن پر بولک یاران نکتہ داں کو صلائے عام دیتے ہوئے خوب خوب نکتہ سرائی کرتا تھا۔

15 جولائی 96 ء کو اپنی پہلی چھٹی کا آغاز ہوا۔ یہ چھٹی گزارنے کے لیے میں نے جس مقام کا انتخاب کیا وہ یوگوسلاویہ کا صدر مقام بلغراد تھا۔ میجیگوریا سے سرائیوو تک مجھے اور اقبال کو چھوڑنے ٹامس آیا۔ رات ہم نے اماں عدیلہ کے کرایہ دار کے طور پر گزاری۔ اقبال کا یہاں سے آگے جانے کا ارادہ نہیں تھا۔ میں نے بلغراد جانے والی بسوں کے اڈہ اور اوقات روانگی کے بارے میں پہلے سے ہی معلومات حاصل کر لی تھیں۔ پہلی بس ائرپورٹ کے نزدیک سرب اکثریتی علاقے کولا سے صبح آٹھ بجے روانہ ہوتی تھی۔ میں اماں عدیلہ کے گھر سے سات بجے کے قریب نکلا اور ٹیکسی لے کر بس سٹینڈ کی طرف روانہ ہوا۔ ٹیکسی ڈرائیور نے مجھے اڈہ سے ایک کلو میٹر ادھر اتار دیا اور بتایا کی مسلمان ہونے کے ناتے آگے جانا چونکہ اس کے لیے خطرے کا باعث ہے اس لیے افسوس ہے کہ مجھے آگے پیدل جانے کی زحمت گوارا کرنی پڑے گی۔

کولا کے ویران سے بس سٹیشن سے ٹھیک آٹھ بجے میری بس بلغراد کے کیے روانہ ہوئی۔ یہ اگمان کی پہاڑیوں میں درختوں سے ڈھکی سڑک پر رواں اس قدر اونچائی تک چلی گئی کی پورا سرائیوو ایک کھلی کتاب کی طرح سامنے آ گیا۔ شہر آنکھوں سے اوجھل ہوا تو تھوڑے تھوڑے گھروں پر مشتمل پہاڑیوں کی ڈھلوانوں پر آباد چھوٹی چھوٹی دیہاتی بستیوں کا ایک سلسلہ شروع ہوا جن سے پرے نہ ختم ہونے والے گھنے جنگل تھے۔ یہ منظر بدلا تو ہمارے دائیں ہاتھ دریائے ساوا بہنے لگا۔

یہ جمہوریہ سربسکا اور یوگوسلاویہ کی سرحد تک ہمارا ہمسفر رہا۔ سفر کے دوران جو نیا مشاہدہ ہوا وہ تمام مسافروں کا دوران سفر سگریٹ نوشی سے پرہیز کرنا تھا۔ ڈرائیور اور کنڈکٹر بہرحال اس پابندی سے آزاد تھے۔ میں بار بار بس میں نظر دوڑاتا کہ شاید کوئی مسافر ان دونوں کی تقلید میں میرا پیش رو بنے اور مجھے اپنا مقلد ہونے کا شرف بخشے لیکن یہ خواہش پوری نہ ہو سکی۔ کچھ دیر کے لیے تو خیال آیا کی شاید اتفاق سے اس بس کا کوئی بھی مسافر سگریٹ نوش نہیں ہے۔

لیکن اب تک کے قیام یورپ کا مشاہدہ اس مفروضے کو مشکوک بناتا تھا۔ اس گو مگو کی کیفیت میں سفر جاری رہا۔ کوئی تین گھنٹے بعد بس ایک قصبے میں ایک ریستوران کے سامنے رک گئی۔ تمام مسافروں نے اپنی اپنی جگی چھوڑ دی۔ دروازے سے نکلتے ہی تقریباً ہر مرد و زن نے سگریٹ سلگائی اور کش پہ کش لینے لگے۔ بس کے اندر اگرچہ سگریٹ نوشی کی ممانعت کی کوئی ہدایت درج نہ تھی لیکن یہ خود ساختہ پابندی ان اصولوں میں سے ایک تھی جو گوروں کی زندگی کا شعار ہے۔ یہاں ایک اصول کے حوالے سے ان کا شعار بہرحال اپنے سے مختلف نہ پایا۔ ریستوران میں ڈرائیور اور کنڈکٹر کی تواضع ان کے من پسند کھانے سے مفت کی گئی جبکہ مسافروں سے ہر شے کے دام بازار کی نسبت ڈیڑھ گنا زیادہ وصول کیے گئے۔

یوگوسلاویہ کی سرحد پر پہنچے تو تمام مسافروں کے سفری کاغذات کی پڑتال شروع ہوئی۔ ایک خاتون جو ساٹھ کی پیٹے میں ہوگی اس کے کاغذات درست نہ پائے گئے۔ اس سے ویزا فیس کا مطالبہ کیا گیا۔ وہ چپ چاپ بس سے اتر کر کھوکھا نما کھڑکی تک گئی اور فیس ادا کر کے واپس آ گئی۔ بس میں واپس آتے ہوئے اس کی آنکھیں بھرائی ہوئی تھیں۔ اس نے سیٹ پر بیٹھتے ہی اونچی آواز میں کچھ کہا اور پھر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ میرے ساتھ بیٹھی ہوئی لڑکی سے جو ٹوٹی پھوٹی انگریزی جانتی تھی، میں نے پوچھا کی خاتون نے کیا کہا۔ بولی اس نے کیا کہ کاش میری عمر اس قدر طویل نہ ہوتی کہ اس ملک کے ایک حصے سے دوسرے میں داخل ہونے کے لیے ویزا کے حصول کا دن دیکھنا پڑتا۔

اس واقعے کے بعد بس میں دیر تک سکوت چھایا رہا۔ اس لمحے میں نے سوچا کہ نہ معلوم ایسے کتنے ہی واقعات کروایشیا، سلووینیا، میکیدونیا اور بوسنیا کی سرحدوں پر روزانہ پیش آتے ہوں گے اور نہ معلوم کتنی ہی آنکھیں یوگوسلاویہ کے بکھرنے کے ماتم میں ساوا و ڈینیوب بن جاتی ہوں گی۔

ہماری بس شام چار بجے بلغراد پہنچی۔ بس سٹیشن ریلوے سٹیشن کی بغل میں واقع تھا۔ یہاں موسم اچھا خاصا گرم تھا۔ بس سے اتر کر ادھر ادھر کسی ایسے شخص کی تلاش میں نظر دوڑائی جو حلیے سے انگریزی کی شد بد رکھنے والا لگتا ہو۔ پہلے دو اندازے غلط ثابت ہوئے۔ تیسرے شخص سے جب پوچھا کہ کیا آپ انگریزی جانتے ہیں تو اس نے بڑی شستہ زبان میں جواب دیا۔ میں جس قدر انگریزی بول لیتا ہوں وہ اگرچہ انگریزی جاننے کے زمرے میں تو نہیں آتی، بہر حال فرمائیے میں آپ کی کیا مدد کر سکتا یوں۔

حضرت کی انگریزی کی جانکاری کو موضوع بحث بنانے کا اپنے لیے یہ موزوں وقت نہیں تھا لہذا میں نے مدعا عرض کیا کہ ہوٹل یوگو سلاویہ پہنچنے کے لیے راہنمائی درکار ہے۔ وہ شخص بولا اجنبی ہونے کے ناتے آپ کو ٹیکسی ہی لینی پڑے گی۔ اڈے سے ٹیکسی مہنگی ملے گی۔ یہاں سے ذرا ہٹ کر ٹیکسی لیں گے تو وہ آپ کو پندرہ تا بیس دینار میں منزل مقصود پر پہنچا دے گی۔ میں نے اس شخص کا شکریہ ادا کیا اور اڈے سے ذرا دور جاکر سترہ دینار میں ٹیکسی لے کر بلغراد کے مشہور ہوٹل پہنچ گیا۔

یہ ہوٹل لب ڈینیوب واقع تھا۔ یہاں یو این سے منسلک افراد کو خصوصی رعائت دی جاتی تھی۔ اس کی عقبی گیلریوں سے دریائے ساوا اور ڈینیوب کا مشہور سنگم بڑا واضح نظر آتا تھا۔

شیر مر مر، بلغراد کا نام مقامی زبان کے دو الفاظ بیو اور گرادا کی تھوڑی بگڑی ہوئی شکل ہے۔ بیو کے معنی سفید اور گرادا کا مطلب شہر ہے۔ بیو گرادا سے یہ نام بلغراد بنا لیکن مقامی طور پر آج بھی اسے بلغراد کی بجائے بیو گرادا کے نام سے ہی پکارا جاتا ہے۔ اس شہر کا شمار یورپ کے قدیم شہروں میں ہوتا ہے اور پچھلی 3 2 صدیوں سے صفحہ ہستی پر اس کی موجودگی کا پتہ آج بھی تاریخ کی کتابوں میں ملتا ہے۔ یہ 1403 میں پہلی مرتبہ دارالحکومت بنا اور اس کے بعد اس کی یہ حیثیت اس خطے میں مختلف جغرافیائی تبدیلیوں کے باوجود قائم رہی۔ مسلسل جنگوں کے سبب یہ چالیس مرتبہ اجڑا اور ہر بار ایک نئی ترنگ کے ساتھ صفحہ ہستی پر اپنے وجود کو ابھارنے میں کامیاب ہوا۔ رومن اور ترک اس کے بڑے فاتحین تھے۔ ان دونوں کے ادوار میں اس شہر پر جو اثرات مرتب ہوئے ان کے نشانات آج بھی قائم ہیں۔

یورپ میں یہ عام دستور ہے ہوٹل ہو پینسیان یا یوتھ ہاسٹل، ناشتہ ہر مقیم کو مفت فراہم کیا جاتا ہے۔ سیاح اس سہولت کا فائدہ کچھ اس انداز سے اٹھاتے ہیں جیسے پاک سرزمین کے حکمران اقتدار کا اور افسر شاہی سرکاری سہولیات کا۔ بعد میں ویانا میں زہرر نامی ہاسٹل میں قیام کیدوران روزانہ صبح ناشتے کے وقت دو موٹی موٹی کورین لڑکیاں عملے سے نظر بچاتے ہوئے کچھ توس اور مکھن و جام کے چند چھوٹے چھوٹے پیک اپنے تھیلوں میں ظہرانے کے لیے چپکے سے رکھ لیتی تھیں۔

ان کی یہ حرکت اپنی روایات سے مماثل ہونے کی وجہ سے کم ہی ناگوار گزرتی تھی۔ بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ ان کی تقلید کا کچھ کچھ دل بھی چاہتا تھا لیکن اگر کوئی وجہ مانع تقلید تھی تو یہ کی وہ چند توس اور باقی لوازمات اپنے معیار ظہرانہ پر پورے نہ اترتے تھے۔ لہٰذا یہاں پاک کورین یکجہتی کا مظاہرہ کار بے سود تھا۔

ہوٹل یوگوسلاویہ میں بھی ناشتے کا مفت اہتمام موجود تھا۔ اس سہولت سے فائدہ اٹھانے کا حتمی وقت صبح دس بجے تھا۔ کمرے میں پڑے ہوئے مینیو کارڈ سے ناشتے کے بھرپور ہونے کا عندیہ مل چکا تھا۔ لہٰذا اس سہولت سے اس انداز سے استفادہ کرنے کا ارادہ کیا کہ ظہرانے کی ضرورت پیش نہ آئے۔ چنانچہ ناشتہ انتہائی وقت سے ذرا قبل کرنا قرار پایا۔ ساڑھے نو تا دس اس منصوبے کو عملی جامہ پہنا کر ہوٹل سے باہر نکلا، شہر جانے والی بس پکڑی اور پندرہ منٹ بعد اپنے آپ کو شہر کے مرکز میں پایا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments