سوویت جبر کا شکار ہونے والا ”ماسٹر اور مارگریتا“ کا مصنف میخائل بلگاکوف


یہ ایک حسن اتفاق ہی ہے کہ ماسکو آنے کے تین ماہ بعد جو فلیٹ میں نے کرائے پر لیا۔ وہ ماسکو کے عین درمیان میں ہے۔ روسی شہروں کی طرز تعمیر میں ایک خاص بات یہ ہے کہ عین درمیان سے شہر دائروں ( Rings ) کی شکل میں باہر کی طرف پھیلتے جاتے ہیں۔ ایک دائرے کے بعد دوسرا اور پھر تیسرا۔ میری خوش قسمتی کہ میرے گھر سے صرف چند قدم کے فاصلے پر چیخوف کا گھر ہے جہاں وہ 1886 سے لے کر 1890 تک قیام پذیر رہے۔ معمول کے عین مطابق یہ گھر بھی ایک میوزیم قرار دیا گیا ہے۔

اسی طرح مشرق کی طرف اسی سڑک پر ایک فرلانگ کے فاصلے پر ”ماسٹر اور مارگریتا“ کے مصنف میخائل بلگاکوف کا گھر ہے۔ اس گھر یا میوزیم پر آج کل مغربی سیاحوں کی بھیڑ رہتی ہے۔ اس ناول میں مذکور گھروں اور بسوں، چوکوں، تھیٹروں وغیرہ پر نشان لگا دیے گئے ہیں۔ اسی میوزیم سے بس نمبر 302 چلتی ہے اور سیاحوں کو ان تمام گھروں، جگہوں، تھیٹروں اور تالابوں کی سیر کرائی جاتی ہے جن کا ناول میں ذکر ہے ماسوائے ان مقامات کے جو عالم بالا میں یا تاریخ کی کتابوں میں ہیں۔ ناول کی ابتدا جس اٹھارہویں صدی کے تالاب سے ہوتی ہے (پیٹرارشیا پر ودی) جہاں شیطان اپنے دو چیلوں کے ساتھ اترتا ہے جس سے کہانی اور شیطانیت کا آغاز ہو جاتا ہے، وہ میوزیم کے قریب ہی واقع ہے۔ تینوں کرداروں کی ایک تصویر تالاب کی مشرقی جانب آویزاں ہے۔

بلگا کوف کے گھر سے چند گز بعد تھیٹر مائی کوسکی ہے اور اس کے بالکل سامنے سڑک کی دوسری جانب پیکنگ ہوٹل ہے۔ یاد رہے یہ وہی ہوٹل ہے جہاں فیض صاحب سالوں قیام پذیر رہے۔ لیکن ان کا ذکر ہوتا رہے گا۔ کبھی لدمیلا کے باب میں اور کبھی پشکن کے حوالے سے۔ جی ہاں بلگا کوف، پشکن۔ بات پشکن سے چلی اور بلگا کوف تک آ گئی۔ بلگا کوف کی کتاب مافوق الفطرت واقعات سے بھری پڑی ہے اور شیطان کے کردار کے ذریعے اس نے قاری کو تاریخ کے مختلف ادوار کی سیر کرائی ہے۔ اس موزوں پر از منہ قدیم سے ہی بہت لکھا جا چکا ہے اور یورپی ادب میں گوئٹے کے ”فاوسٹ“ اور کرسٹوفر مارلو کے ”ڈاکٹر فاسٹس“ جیسے شاہکاروں کی موجودگی میں کوئی ایسی تحریر لکھنا جو بیک وقت عام قاری اور دانشوروں کی توجہ حاصل کر سکے ایک مشکل امر ہے۔ بلگاکوف نے اس مشکل کو آسان کر دکھایا ہے۔

مافوق الفطرت ادب سے دلچسپی نہ ہونے کے باوجود میں نے یہ کتاب بہت دلچسپی سے پڑھی کیونکہ اس میں کردار اور واقعات نگاری کا کمال ہے۔ ناول کے پلاٹ میں اتنا تحر ک ہے اور واقعات کی بنت اتنی خوبصورتی سے کی گئی ہے کہ داد دیے بغیر چارہ نہیں اسی طرح مصنف نے فطرت انسانی کی خوبیوں اور خامیوں کو اتنی چابکدستی سے منکشف کیا ہے کہ یہ ناول ایک ایسا آئینہ بن گیا ہے جس میں ہر قاری کو اپنی شخصیت کا کوئی نہ کوئی پہلو نظر آتا ہے۔

یوں یہ کہانی ایک جگ بیتی کی حیثیت اختیار کر گئی ہے۔ بلگا کوف نے ایک منفرد مگر مشکل زندگی گزاری۔ اس نے اپنے اس ناول میں بائیبل کے کرداروں کی ایسی جاندار تخلیق کی ہے اور قدیم یروشلم جیسے شہروں کی ایسی مکمل تصویر کشی کی ہے کہ قاری کو محسوس ہوتا ہے کہ وہ اس دور کے ان شہروں میں چل پھر رہا ہے۔ کسی تہذیب، تمدن اور دور کی ایسی چلتی پھرتی متحرک تصاویر دنیائے ادب میں اگر نایاب نہیں تو کمیاب ضرور ہیں۔ بلگاکوف نے اس ناول میں نہایت کامیابی سے یسوع مسیح کے یروشلم، اس جیسے دوسرے شہروں اور 1930 کے ماسکو کے درمیان یوں تخیلاتی سفر کیا ہے کہ لا محالہ قاری اس متوازی سفر کی وجہ سے ان شہروں، ان تہذیبوں اور ان ادوار کا لاشعوری موازنہ کرنے لگتا ہے۔

بلگا کوف نے ایک ایک شخصیت اور واقعے کی اتنی صحیح اور مکمل جزئیات کے ساتھ تفصیل بیان کی ہے کہ اس کے تخیل اور تاریخ انسانی اور تہذیبی ارتقا پر مکمل دسترس اور گرفت پر حیرت ہوتی ہے۔ مگر اس پر حیرت اس لیے نہیں ہونی چاہیے کہ بلگا کوف نے نہ صرف زاروں کے روس بلکہ کمیونسٹوں کے سویت یونین کو بھی جاگتی آنکھوں سے دیکھا اور محسوس کیا بلکہ بھگتا بھی ہے۔

بلگا کوف کا شمار ان چند ادیبوں میں ہوتا ہے جنہوں نے کمیونسٹوں کے آہنی شکنجے میں جکڑے نظام پر کھل کر تنقید کی اور اس کی سزا بھی بھگتی ہے۔ اس کے باوجود اسے یہ انفرادیت بھی حاصل ہے کہ اس کی تخلیقات کو سٹالن بہت پسند بھی کرتا تھا۔ اس کی بہت سی تخلیقات اس کی موت کے تقریباً تین عشروں بعد 1966 میں شائع ہوئیں۔ مگر بلگا کوف کا شمار روس کے مقبول ترین ڈرامہ نگاروں میں ہونے کی وجہ سے اس کی تخلیقات کی ڈرامائی تشاکیل جو اس نے خود کی تھیں روس بھر کے تھیٹروں میں دکھائی جاتی رہیں۔ اس کے ناول۔ ’سفید محافظ‘ ( The White Guard ) کی ڈرامائی تشکیل ”تربین خاندان کے شب و روز“ کے نام سے تھیٹروں میں عرصہ دراز تک نمائش پذیر رہی بلکہ یہ کھیل اسٹالن کو بھی بہت پسند تھا، گو اس میں کمیونسٹ نظام اور اسٹالن کی ذات کو طنز و تشنیع کا نشانہ بنایا گیا ہے۔

بلگا کوف نے 1921 میں اپنے فنی سفر کی ابتدا ماسکو سے کی۔ 1922 میں اس کی کہانیوں کا مجموعہ Notes and Miniaturesشائع ہوا۔ اگرچہ اسی دور میں وہ اپنا شاہکار ناول ”ایک کتے کا دل“ (The heart of a dog) لکھ چکا تھا مگر اس کی اشاعت کی اجازت سنسر شپ کی وجہ سے نہ مل سکی۔ اسی دور میں وہ ”سفید محافظ“ بھی لکھ چکا تھا۔ جو ایک رسالے میں قسط وار چھپ بھی رہا تھا مگر رسالے کی بندش کی وجہ سے اس ناول کی اشاعت بھی رک گئی۔

اسی ناول پر مبنی کھیل ”تربین خاندان کے شب و روز“ اس کی زندگی بھر کی شہرت کا موجب بنا۔ 1920 سے شروع ہونے والے عشرے کے آخر تک بلگا کوف نے ”زویا کا اپارٹمنٹ“ ، ”مولری“ ، ”فرار“ اور ”سنہری جزیرہ“ نامی کھیل لکھے لیکن بدقسمتی سے جو کچھ بھی اس نے تحریر کیا اسے بائیں بازو کے نقادوں نے سوویت مخالف تصور کیا اور اس کی تمام تحریروں کی اشاعت کو 1927 میں روک دیا گیا اسی طرح اس کے سارے کھیل 1929 میں تھیٹروں سے ہٹا دیے گئے۔ بلگا کوف نے مایوسی کے عالم میں اپنے تمام مسودے 1930 میں جلا دیے اور سوویت حکومت کو وہ مشہور خط لکھا جس میں اپنی طنز نگاری کا دفاع کرتے ہوئے حکومت سے مطالبہ کیا کہ اگر ملک اس کی صلاحیتوں سے استفادہ نہیں کرنا چاہتا تو اسے ملک چھوڑنے کی اجازت عطا کی جائے۔

اس خط کے جواب میں اسٹالن نے بذات خود بلگا کوف کو فون کر کے سب کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا۔ اس کے فوراً بعد بلگا کوف کو ماسکو آرٹ تھیٹر میں کام مل گیا۔ لیکن جتنے بھی کام اس نے اگلے سات آٹھ سال میں کیے ان میں سے کوئی بھی منظر عام پر نہ آ سکا۔ اس دوران اس نے مشہور عالم بالشوئے تھیٹر کے لیے بھی لکھا مگر کوئی بھی منصوبہ تکمیل تک نہ پہنچا۔ یہ سال بلگا کوف کی زندگی کے انتہائی مایوس کن سال تھے۔ 1928 کے بعد اس نے اپنے شاہکار ناول ”ماسٹر اور مارگریتا“ پر کام جاری رکھا۔

1937 میں اس نے ”تھیٹریکل ناول“ کو ادھورا چھوڑتے ہوئے ”ماسٹر اور مارگریتا“ پر پوری توجہ مرکوز کی جسے اس نے 1940 میں اپنی موت سے پہلے مکمل کر لیا تھا۔ وہ اس کی آخری ایڈیٹنگ ابھی مکمل نہیں کر سکا تھا کہ موت نے آ لیا۔ اس سے پہلے 1938 میں اسے اپنے اصولوں پر سمجھوتا کرتے ہوئے تھیٹر کے اصرار پر سٹالن کی جوانی پر ایک کھیل ”باتم“ تحریر کرنا پڑا جسے مسترد کر دیا گیا۔ اس صدمے نے اس کی گرتی ہوئی صحت پر بہت برا اثر ڈالا۔

”ماسٹر اور مارگریتا“ بلگا کوف کی موت کے 26 سال بعد 1966 میں شائع ہوا۔ اسے بیسویں صدی کے بہترین ناولوں میں سے ایک قرار دیا جاتا ہے۔ اس کا دوسرا بڑا شاہکار ”ایک کتے کا دل“ جو 1920 کے عشرے کی ابتدا میں لکھا گیا تھا، 1987 میں شائع ہوا۔ بڑے آدمیوں کے ساتھ ان کے زمانے میں ناروا سلوک کی تاریخ نے ارسطو سے لے کر آج تک بڑے تواتر سے اپنے آپ کو دہرایا ہے۔ نہ جانے یہ سلسلہ کب تک جاری رہے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments