کانگریس آف ویانا ( 1815 ) ۔


1815 میں نیپولین کے زوال کے بعد یورپ کے حکمران براعظم میں پائیدار امن اور استحکام کے خواہاں تھے۔ اسے مقصد کے حصول کے لیے یورپ کی بڑی طاقتوں ( روس، پروشیا، آسٹریا، برطانیہ اور فرانس ) کے نمائندوں نے آسٹریا کے شہر ”ویانا“ میں 8 مہینے تک کئی اجلاس منعقد کر دیے۔ جن کو ”کانگریس آف ویانا“ کہا جاتا ہے۔ یورپی ممالک کے ان نمائندوں میں سب سے متحرک اور با اثر آسٹریا کا وزیر خارجہ کلیمنس وان میٹرنچ ( Klemens von Metternich ) تھا جو انتہائی قدامت پرست تھا۔ انقلاب فرانس کے جمہوری تصورات کے ساتھ لبرل ازم اور نیشنلزم کا سخت خلاف اور انقلاب فرانس سے قبل کے یورپ کے سیاسی نظام کے بحالی کا پرجوش داعی تھا۔ کانگریس کے سامنے اس نے تین مقاصد رکھے۔

1۔ مستقبل میں فرانسیسی جارحیت کے ممکنہ تدارک کے لیے اس کے گرد طاقتور ممالک کے حصار کا انتظام۔
2۔ طاقت کے توازن ( Balance of Power ) کا قیام تاکہ کوئی ملک دوسرے کے لیے خطرہ نہ ہو۔
3۔ یورپ کے شاہی خاندانوں کا قبل از نیپولین وقت کے تختوں پر بحالی۔
فرانس کے گرد حصار۔
اس مقصد کے لیے کانگریس نے ذیل اقدامات کیے ۔
1۔ سابقہ ”آسٹریائی نیدر لینڈ“ اور ”ڈچ جمہوریہ“ کو ملا کر نیدر لینڈ بادشاہت کا قیام۔
2۔ 39 جرمن ریاستوں کے گروپ کی جرمن کنفیڈریشن کی تشکیل ( جس کو آسٹریا کے ماتحت رکھا گیا )
3۔ سوئٹزر لینڈ کو ایک آزاد ریاست کے طور پر تسلیم کرنا
4۔ سارڈینہ (اٹلی ) کی بادشاہت کے ساتھ Genoa کو شامل کر کے مستحکم کرنا۔

ان اور کئی دوسرے جغرافیائی تبدیلیوں سے یورپی ممالک نے فرانس کے گرد حصار اور اس کا کمزور ممالک پر قبضہ کرنے کے ممکنہ خطرے کو روکنے کا انتظام کر دیا

طاقت کا توازن۔ اگرچہ یورپی ممالک فرانس کو کمزور رکھنا چاہتے تھے مگر اس کو پوری طرح بے بس کرنے کے حق میں اس لیے نہ تھے کیونکہ اس صورت میں ایک تو فرانس کی طرف سے شدید ردعمل کا خدشہ تھا۔ دوسرا یہ کہ اس سے اس کی جگہ کسی دوسرے ملک کا زیادہ طاقتور ہو کر خطرہ بننے کا احتمال بھی ہو سکتا تھا۔ اسی بنا فرانس کو زیادہ رگیدنے کے بجائے قدرے کمزور حیثیت میں رکھنے پر اکتفا کیا گیا۔

سابقہ شاہی خاندانوں کی بحالی۔ جن حکمرانوں بادشاہوں کو نیپولین نے تختوں سے اتارا تھا کانگریس نے ان کو بحال کر دیا۔ یوں فرانس، اسپین، پرتگال، اٹلی اور وسطی یورپ کے ریاستوں کے کئی سابقہ حکمران شاہی خاندانوں کو اقتدار واپس دلوایا گیا۔ ان کی بحالی کے حوالے سے کانگریس کے سامنے ”میٹرنچ“ کی دلیل یہ تھی کہ سابقہ حکمران شاہی خاندانوں کی واپسی سے قوموں کے مابین سیاسی تعلقات میں استحکام آ جائے گا۔

ویانا کانگریس کئی حوالوں سے سیاسی کامیابی تھی۔
ایک تو یہ کہ پہلی بار تمام یورپی اقوام نے سیاسی معاملات کو کنٹرول کرنے کے لیے باہمی تعاون کیا۔

دوسرا یہ کہ ان کے مابین کیے گئے فیصلوں کے بارے کسی ملک کو کوئی خاص اعتراضات یا تحفظات نہ تھے۔ یوں اس سے مستقبل میں جنگوں کا خطرہ نہیں ہو سکتا تھا۔ اس حوالے سے یہ یورپی تاریخ کے دوسرے امن معاہدوں کے مقابلے میں زیادہ کامیاب کہلایا جا سکتا ہے۔

تیسرا یہ کہ امن کو خطرات کی صورت میں ایک دوسرے کی مدد کرنے پر اتفاق سے یورپی اقوام نے براعظم میں طاقت کے توازن کو کچھ عرصے تک یقینی بنایا۔ جس کی وجہ سے یورپ میں کافی عرصے امن رہا۔ یورپ کی پانچ بڑی طاقتوں نے 40 سال تک ایک دوسرے کے خلاف کوئی جنگ برپا نہیں کی۔

ویانا کانگریس کے دائرہ سے باہر سیاسی صورت حال۔

ویانا کانگریس بلا شبہ قدامت پرست قوتوں کی کامیابی تھی۔ معزول بادشاہوں اور شہزادوں نے یکے بہ دیگرے اپنی سلطنتوں اور ریاستوں میں اقتدار پھر سے حاصل کر لیا۔ مگر مختلف ممالک کے سیاسی حالات میں کافی اہم فرق موجود تھے۔

برطانیہ اور فرانس میں آئینی بادشاہتیں تھیں۔ مشرقی اور وسطی یورپ کی حکومتیں زیادہ تر قدامت پرست جبکہ روس، پروشیا اور آسٹریا میں مطلق العنان بادشاہتیں تھیں۔

قدامت پرست یورپ۔ یورپ کے حکمران فرانسیسی انقلاب کے ورثے سے تشویش میں مبتلا تھے۔ ان کو خدشہ یہ تھا کہ انقلاب کے تصورات ( آزادی، مساوات اور بھائی چارے ) ان کے ملکوں میں بھی انقلاب کا پیشہ خیمہ

ہو سکتے ہیں۔

اسی خدشے کے پیش نظر روس کے زار ”الیگزینڈر اول“ ، آسٹریا کے ”فرانسس اول“ اور پروشیا کے ”فریڈریک ولیم دوم“ نے باہمی معاہدے سے اتحاد کر لیا جس کو مقدس اتحاد ( Holy Alliance ) کا نام دیا۔ اس کے تحت یہ طے کیا گیا کہ انقلابی قوتوں کے تدارک کے لیے وہ دوسرے اقوام ( ممالک ) کے ساتھ تعلقات خدائی احکام ( عیسائی اصولوں ) کی بنیاد پر استوار کریں گے۔

اسی طرح آسٹرین وزیر خارجہ ”میٹرنچ“ (Mettrinch) کی تجویز کردہ Concert of Europe کہلائے جانے والے کئی اتحادی معاہدوں سے یہ یقینی بنایا گیا کہ انقلاب پھوٹ پڑنے کی صورت میں متعلقہ ممالک ایک دوسرے کی مدد کریں گے۔

ان حالات میں اگرچہ قدامت پرست حکمرانوں کو حکومتوں پر پورا کنٹرول تھا تاہم وہ انقلاب فرانس کے دوران ابھرے تصورات کی روک تھام تا دیر نہیں کر سکتے تھے۔

1815 کے بعد کا فرانس سیاسی لحاظ سے منقسم تھا۔ قدامت پرست ”لوئیس ہشت دہم“ ( بادشاہت ) کے حامی تھے۔ لبرل ( معتدل ) بادشاہ کا قانون ساز اسمبلی کے ساتھ اختیارات کا اشتراک چاہتے تھے جبکہ نچلے طبقات ( مزدور اور کسان ) آزادی۔ مساوات اور بھائی چارے کے انقلابی تصورات کے داعی تھے۔

اسی طرح دوسرے یورپی ممالک میں نظریاتی اور سماجی افتراق پایا جاتا تھا۔ (جو اگلی دہائیوں ( 1830 اور 1848 ) میں سیاسی بغاوتوں اور انقلابات کا باعث بن جاتا ہے ) ۔

کانگریس آف ویانا کے رہنما اپنی کوششوں کے باوجود انقلاب فرانس کے ورثے کو زائل نہ کرا سکے۔

انقلاب نے یورپ کو جمہوری حکومت کے تجربے سے روشناس کرایا تھا۔ اگرچہ فی الوقت یہ تجربہ ناکام ہوا تھا۔ مگر اس نے ایک نیا سیاسی تصور متحرک کر دیا تھا

1800 کی اگلی دہائیوں میں یورپ میں بڑی سیاسی بغاوتوں کی جڑ انقلاب فرانس کے تصورات تھے۔
لاطینی امریکہ کی یورپی کالونیوں پر کانگریس کے اثرات۔
کانگریس آف ویانا کے اقدامات کا یورپ سے باہر لاطینی امریکہ کی یورپی کالونیوں پر بھی اثرات پڑے۔

1508 میں جب نیپولین نے ابریئن جزائر نما Iberian Peninsula) کی جنگ کے دوران اسپین کے بادشاہ کو تخت سے ہٹایا تھا۔ تو اسپینی امریکہ کے لبرل رہنماؤں نے وہاں کے اسپینی کالونیوں کا کنٹرول سنبھال لیا تھا۔ ویانا کانگریس میں اسپینی بادشاہ کی بحالی پر وہاں کے ”شاہ پرست“ اسپینی امریکیوں نے کالونی حکومتوں پر کنٹرول حاصل کرنے کی کوشش کی تو لبرل طبقات نے مزاحمت کی۔ جس پر اسپین کے بادشاہ نے امریکی کالونیوں پر گرفت سخت کرنے کے لیے اقدامات کیے ۔ ان اقدامات سے میکسیکو کے لوگ مشتعل ہو گئے اور بغاوت کر کے اسپینی تسلط سے چھٹکارا پا لیا۔ اسی طرح لاطینی امریکہ کی دوسری اسپینی کالونیوں نے بھی آزادی حاصل کر لی۔

اسی دور میں برازیل نے پرتگال سے بھی آزادی کا اعلان کر دیا۔

کانگریس آف ویانا کا ورثہ۔ ویانا کانگریس کے اقدامات آئندہ سو سال تک تک یورپی سیاست پر کئی طرح سے اثرانداز رہے

1۔ ”طاقت کے توازن“ کے قیام سے فرانس کی طاقت اور اثر و رسوخ میں کمی جبکہ برطانیہ اور پروشیا کی طاقت اور اثر میں اضافہ ہوا۔

2۔ کانگریس نے اٹلی، جرمنی، یونان اور جن دوسرے علاقوں کو غیرملکی زیر سایہ رکھا تھا ان میں قومی پرستی کی لہریں اٹھنی لگیں۔ جن کے تحت وہاں انقلابی جذبات ابھر کر بعد میں نئی قومیں تشکیل پا گئیں

3۔ سیاسی حالات میں تبدیلی سے یورپ کے واقعات سے فائدہ اٹھا کر لاطینی امریکہ کے اسپینی کالونیوں نے اسپین جبکہ برازیل نے پرتگال سے آزادی حاصل کرلی۔

4۔ انقلاب فرانس کے نتیجے میں اقتدار اور اختیار کی اساس کے بارے تصورات میں چونکہ ایک گہری تبدیلی آ گئی تھی اور لوگوں کی اکثریت جمہوریت کو عدل و مساوات کا بہتر راستہ سمجھنے لگے تھے اس لیے یورپ میں صدیوں سے حاوی سوچ اور روئے بدل گئے تھے یوں ایک نئے دور کی آمد کو قدامت پرستانہ اقدامات اور پالیسی سے تا دیر مکمل طور سے روکا نہیں جا سکتا تھا۔ اگلی دہائی ( 1820 تا 1830 ) میں اسپین، اٹلی روس اور یونان میں لبرل اور قوم پرست قوتوں کی بغاوتوں اور بالخصوص 1848 میں فرانس، جرمنی اور آسٹریا وغیرہ میں انقلابات ( جو اگرچہ اس وقت بوجوہ ناکام ہو گئے ) نے جتا دیا کہ یورپ کو انقلاب فرانس سے پہلے جیسی سیاسی نظام کے تحت مستقل طور پر رکھنا ممکن نہیں ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments