فلم انیک: فکری جہت کی حامل ایک ”ناکام کوشش“


صاحبو، یہ ایک ایسی فلم کا تذکرہ ہے، جس نے پاکستانی ناظرین کی اکثریت سے داد بٹوری، اور سنجیدہ حلقوں کی جانب سے قابل ستائش ٹھہرائی گئی۔ انھوں نے اسے، حیرت اور تجسس کے ساتھ، ایک دلیرانہ، متاثر کن کوشش قرار دیا۔

اور میں ان سے اتفاق کرتا ہوں، گو یہ کام یاب کوشش نہیں، مگر بہ ہرحال، ایک دلیرانہ کوشش ضرور ہے، جو کہیں کہیں دل موہ لیتی ہے۔

اور آج راقم الحروف نے اسی کوشش کو نظری تنقید کے عدسوں سے پرکھنے کی سعی کی ہے کہ آج اس کا جواز موجود ہے۔

گزشتہ چند برس میں اردو میں ایسے مبصرین کی آمد ہوئی، جو فلم کو تاثراتی تبصروں سے بلند کرتے ہوئے، جست لگا کر، اسے سمجھنے پرکھنے کی سطح پر لے آئے ہیں۔ اور یوں اب دھیرے دھیرے یہ تبصرے تنقید کے اوزاروں اور اس کی مخصوص لفظیات سے ہم آہنگ ہوتے جا رہے ہیں۔

مگر ان باکمال لکھاریوں کے تذکرے کو یہیں چھوڑ کر ہم فلم کی سمت متوجہ ہوتے ہیں۔

انیک، علیحدگی پسندی اور وطن پرستی کی بائنری کو منظر کرتی کہانی ہے، جن میں سے ایک۔ یقینی طور پر وطن پرستی۔ مراعات یافتہ ہے۔ اور یوں فلم کے پلاٹ میں ایک hierarchy جنم لیتی ہے۔ ناقابل شکست hierarchy۔

اور یہاں ہم مشل فوکو کے پاور کے تصور کو بھی پلاٹ کی کروٹوں میں محسوس کر سکتے ہیں، جہاں ریاستی اور شہری کے جوڑے میں ریاست، یا ریاستی بیانیہ سینٹر میں برا جمان ہے، ٹھسے کے ساتھ۔ اور شہری مارجن پر۔ بے معنی، بے وقعت۔ (کچھ دوستوں کا خیال ہے کہ ہم پاکستان کے چند خطوں کو بھی اس زاویے سے پرکھ سکتے ہیں )

تو مترو، انیک استحصال کی کہانی ہے۔ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے دعوے دار ہندوستان کی نارتھ ایسٹ، جنت نظیر، مگر کچلی ہوئی ریاستوں کی کہانی۔ یہ علیحدگی پسند سوچ کا محرک بننے والی محرومی، جبر اور مظالم کی کہانی ہے۔ اور ان کی کہانی بھی، جو اس کے خلاف آواز اٹھاتے ہیں۔ اور پھر ایک لمحہ آتا ہے، جب یہ انقلابی۔ کبھی کبھی یا پھر اکثر۔ خود بھی استحصالی گروہ کا روپ اختیار کر لیتے ہیں۔

بدقسمتی سے ایک سلگتے ہوئے موضوع، باکمال سنیماٹو گرافی اور معیاری کیمرا ورک کے باوجود، ایک زبردست سیٹنگ کے باوجود، انوبھو سنہا جیسے ہدایت کار، یہاں تک کہ ایوشما کھرانا جیسے دل پذیر اداکار کی موجودگی کے باوجود۔ یہ فلم ہماری توقعات پر پوری نہیں اترتی۔

مسئلہ فلم کے ایکسپوزیشن (ابتدائیہ) کا نہیں، وہ پرقوت ہے، اور نہ ہی ریزولوشن کا کہ وہ مناسب ہے، اور اسٹوری اسٹرکچر کے بنیادی کلیے سے ہم آہنگ ہے۔ دائرہ مکمل ہوتا ہے۔

مسئلہ اس کے درمیان ہے۔ کہیں ابھرتے ایکشن کے آس پاس۔ بالخصوص کلائمکس میں، جہاں یہ فلم یک سر روایتی ہوجاتی ہے۔

ریاستی بیانیے پر یقین رکھنے والے شاطر پولیس اہل کار کے کردار میں شفٹ کے لیے جو طریقہ اختیار کیا گیا، اس کی پیش کش موثر ہے، مگر وہ اپنی اساس میں دقیانوسی ہے، جیسے ؛

1: ہمارا مرکزی کردار (ہیرو) اسی لڑکی کی محبت میں گرفتار ہوجاتا ہے، جسے وہ اپنے ٹارگٹ تک پہنچنے کے لیے آلہ کار کے طور پر استعمال کر رہا ہوتا ہے، اور یوں احساس گناہ اسے گھیر لیتا ہے۔

2: ایک بچے کی موت، جسے ہمارا ہیرو جبر اور فساد سے بچانے کی نیم دلانہ کوشش کرتا ہے۔

میرے نزدیک، اور آپ اس سے اختلاف کر سکتے ہیں، یہ فلم ایک ایسا پزل ہے، جس کے ٹکڑے جڑنے کے بعد اپنا حسن کھو دیتے ہیں، اور ایسا، اسے جوڑنے کے عمل میں ناکامی کے باعث ہوتا ہے۔

فلم پہلے پہل پلاٹ کی سطح پر کچھ سمجھوتے کرتی ہے۔ جن میں اہم ترین تو اسے باکس آفس پر ناکامی سے بچانا تھا، گو ایسا ہو نہیں سکا۔ اور بعد ازاں ایڈیٹنگ کی سطح پر، جس کے نتیجے میں یہ ضرورت سے زیادہ طویل ہوجاتی ہے۔ اور دہرائے جانے کا احساس ہوتا ہے۔

اس سنجیدہ موضوع کو ایک روایتی سرجیکل اسٹرائیک اور ایک کلیشے کلائمکس کے ذریعے۔ جو ضرور سنیما ہال میں تالیاں بجوانے میں کام یاب رہا ہو گا۔ ضائع کیا گیا۔

تو مترو، یہ فلم ہندوستانی جمہوریت، اس میں موجود خلا، اور اپنا غلبہ قائم رکھنے کی بھونڈی کوششوں کو دلیری سے، دو ٹوک انداز میں منظر ضرور کرتی ہے، مگر آپ کے ذوق سلیم کی کامل تسکین میں ناکام رہتی ہے۔

یہ حقیقت کی تلخیوں کو کمرشل تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے میں اپنا توازن کھو دیتی ہے، اور وہ نہیں رہتی، جس کا یہ وعدہ کرتی ہے۔

گو سنیما شعور اور آگاہی کی فراہمی کے لیے تشکیل نہیں دیا گیا تھا، (اس کا مقصد محض تفریح طبع تھا، جس کے پس منظر میں فن کاروں کی اظہار ذات کی سلگتی ہوئی خواہش ضرور تھی) البتہ اسے شعور، آگاہی اور تدریس کے لیے استعمال ضرور کیا جاسکتا ہے، یہاں تک کہ پروپیگنڈے کے لیے بھی، لیکن اس کے لیے بنیادی تقاضوں کو پورا کرنا بہ ہرحال ضروری ہے۔

بڑے پردے پر ریلیز ہونے والی فلم نبھانا آسان نہیں۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا یہ فلم دیکھی جائے؟
میرا جواب ہے، بالکل۔ ہر صورت۔ یہ ایک لازمی ”مطالعہ“ ہے۔ نیٹ فلیکس آپ کا منتظر ہے۔

آخر میں چند سطریں باصلاحیت ایوشمان کھرانا سے متعلق، جس کا میں معترف ہوں، جس کا میں تب سے تعاقب کر رہا ہوں، جب وہ ایم ٹی وی کے شو روڈز میں پہلے پہل شریک ہوا تھا۔

ایوشمان نے اپنے مختصر سے کیریر میں شان فلمز منتخب کیں، اس نے حساس اور اہم موضوعات اٹھائے۔ سنیما کو نان کمرشل، سنجیدہ فلمز کے ساتھ ساتھ ہٹ فلمز بھی دیں، اور وہ ایسی مزید فلمز کرنے کی قابلیت رکھتا ہے، مگر اپنی جاذب نظر شخصیت کے باعث، اور اپنی مسکراہٹ کے باعث بھی، وہ منفی کرداروں کے لیے، یا ہیرو کے منفی شیڈز کے لیے کہیں کہیں کم زور پڑ جاتا ہے۔

اور شاید یہی وہ اکلوتا مقام ہے، جہاں اس کا ہم عصر، راج کمار راؤ، پہلی بار اس سے آگے نکلتے ہوئے محسوس ہوتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).