انتخابات سے بھی مسئلہ حل نہیں ہو گا!


پاکستان میں یہ تاثر عام ہے کہ ملکی سیاسی بحران فوری انتخابات سے ہی حل ہو سکتا ہے۔ امید کی جاتی ہے کہ انتخابات کے بعد کسی ایک پارٹی کو واضح اکثریت حاصل ہو جائے گی اور اس طرح پاکستان کو ایک مستحکم حکومت میسر آ جائے گی۔ اس وقت ملک میں پائی جانے والی بے یقینی سے معیشت پر شدید دباؤ ہے اور روپیہ ڈالر کے مقابلے میں مسلسل گراوٹ کا شکار ہے۔ اس ماحول میں فوری انتخابات بھی ملک کو درپیش سیاسی چیلنجز حل نہیں کر سکتے۔

مسائل حل کرنے کے لئے ملک کے لیڈروں کو تمام تر اختلافات و تضادات کے باوجود کسی نہ کسی سطح پر احترام و قبولیت قائم رکھنا پڑتی ہے۔ پاکستان میں سیاسی محاذ آرائی کا جو ماحول برپا کیا گیا ہے، اس میں یہ احترام تباہ کیا جا چکا ہے۔ یہ مزاج صرف چند قائدین یا ایک دو لیڈروں کے درمیان ذاتی پرخاش یا مخاصمت تک محدود نہیں ہے بلکہ ملک میں سیاسی رائے کی بنیاد پر عام لوگوں میں بھی ایسی گہری تقسیم پیدا کردی گئی ہے جو اس سے پہلے کبھی ملکی تاریخ میں دیکھنے میں نہیں آئی۔

اس وقت سیاسی محاذ آرائی کو جنگی بنیادوں پر استوار کیا گیا ہے بلکہ اس کے لئے حربی لب و لہجہ اور لفاظی بھی بروئے کار لائی جا رہی ہے۔ جمہوری انتخاب مہذب لوگوں کے درمیان معاملات طے کرنے کا طریقہ ہے لیکن جب تہذیب و شرافت کے بنیادی اصولوں سے انکار کر دیا جائے تو کیسے امید کی جا سکتی ہے کہ کوئی نیا انتخاب ماضی کے کسی انتخاب کے مقابلے میں مختلف نتائج دے سکتا ہے۔ اور جو لڑائی 2018 کے انتخابات سے شروع ہوئی تھی، اسے کسی فوری انتخاب سے حل کر لیا جائے گا۔

موجودہ اتحادی حکومت قائم ہونے سے پہلے بھی یہی صورت حال موجود تھی، جس کا مشاہدہ اس وقت پاکستانی عوام روزانہ کی بنیاد پر کر رہے ہیں کہ پارلیمنٹ میں نمائندگی کا استحقاق پانے والے گروہ اپنے حق کی بات تو کرتے ہیں لیکن فریق مخالف کے حق نمائندگی کو قبول نہیں کرتے۔ قیاس کیا جاسکتا ہے کہ اگر عمران خان کسی ہائبرڈ انتظام کا سہارا ملنے کے بعد وزیر اعظم بن کر مخالفین کے ساتھ مفاہمت اور مل جل کر کام کرنے کا طریقہ اختیار کرتے تو ملک میں سیاسی محاذ آرائی کی صورت حال اس انتہا تک نہ پہنچتی جس کے نتیجہ میں 9 اپریل کو بصد خرابی بسیار ان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک منظور کی گئی۔

اور نئی اتحادی حکومت نے زمام اقتدار سنبھالی۔ اقتدار سے محروم ہونے کے بعد بھی عمران خان یا تحریک انصاف کی قیادت نے ایک لمحہ کو بھی اپنی غلطیوں کا جائزہ لینے اور اصلاح کا کوئی راستہ تلاش کرنے کی بجائے نہ صرف تنک مزاجی میں اضافہ کیا بلکہ تبدیلی حکومت کو امریکی سازش اور ملکی غیرت پر حملہ قرار دے کر اس کی شدت میں اضافہ کیا۔ عمران خان کے نزدیک پہلے شریف برادران، زرداری اور مولانا فضل الرحمان چور اچکے تھے جو ملکی خزانہ لوٹ کر غیر ملکی بنکوں میں منتقل کرچکے تھے، اب ان پر ملک و قوم سے غداری، امریکہ سے ڈالر پکڑ کر ایک محب وطن اور خود دار وزیر اعظم کی حکومت کا تختہ الٹنے کی سازش کرنے کا الزام بھی عائد کیا جانے لگا۔

عمران خان نے اپنے تازہ ترین ویڈیو بیان میں واضح کیا ہے کہ وہ ملکی آئین کے خلاف بغاوت کرنے والوں، علیحدگی پسندی کی تحریک چلانے والوں اور دیگر ہمہ قسم ملک دشمن عناصر کے ساتھ تو ہاتھ ملا سکتے ہیں اور بات بھی کر سکتے ہیں لیکن ’چوروں‘ کے ساتھ کبھی مفاہمت نہیں کریں گے اور نہ ہی ان کے ساتھ مل کر بیٹھیں گے۔ یہ اعلان واضح کرتا ہے کہ عمران خان نے اقتدار حاصل کرنے کے لئے جمہوری راستہ ضرور چنا ہے لیکن وہ جمہوری رویہ اپنانے میں ناکام ہیں۔

پارلیمانی جمہوریت میں اگر فریق مخالف کا حق نمائندگی قبول نہیں کیا جائے گا تو معاملات آگے بڑھانا ممکن نہیں ہوتا۔ یوں بھی عمران خان مقبولیت کا بیرومیٹر بلند ہونے کے گمان میں خود کو لازوال اور ناقابل شکست مان چکے ہیں۔ اب ان کا خیال ہے کہ انتخابات میں انہیں قومی اسمبلی میں دو تہائی اکثریت حاصل ہو جائے گی۔ اور وہ اس عوامی طاقت کی بنیاد پر ملک کو اپنی مرضی و منشا ست چلا سکیں گے۔ ایسے تجزیہ نگار اور رفقائے کار کی کمی نہیں ہے جو اس گمان کو حقیقت بتانے میں ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں۔ اسی کے ساتھ عمران خان کی ضد اور انانیت میں اضافہ ہو رہا ہے۔

اگرچہ یہ بھی درست ہے کہ اتحادی حکومت نے بھی اقتدار سنبھالنے کے بعد تحریک انصاف کو سیاسی طور سے انگیج کرنے کی کوئی باقاعدہ کوشش نہیں کی اور نہ ہی ملکی معیشت کے حوالے سے کسی قومی منصوبہ میں شرکت کے لئے عمران خان کو دعوت دی گئی ہے۔ اس کے برعکس عمران خان اگر شہباز حکومت کو چوروں اور غداروں کا ٹولہ کہنے پر تلے ہوئے ہیں تو اتحادی حکومت کے ترجمان اور وزیر اعظم تحریک انصاف کو فسطائی ہتھکنڈے اختیار کرنے والا گروہ قرار دے کر کسی بھی طرح انہیں سیاسی طور سے مات دینے کی بات کرتے ہیں۔

پنجاب میں ہونے والی سیاسی و قانونی پنجہ آزمائی اسی مزاج کا نتیجہ ہے۔ پنجاب اسمبلی میں تحریک انصاف نے اکثریت سے محروم ہونے کے بعد حمزہ شہباز کی اکثریت کو قبول کرنے سے انکار کر دیا اور جب ضمنی انتخابات میں تحریک انصاف کی شاندار کامیابی سے پی ٹی آئی و ق لیگ کے اتحاد کو اکثریت حاصل ہو گئی تو حمزہ شہباز اور اتحادی پارٹیوں نے اسے تسلیم کرنے سے انکار کیا۔ یوں تصادم برقرار رکھا گیا جس کے نتیجہ میں عالمی مالیاتی ادارے اور دوست ممالک کوئی نرمی دکھانے پر آمادہ نہیں ہیں اور روپے پر بڑھتے ہوئے دباؤ نے ڈالر کی قیمت کو آسمان تک پہنچا دیا ہے۔

سیاسی فریقین ایک دوسرے کو اس بحران کا ذمہ دار قرار دینے میں بازی لے جانے کی کوشش کرتے ہیں لیکن یہ جاننے یا بتانے کی زحمت نہیں کرتے کہ ان کی باہمی لڑائی ہی کی وجہ سے ہی مالیاتی منڈیوں میں بے چینی اور قرض دینے والے اداروں و ممالک میں بے یقینی پائی جاتی ہے۔ نئے انتخابات کے بعد بھی اگر تصادم اور کیچڑ اچھالنے کی یہی صورت حال برقرار رہی تو ملک کو کیسے بہتری کی طرف گامزن کیا جا سکے گا؟

حکومتی اتحاد پی ڈی ایم نے آج پھر اعلان کیا ہے کہ پنجاب میں اقتدار سے محروم ہونے کے باوجود مرکز میں حکومت نہیں چھوڑے گا اور انتخابات اگلے سال کے آخر میں شیڈول کے مطابق ہی ہوں گے۔ حکومتی اتحاد میں نمایاں پاکستان پیپلز پارٹی پہلے ہی قبل از وقت انتخابات کو مسترد کرتی رہی ہے۔ اس دوران شہباز حکومت بار بار الیکشن کمیشن سے مطالبہ کر رہی ہے کہ تحریک انصاف کے فارن فنڈنگ کیس کا فیصلہ سنایا جائے۔ حکومت کو امید ہے کہ غیر قانونی غیر ملکی فنڈنگ کے الزام میں تحریک انصاف پر پابندی لگائی جا سکے گی۔ اول تو ایسا فیصلہ آنے کا امکان نہیں ہے، دوسرے ایک مقبول پارٹی کو قانونی باریکیوں کے ذریعے میدان سے نکالنے کا کوئی مثبت نتیجہ برآمد نہیں ہو سکتا ۔ یہ رویہ غیر جمہوری ہو گا۔ تحریک انصاف کو کالعدم قرار دینے کا کوئی بھی طریقہ ملک میں جمہوری انتظام کے لئے مہلک ثابت ہو سکتا ہے۔

اس سے قطع نظر اگر عمران خان اور تحریک انصاف کے نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو وہ بھی بظاہر انتخابات کی طرف جانے پر آمادہ دکھائی نہیں دیتے۔ تحریک انصاف کے ارکان نے قومی اسمبلی سے ضرور استعفے دیے ہیں لیکن خیبر پختون خوا میں حکومت قائم رکھی ہے اور اب پنجاب حکومت پر بھی قبضہ کر لیا ہے۔ عمران خان کا مطالبہ صرف قومی اسمبلی کے انتخابات تک محدود ہے تاکہ وہ واضح اکثریت سے انتخاب جیت کر وزیر اعظم بن سکیں۔ اگر وہ عام انتخابات کی بات کر رہے ہوتے تو پنجاب میں اکثریت ملنے کے بعد وہ اپنے وزیر اعلیٰ پرویز الہی اور کے پی کے وزیر اعلیٰ محمود خان کو صوبائی اسمبلیاں تحلیل کرنے کا حکم دیتے۔

دو بڑی صوبائی اسمبلیاں ٹوٹنے کے بعد حکومت کو لازمی نئے انتخابات کا مطالبہ ماننا پڑے گا۔ تاہم اس بات کا کوئی اشارہ موجود نہیں ہے کہ عمران خان یہ راستہ اختیار کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ اس لئے نہ صرف فوری انتخابات کا امکان نہیں ہے بلکہ ان کا کوئی فائدہ بھی نہیں ہو گا۔ مسائل حل کرنے کے لئے جب تک سیاسی لیڈر باہم بیٹھ کر بنیادی نکات پر اتفاق نہیں کریں گے ملک کا بحران شدید تر ہوتا جائے گا۔

نئے انتخابات کے حوالے سے یہ پہلو بھی دلچسپی سے خالی نہیں ہے کہ عمران خان انتخابات کا مطالبہ کرتے ہوئے چند پیشگی شرائط پر عمل کروانا چاہتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ موجودہ الیکشن کمیشن پر ہمارا اعتبار نہیں ہے۔ انتخابات کے لئے نیا الیکشن کمیشن بنایا جائے جو سب کو قابل قبول ہو۔ اس کے لئے عمران خان کو ’چوروں‘ کی حکومت کے ساتھ بات چیت کرنا پڑے گی جس کا دروازہ وہ اسی سانس میں بند کرچکے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ انتخابی اصلاحات کے ذریعے الیکٹرانک ووٹنگ سسٹم متعارف کروانا ’شفاف‘ انتخابات کے لئے ضروری سمجھتے ہیں۔

اتحادی جماعتوں نے تحریک انصاف کے منظور کردہ انتخابی قانون کو تبدیل کر کے اپنی سیاسی پوزیشن واضح کردی ہے۔ سب سے بڑھ کر عمران خان یہ چاہتے ہیں جو بھی انتخاب ہو اس میں ان کی پارٹی کو بہت بڑی اکثریت حاصل ہونی چاہیے۔ ان کا خیال ہے کہ عوام نے ان کے حق میں اپنا ’فیصلہ‘ دے دیا ہے۔ اس لئے کوئی ایسا انتخاب جس میں تحریک انصاف کو فیصلہ کن اکثریت حاصل نہیں ہوتی، بادی النظر میں عمران خان کے لئے قابل قبول نہیں ہو گا۔

یہ دلچسپ صورت حال ہے۔ ایک مقبول لیڈر جو خود کو ملک کی سب سے بڑی پارٹی کا قائد کہتا ہے، مطالبہ کر رہا ہے کہ وہ جو نتیجہ کاغذ پر لکھ کر دے، انتخابات کے ذریعے اس پر مہر تصدیق ثبت کرنے کا اہتمام کیا جائے۔ ایسی خواہش تو پاکستانی سیاست میں حصہ لینے والی ایسی تانگہ پارٹی کی بھی ہو سکتی ہے جس کے ووٹر انگلیوں پر گنے جا سکتے ہیں۔ اگر حکومت ہتھیانا ہی مطلوب ہے تو اس کے لئے انتخابات ہی کیوں؟ کوئی دوسرا راستہ بھی دیکھا جاسکتا ہے۔

عمران خان اس پر آمادہ تو ہیں لیکن وہ راستہ مسدود دکھائی دیتا ہے۔ سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلہ نے ان کے لئے امید کی کرن روشن کی ہے لیکن کسی لاڈلے بچے کی طرح عمران خان چاند اپنی جھولی میں ڈالنے کی جس خواہش کا اظہار کر رہے ہیں، اس کے پورا ہونے کے امکانات دکھائی نہیں دیتے۔ پھر ’چوروں‘ کی حکومت بھی انتخاب کی طرف آنے پر آمادہ نہیں ہے۔

ان حالات میں انتخابات کا امکان موجود نہیں ہے اور اگر کوئی راستہ نکل بھی آیا تو ایسے انتخابات ایک نئے بحران اور شدید تصادم کی راہ ہموار کریں گے۔ انتخابات سے پہلے بنیادی اصولوں و طریقہ کار پر اتفاق کرنا اہم ہے۔ سب پارٹیوں کو دو ٹوک الفاظ میں یہ عہد نامہ دینا چاہیے کہ نتیجہ جو بھی ہو وہ اسے خوش دلی سے قبول کریں گی۔ کیا کسی کو ایسا کوئی راستہ دکھائی دیتا ہے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2772 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments