دل کی بیماری ’پناہ‘ کا میڈیا سیشن!


امراض قلب (Heart Diseases) کی اصطلاح ایسے متعدد امراض کی جانب اشارہ کرتی ہے جن سے بنیادی طور پر دل متاثر ہوتا ہے طبی اندازوں کے مطابق قلب یا دل کو متاثر کرنے والے امراض کی وجہ سے ہونے والی اموات کو دنیا بھر میں اول درجے کے قیادی سبب الموات (Leading cause Of Death) کے طور پر جانا جاتا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک کے اعداد و شمار بھی اس بات کی تائید کرتے ہیں کہ سرطان (Cancer) سے واقع ہونے والی اموات دوسرے نمبر پر ہیں دراصل بیماری کی مختلف اقسام ہیں لیکن اگر بیماری کی بروقت دوا نہ کی جائے تو پھر اس کا علاج پیچیدگی اختیار کر جاتا ہے۔

گزشتہ چند قبل اسلام آباد کے ایک مقامی ہوٹل میں پاکستان نیشنل ہارٹ ایسوسی ایشن (پناہ) کے زیر انتظام ایک میڈیا سیشن کا اہتمام کیا گیا یہ میڈیا سیشن ’میٹھے مشروبات کے استعمال میں کمی کے لئے پالیسی آپشنز‘ کے موضوع پر تھا۔ پناہ کے جنرل سیکرٹری ثناء اللہ گھمن نے پروگرام کی میزبانی کی اس موقع پر گلوبل ہیلتھ ایڈووکیسی انکیوبیٹر کے کنسلٹنٹ منور حسین ’ڈاکٹر خواجہ مسعود احمد‘ نیشنل کوارڈینیٹر نیوٹریشن این ایف اے وزارت نیشنل ہیلتھ سروسز ’ریگولیشنز اینڈ کوارڈی نیشن‘ سول سوسائٹی اور میڈیا کے ماہرین شریک ہوئے۔

پناہ کے جنرل سیکرٹری ثناء اللہ گھمن نے ’پناہ‘ کی خدمات کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ یہ تنظیم نہ صرف لوگوں میں دل اور اس سے متعلقہ بیماریوں کے بارے آگاہی فراہم کر رہی ہے بلکہ پالیسی ساز اداروں کے ساتھ مل کر قانون سازی کے لئے بھی کام کر رہی ہے۔ دل اور بہت سی دیگر بیماریوں کی بڑی وجہ میٹھے مشروبات کا زیادہ استعمال ہے جس کی وجہ سے صحت کے بہت سے مسائل جنم لے رہے ہیں۔ ثناء اللہ گھمن نے تجویز کیا کہ ہمیں چاہیے کہ میٹھے مشروبات کا استعمال کم کرتے ہوئے پانی کا استعمال کریں پانی صحت کے لئے بہترین ہے۔

تقریب میں موجود گلوبل ہیلتھ ایڈووکیسی انکیوبیٹرز کے کنسلٹنٹ منور حسین نے کہا کہ شکر والے مشروبات پر ٹیکس بڑھانے اور اس کی کھپت کو کم کرنے کی حمایت کرنے کے لئے عالمی اور مقامی شواہد موجود ہیں۔ انہوں نے حکومت کی توجہ مبذول کرواتے ہوئے مطالبہ کیا کہ 2015 ء میں پاکستان میں موٹاپا جس کی ایک بڑی وجہ میٹھے مشروبات ہیں میٹھے مشروبات پر ہونے والے اخراجات کا تخمینہ 428 ارب روپے تھا ہمیں سکول فوڈ پالیسی متعارف کروانا ہو گی اور میٹھے مشروبات کی مارکیٹنگ پر پابندی اور ٹیکس جیسے ہتھیار مل کر استعمال کرنا ہوں گے ’ٹیکس لگنے سے بچے اس کے نقصانات سے محفوظ رہ سکیں گے ٹیکس جیسا ہتھیار دیگر ممالک مین بھی استعمال کیا جا رہا ہے جس کے بہتر نتائج بھی سامنے آئے ہیں پالیسی میکرز کو بھی چاہیے کہ ایسے عوامل پر عمل درآمد کروایا جائے جو پاکستان کے لئے ایک‘ win win situation ’ہو گی۔

تقریب سے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے نیشنل کوارڈی نیٹرنیو ٹریشن‘ ریگولیشنز اینڈ کوارڈی نیشن وزارت نیشنل ہیلتھ سروسز ڈاکٹر خواجہ مسعود نے کہا کہ قومی اسمبلی میں پیش آنے والے آئندہ بجٹ 2022۔ 2023 ء میں تمام قسم شکر والے مشروبات پر ٹیکس کو کم از کم بیس فیصد چاہیے تھا جو ورلڈ بنک کی پاکستان کے لئے سفارشات تھی اور اس پر پناہ نے بھی حکومت کو ایک پرپوزل جمع کروائی تھی۔ اس میڈیا سیشن کے دوران مقررین کا کہنا تھا کہ ذیابیطس کے مریضوں کی تعداد 2019 ء میں 19.4 ملین سے بڑھ کر 2021 ء میں 33 ملین ہو گئی ہے اس کی ایک بڑی وجہ میٹھے مشروبات ہے۔

مقررین نے اس صورتحال کے پیش نظر ملکی معیشت پر بھی سنگین اثرات مرتب ہونے کی جانب اشارہ دیا کیوں نکہ کوئی بھی ملک اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کا علاج نہیں کر سکتا۔ حکومت پاکستان کو ذیابیطس سے نمٹنے اور اس کے خطرات کو کم کرنے کے لئے ہنگامی بنیادوں پر عملی اقدامات کرنا چاہیے سیشن میں کہا گیا کہ ہم تمام قسم کے میٹھے مشروبات پر ایک مکمل حکمت عملی کی حمایت کرتے ہیں۔ اس سیشن کے آخر میں زور دے کر حکومت سے اپیل کی گئی کہ پاکستان کی عوام کی جانوں کو بچانے کے لئے شوگری ڈرنکس کی روک تھام کے لئے سکول پالیسی پروگرام ’مارکیٹنگ کی پابندی اور ٹیکس جیسے طریقوں پر عمل کر کے چلنا ہو گا اور اس کے ساتھ ساتھ زیر التواء ہیلتھ کنٹری بیوشن بل کے نفاذ کو جلد از جلد لاگو کرنا ہو گا۔

1984 ء میں جنرل کیانی نے‘ پناہ ’ادارہ کی بنیاد رکھی تھی اور یہ ادارہ تندہی کے ساتھ مختلف پروگرامز کے ذریعے نہ صرف عوام کو دل کی بیماری سے نمٹنے اور اس سے بچنے کے لئے آگاہی فراہم کر رہا ہے بلکہ حکومت کے در پر بھی ایک تواتر کے ساتھ اس خطرہ سے نمٹنے کے لئے دستک دے رہا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ایسے لوگ اور تنظیموں کے مقاصد قابل ستائش ہی نہیں بلکہ قابل تقلید بھی ہیں جنرل کیانی کسی ایک فرد کا نام نہیں بلکہ‘ پناہ ’جیسے ادارے کی بنیاد رکھ کر ایک تحریک کو جلا بخشی ہے اس ادارے سے جڑے ثناء اللہ گھمن اور محترمہ حسنہ خٹک صاحبہ جیسے افراد آکسیجن کی حیثیت رکھتے ہیں۔

اس ادارہ کے مقاصد بڑے واضح ہیں اور اور اس ادارہ کی جاندار آواز کی دستک حکومتیں 1984 ء سے سنتی آ رہی ہیں لیکن حکومت اس ادارہ کی تجاویز سے استفادہ کرنے سے قاصر ہے اس میڈیا سیشن میں جو ذیابیطس کے ہوشربا اعداد و شمار پیش کیے گئے ہیں وہ حکومت کے لئے غور و فکر کے متقاضی ہیں۔ دل کی بیماری ایک عام مرض کی حیثیت اختیار کر چکا ہے اور خاص کر ہماری نسل نو بھی اس مرض میں مبتلا ہوتی جا رہی ہے اور حکومت کی خاموشی اور عملی اقدامات سے عاری عمل ایک مستقل خطرے کو جنم دے رہا ہے۔

کسی بھی ملک کی مستحکم بنیاد اس کی تعلیم اور صحت جیسے عملی ٹھوس اقدامات پر استوار ہوتی ہے لیکن ہمارے وطن عزیز میں انہی دو شعبوں کو تقویت نہیں دی گئی جو المیہ ہے۔ ‘ پناہ ’کا ہونے والا میڈیا سیشن حکومت کی توجہ اس بڑھتے خطرہ کی جانب توجہ مبذول کروانا ہے اگر اس سیشن میں دی گئی تجاویز پر حکومت عمل درآمد کروانے میں کامیاب ہو جائے تو یقیناً اس خطرہ سے نمٹنے اور لوگوں کی جانیں اس جان لیوا بیماری سے بچائی جا سکتی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments