جوکالیاں کا تارڑ


یہ یکم مارچ 1939 کی سہانی صبح تھی جب پنجاب کی دھرتی پر ایک ایسے انسان نے جنم لیا جس کی طبیعت میں عجزو انکساری کے ساتھ آوارگی کا خمیر حد سے بڑھ کر گندھا ہوا تھا۔ لاہور سے کوسوں دور دریائے چناب کے کنارے ایک مشہور و معروف قصبے جوکالیاں میں جاتی سردیوں نے اس دھرتی کو ایک ایسا سپوت بخشنے کا انعام دیا جو آگے چل اپنی آوارگی کو ملکی عزت کو چار چاند لگانے والا تھا۔ جوکالیاں میں جو تقسیم سے پہلے گجرات کا حصہ تھا اور اب ضلع منڈی بہاؤ الدین تحصیل پھالیہ میں شامل ہو چکا ہے، چوہدری محکم دین کا خاندان صدیوں سے رہائش پذیر تھا جن کا تعلق چناب کی زرخیز زمین سے بصورت کھیتی باڑی تھا۔

محکم دین خاندان کا تعلق جاٹ قوم سے تھا جن کے خون میں کاشتکاری کا مادہ رچ بس جاتا ہے۔ ان کے بیٹے کا نام چوہدری امیر بخش تھا جن کی اولاد میں ایک بیٹے کا نام چوہدری رحمت خان تارڑ تھا۔ ان کے نام میں اگرچہ چوہدری، خان اور تارڑ تین قومیں آتی تھیں لیکن اتنا مشہور خان اور چوہدری نہیں ہوئے جتنا تارڑ نام نے دنیا میں شہرت بخشی۔ چوہدری امیر بخش کے بیٹے بھی کاشتکاری سے منسلک ہو گئے اگرچہ چوہدری رحمت خان تارڑ نے میٹرک تک تعلیم حاصل بھی کی مگر آبائی پیشے کو نہ چھوڑا۔ لکھنے اور پڑھنے کا شوق تھا عمر ان کی رگوں میں جوش بن کر دوڑتا رہا اور تا دم مرگ ان کا رفیق اور رہبر رہا۔

جوکالیاں کے جاٹ خاندان میں چوہدری رحمت خان تارڑ فرد اول تھے جنہوں نے تلاش معاش کے لیے 1928 میں لاہور کا رخ کیا اور یہاں آ کر وہ مختلف پھلوں اور سبزیوں کے بیجوں کی خرید و فروخت کے کاروبار سے منسلک ہو گئے۔ لاہور میں واقع مشہور منڈی ”گوالمنڈی“ جسے اب فوڈ اسٹریٹ کی حیثیت دے دی گئی ہے وہاں انہوں نے اپنی دکان کا افتتاح کیا جو کہ ”کسان اور کمپنی“ کے نام سے مشہور ہوئی۔ ان کی زراعت سے محبت کے شوق نے انہیں ہمت دی اور 1940 میں چوہدری نے رحمت خان نے زرعی نوعیت کے ایک جریدے ”کاشتکار جدید“ کا اجراء کیا جو اپنی نوعیت کا مختلف اور بے مثال زرعی جریدہ کہلایا۔

ان کا زراعت و کاشتکاری سے محبت کا یہ سفر یہیں تمام نہیں ہوا بلکہ بعد میں انہوں نے پچیس کے قریب کاشتکاری اور علم زراعت پر مشتمل کتب لکھیں جو اس وقت کی اولین زرعی تصانیف تھیں۔ چوہدری رحمت خان کی بیوی کا نام نواب بیگم تھا اور ان کا تعلق گکھڑ منڈی سے تھا۔ چناب کنارے سے ہجرت کرنے کے بعد یہ چوہدری خاندان راوی کنارے لاہور پہنچا تو پہلے چیمپر لین روڈ پر تعمیر شدہ ایک وسیع و عریض مکان میں رہائش پذیر ہوا جہاں ان کے پڑوسی گھر میں سعادت حسن منٹو کی رہائش تھی۔

یہ مکان اب اکادمی ادبیات پاکستان کو دے دیا گیا ہے اور بعد میں چوہدری رحمت خان نے گلبرگ میں اپنا مکان بنایا تو یہ وہاں منتقل ہو گئے۔ بیگم خان کے بطن سے رب العالمین نے چوہدری رحمت خان کو تین بیٹوں اور تین ہی بیٹیوں سے نوازا۔ ان کے بڑے بیٹے کی پیدائش 1939 یکم مارچ کو لاہور میں ہوئی جن کا نام مستنصر حسین تارڑ رکھا گیا۔ یوں مستنصر حسین تارڑ کے آبائی ناموں پر نظر ڈالنے پر معلوم ہوتا ہے کہ ان کے نام کے ساتھ نہ تو خان لگایا گیا اور نہ ہی چوہدری بلکہ یہ نفیس شخص تارڑ کے لاحقے کے ساتھ لاہور کی چھاؤں میں پروان چڑھا۔ تارڑ صاحب کے بقول ان کی دادی ان کا نام لعل خان رکھنا چاہتی تھیں مگر ان کے ایک ماموں جن کا نام نذیر حسین چیمہ تھا وہ عباسی خلیفہ مستنصر کے بہت بڑے قدردان تھے اور ان کی مشاورت پر نوزائیدہ بچے کا نام مستنصر رکھنے پر اصرار ہوا اور پھر یہی نام رکھنے پر اتفاق کیا گیا۔

تارڑ صاحب کی پرورش اور بچپن کے بارے میں انہوں نے خود ایک انٹرویو میں بتایا کہ انہیں ان کے والد کی طرف سے بھر پور آزادی تھی جس کا انہوں نے کبھی ناجائز فائدہ نہیں اٹھایا۔ تعلیم کے سلسلے میں ان کے والد نے ان کی بھر پور مدد کی اور وہ ششم جماعت میں ہی منٹو، راجندر سنگھ بیدی، بلونت سنگھ اور ایم سلیم جیسے ہمہ جہت اور معروف قلمکاروں کی تصانیف پڑھ کر اپنی علمی تشنگی بجھانے کا سامان مہیا کرتے رہے۔ بڑا بیٹا ہونے کے ناتے انہوں نے ہمیشہ اپنی ذمہ داریوں کو سمجھا اور بھرپور انداز میں انہیں نبھایا۔

بچپن کی یادداشتوں کو کھنگالتے ہوئے مستنصر صاحب کہتے ہیں کہ انہوں نے اس وقت کے رواج کے مطابق ابتدائی تعلیم کا آغاز اندرون لاہور کی ایک مسجد ”تاجے شاہ“ سے کیا اور وہاں سے قرآن پاک کی تعلیم حاصل کی۔ ابے دا ہی میں انہیں مسجد کے ایک سخت گیر مولوی سے واسطہ پڑا جس کے نتیجے میں تارڑ صاحب ابھی تک مولوی صاحبان کے بارے میں کوئی بھی رائے یا تاثر قلم بند نہیں کر پائے ہیں۔ ایک۔ واقعے کو قلمبند کرتے ہوئے تارڑ صاحب لکھتے ہیں کہ ”محبت کتنی خوفناک چیز ہوتی ہے۔ تم ایک اجنبی کو اپنا مالک بنا کر تمام تر طاقت اس کے ہاتھ میں دے دیتے ہو۔ دکھ دینے کی، خوشی دینے کی، اداس کرنے کی طاقت۔“

مستنصر حسین تارڑ نے پہلی اور دوسری جماعت کی تعلیم اپنے زمانے کے مشہور سکول رنگ محل مشن ہائی اسکول سے حاصل کی جو کہ اندرون لاہور کے گلیاروں میں واقع تھا۔ مستنصر حسین تارڑ دوسری جماعت پاس کر چکے تھے جن ان کے والد نے بکھر منڈی میں جدید اور بڑا زرعی فارم قائم کیا تو بسلسلہ کاروبار ان کے خاندان کو وہاں منتقل ہونا پڑا جہاں پر انہوں نے نارمل سکوں بکھر منڈی سے جماعت سوم اور چہارم کا امتحان کامیابی سے پاس کیا مگر ان کے والد صاحب وہاں کاروبار صحیح طور پر نہ جما سکے تو دوبارہ لاہور واپس آ گئے۔

واپسی پر تارڑ صاحب نے اپنی ادھوری تعلیم کا سلسلہ دوبارہ سے مشن ہائی اسکول میں جماعت پنجم میں داخلہ لے کر کیا۔ یہاں سے انہوں نے امتیازی نمبروں کے ساتھ پرائمری کا امتحان دیا اور ششم جماعت کے لیے مسلم ماڈل ہائی اسکول لاہور میں داخل ہو گئے جو کہ اب گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور سے متصل ہے۔ 1954 میں تارڑ صاحب جب میٹرک کے امتحانات کے لیے تیاری کر رہے تھے، سکول میں بزم ادب کے سیکرٹری کے لیے انتخاب لڑا اور عمر فاروق مودودی کو شکست دے کر سیکریٹری منتخب ہو گئے۔

یہاں سے ان کے ادبی سفر کی شروعات ہوئی کو انہیں اوج ثریا کی بلندیوں پر لے گئی۔ میٹرک کرنے کے بعد مستنصر حسین تارڑ نے انٹر کے لیے گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور میں داخلہ لیا اور زمانہ طالبعلمی سے ہی کالج میں قائم ہائیکنگ اور مانیٹرنگ کے ساتھ وادی کشن گنگا مہم کے لیے کشمیر گئے۔ مستنصر حسین تارڑ کی شخصی تعمیر اور تشکیل میں اس مہم میں شرکت بہت اہم واقعہ ہے۔ کالج کے نوٹس بورڈ پر ایک تحریر یوں عبارت تھی کہ ”وادی کشن گنگا مہم“ ۔

یہ وقت اور جگہ تھی جہاں سے تارڑ صاحب کے باطن میں کوہ نوردی اور آوارگی کے جرثوموں نے گھر کر لیا اور ایک دیوانگی نے جنم لے لیا۔ اس دیوانگی کو ابھی طوفان بننے میں وقت مطلوب تھا کیونکہ ابھی تارڑ صاحب گورنمنٹ کالج میں انٹر کی تعلیم حاصل کر رہے تھے کہ ان کے والد نے انہیں ہوزری ٹیکسٹائل میں ڈپلومہ حاصل کرنے کے لیے برطانیہ روانہ کر دیا جہاں ان کی آوارگی کو سر نکالنے اور بڑھنے کی ایسی راہ ملی جو اب تک مفقود تھی۔

چوہدری رحمت خان کی خواہش تھی کہ ان کا بیٹا وکیل بنے مگر تارڑ صاحب کی طبیعت میں کوہ نوردی کا بھوت ڈیرا جما چکا تھا اور تعلیم میں ان کا دھیان نہ ہونے کے برابر تھا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ انگلینڈ میں قیام کے دوران انہوں نے بیشتر وقت سیر و سیاحت میں گزارا۔ طبیعت میں آوارہ گردی کے عنصر نے انہیں موسیقی اور تھیٹر کے قریب کر دیا جس کے نتیجے میں انہوں نے وکٹر سلواٹر سکول آف ڈانسنگ انگلینڈ سے ”وانر، رمبا“ اور مشکل ترین سمجھے جانے والے رقص ”ٹینگو“ میں مہارت کا سرٹیفیکیٹ حاصل کر لیا۔

یہ وہ وقت تھا جب تارڑ صاحب کو اپنی قلمی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کا موقع میسر آیا۔ انگلستان میں قیام کے دوران ان کو ماسکو میں جانے کا خوبصورت موقع میسر آیا جہاں انہوں نے ماسکو میں منعقدہ یوتھ فیسٹیول میں برطانوی وفد کے ایک پاکستانی رکن کی حیثیت سے شرکت کی۔ اس شرکت کے حوالے سے تارڑ صاحب لکھتے ہیں کہ ”ماسکو پہنچتے ہی برطانوی وفد میں شامل پاکستانیوں نے اپنے راستے الگ کر لیے اور فیصلہ کیا گیا کہ سب لوگ پاکستانی وفد کے طور اپنی شناخت کرائیں گے اور پاکستان کی نمائندگی کریں گے۔

اس وقت کے پاکستانی وزیراعظم نے ان ماسکو جانے والے لوگوں کو غدار قرار دیا تھا اور ساتھ ہی دھمکی بھی تھی جس کے مطابق پاکستان واپسی پر ہم لوگوں کو کراچی ائرپورٹ سے سیدھا میانوالی جیل لے جایا جائے گا مگر اس کے باوجود ہم نے الگ پاکستانی وفد کی حیثیت سے یوتھ فیسٹیول میں شریک ہونے کا فیصلہ کیا۔ ان بے راہ رو جوانوں میں میاں افتخار الدین کا بیٹا عارف افتخار بھی شامل تھا جو ان دنوں کیمبرج یونیورسٹی میں زیر تعلیم تھا۔

آئی آئی چندریگر کا ایک بیٹا یا عزیز، فیروز خان نون کا بھتیجا خالق داد نون، گورا چٹا دراز قد ملک سعید حسن جو بعد میں ہائی کورٹ کا جج ہوا اور اس کی ہمشیرہ سے جنرل شفیق الرحمن نے شادی کی، مشرقی جرمنی سے آنے والا اسداللہ تھا جس نے منٹو پر تحقیقی کام کیا۔ یہ سب نوجوان انقلاب کے ڈسے ہوئے تھے اور میں ان سب میں کم عمر تھا اور ابھی سے جانے کے لائق نہ تھا اگرچہ مجھ پر اثر ہو چکا تھا۔“

یوتھ فیسٹیول سے واپسی پر جب تارڑ انگلستان پہنچے تو لندن میں مقیم روزنامہ نوائے وقت کے ایڈیٹر مجید نظامی نے انہیں پیشکش کی وہ اس سفر کی روداد قلم بند کریں تا کہ پاکستان کے عوام باخبر ہو سکیں کہ آہنی پردے کے پیچھے کیا ستم ہو رہا ہے اور وہاں کے لوگ کمیونزم کے مراحل سے گزرنے سے کس حال میں ہیں؟ اس پیشکش کو سننے کے بعد تارڑ صاحب گھبرا گئے اور لکھتے ہیں کہ ”اس غیر متوقع پیشکش سے میں ذرا گڑبڑا گیا کہ میری کتابوں میں کہیں لکھاری بننا نہ لکھا تھا۔

اگرچہ پڑھا تو بہت کچھ تھا مگر ابھی دو چار بچوں کے رسالوں میں ایک دو کہانیوں اور چن لطائف کے سوا کچھ نہ لکھا تھا۔ میں نے اپنے ٹین ایجر ہونے اور اس معاملے میں قطری ناتجربہ کار ہونے کے دلائل دیے جو نظامی صاحب نے رد کر دیے اور کہا آپ جو لکھ سکتے ہیں وہ لکھیں، ہم اصلاح کریں گے۔ تارڑ صاحب کہتے ہیں میرے جی میں جو آیا وہ لکھا اور اور سفر نامی چار اقساط میں ان زمانوں کے نہایت مؤقر ہفتہ وار“ قندیل ”میں“ لندن سے ماسکو تک ”کے عنوان سے شائع ہو گیا۔ یہ سال 1958 تھا اور میری پہلی ادبی تحریر باقاعدہ شائع ہو چکی تھی۔“

انگلستان میں قیام کے دوران تارڑ صاحب کا ارادہ تھا کہ وہ اس فرنگی دیار میں مستقل رہائش اختیار کر لیں گے مگر انہیں اپنے والد کا خط موصول ہوا جس میں انہیں واپسی کا حکم دیا گیا تھا کہ وہ پاکستان لوٹ آئیں اور کاروبار میں اپنے والد کی معاونت کریں۔ یہ حکم ملتے ہی انہوں نے واپسی کا رخت سفر باندھا اور پاکستان پہنچ کر والد کے کاروبار میں ہاتھ بٹانا شروع کر دیا۔ تارڑ صاحب اپنے والد کے نہایت فرمانبردار تھے اور کہتے ہیں کہ میری شادی کے بعد جب میں بچوں والا ہو گیا تب بھی کہیں جانا ہوتا تو والد صاحب کو بتا کر جاتا کہ کب واپس آؤں گا۔

اپنے والد صاحب کے بارے میں کہتے ہیں کہ وہ ایک نہایت ہی شریف النفس انسان تھے۔ انہوں نے کبھی اولاد کو زد و کوب نہیں کیا اور نہ کبھی گالی دی۔ تارڑ کچھ عرصہ والد کے کاروبار میں ہاتھ بٹاتے رہے اور پھر 1969 میں سترہ ممالک کی سیر پر بائی روڈ نکل پڑے۔ ان کی سیاحت اور آوارہ گردی کا یہ سفر جاری رہا اور اس کا نتیجہ ان سفر ناموں کی شکل میں دستیاب ہوا جنہوں نے ایک طویل وقت تک قارئین کو سحر میں جکڑ لیا۔ یورپی ممالک کی سیر سے جب وہ واپس آئے تو انہوں نے ایک سفر نامہ ”نکلے تری تلاش میں“ لکھا جائے قارئین اور ناقدین دونوں نے ہاتھوں ہاتھ لیا اور یوں ان کے قلم کو وہ روانہ اور رفتار ملی جسے پکڑنے کے بعد انہوں کبھی پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔

ان کے قلم کو ملی یہ پذیرائی ”اندلس میں اجنبی“ کو سامنے لائی اور پھر 42 برسوں میں انہوں نے تیس سفر نامے لکھ ڈالے جو ایک سے بڑھ کر ایک تھے۔ ان اگر ناموں میں 12 سفر نامے پاکستان کے شمالی علاقہ جات کی سیر پر مشتمل ہیں جن میں ”کے ٹو“ پر تحریر کردہ ان کا سفر نامہ مقبولیت کی اونچائیوں کو چھونے لگا اور صرف دو ہفتوں میں اس کا پہلا ایڈیشن ختم ہو گیا۔ اس علاقے سے ان کی گہری جذباتی وابستگی کی بناء پر وہاں کی ایک جھیل کو ”تارڑ جھیل“ کا نام دیا گیا ہے جسے دیکھنے آج بھی سیاح اور منچلے سینکڑوں میل کا سفر طے کرتے ہیں۔

تارڑ صاحب نے اردو ادب میں سفر ناموں کا ایسا اسلوب متعارف کرایا جس کی اقتداء میں کئی سفرنامے لکھے گئے اور مقبول ہوئے۔ ان کے سفرناموں میں منظر نگاری کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ جہاں ان کا لکھا لفظ لفظ سنجیدگی، مزاح، دلچسپی، آسان اور سلیس ہے وہیں منظر نگاری کرتے ہوئے وہ الفاظ کی ایسی جادو نگری مہیا کرتے ہیں جس میں کھو کر قاری خود کو اس سفر کا حصہ معلوم کرتا ہے۔ اندلس میں اجنبی، خانہ بدوش، کے تو کہانی، نانگا پربت، یاک سرائے، رتی گلی اور سنو لیک جیسے پاکستان کے شمالی علاقوں پر لکھے گئے سفرناموں نے تارڑ صاحب کو جداگانہ تشہیر سے نوازا جس کا بدل ناممکن ہے۔ ان کے چند نمایاں سفر ناموں اور ناولوں کو اگر جوڑا جائے تو کچھ اس طرح کی تحریر ابھرتی ہے۔

”اے غزال شب جب اندلس میں اجنبی تری تلاش میں نکلے تو منھ ول کعبے شریف تھا اور یہ خانہ بدوش نانگا پربت کی بلندیاں ناپتے سنو لیک تیرتے اور ہنزہ داستان کہتے دیو سائی، رتی گلی اور نیو یارک میں ایک رات سے لے کر ماسکو کی سفید راتیں دیکھتے، الاسکا ہائی وے سے نیپال نگری اور امریکہ کے سو رنگ پرکھتے، لاہور سے یار قند اور لاہور آوارگی کرتے پیار کا پہلا شہر اور پیار کا پہلا پنجاب سے جہاں پرندے بنے وہیں راکھ، پکھیرو بن کر دیس میں ہوئے پردیس سے آخری صفحہ آخری صفحہ کرتے پرواز کر گئے۔“

تارڑ صاحب کے سفرناموں اور ناولوں میں وسیع تاریخی پہلو ملتا ہے جو ان کو دوسروں سے ممتاز بناتا ہے اور یہی بات قاری کی توجہ کا مرکز بنتی ہے۔ وہ ایک کامیاب مصنف مانے جاتے ہیں اور لوگ ان کو شوق سے پڑھتے ہیں۔ ان کا مشاہدہ اور تحقیقی کام ان کی تحریروں میں نکھار پیدا کرتے ہوئے جا بجا ملتا ہے جس سے قارئین لطف لیتے ہیں۔ تارڑ صاحب نے صدیوں پرانے ثقافتی ورثے کو اپنے ناولوں کا موضوع بنایا ہے اور تاریخی مقامات ان کے ناولوں کی کہانی میں اپنا کردار اور اثر چھوڑتے ہوئے ملتے ہیں۔ ان کی لکھی ہر کہانی شروع سے ہی اندرونی اور بیرونی ربط مضبوط رکھتی ہے۔ کردار کے بارے میں بات کریں تو عورت کا مرکزی کردار ان کے ناول کی کہانی میں سر فہرست ملتا ہے۔

ادیب ہونے کے علاوہ تارڑ صاحب نے ڈراموں میں بھی کام کیا اور بطور اداکار اپنی اداکاری کے جوہر ”پرانی یادیں“ نامی ڈرامہ سے دکھانا شروع کیے۔ اپنے پہلے ڈرامے میں بطور مصنف 1976 میں آدھی رات کا سورج سے کام شروع کیا اور ساتھ ہی ٹیلی ویژن کی صبح کی نشریات کے آغاز پر مرکزی میزبان چنے گئے۔ تارڑ صاحب کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ ان کی لکھی تحریر غیر ملکی یونیورسٹیوں میں نصاب کے طور پر شامل ہے۔ قلم نگاری اور اداکارہ کے علاوہ مستنصر حسین تارڑ مصوری اور آرکیالوجی میں بھی دلچسپی رکھتے ہیں۔

ایک انٹرویو میں اپنے سفر ناموں کے متعلق تارڑ صاحب کہتے ہیں کہ میں نے بہت زیادہ سفر نہیں کیا۔ میری بیوی نے ایک دن بہت اچھی بات کہی تھی کہ تم نے اتنے ملک نہیں دیکھے جتنا شور مچایا ہوا ہے اور یہ بالکل ٹھیک ہے کیونکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ میں جہاں بھی گیا ہوں میں نے وہاں کا سفرنامہ لکھ دیا۔ اب باہر کے سفرنامے بیس پچیس تو ہوں گے اور پھر تیرہ چودہ سفرنامے شمالی علاقہ جات کے بھی ہیں تو لوگوں کو یہ لگتا ہے کہ یہ ہر وقت گھومتا پھرتا رہتا ہے۔ حالانکہ میرا خیال ہے کہ پوری دنیا کا پانچ فیصد بھی میں نے نہیں دیکھا، دنیا بہت بڑی ہے ساؤتھ امریکہ ایک بالکل الگ دنیا ہے میں وہاں گیا ہی نہیں، افریقہ ہے، ساؤتھ ایسٹ ایشیا ہے تو یہ واضح ہے کہ میں نے اتنا زیادہ نہیں دیکھا لیکن میری نسل کے جو لوگ تھے ان سے بہت زیادہ دیکھا ہے۔

تارڑ کے نظریہ فن اور تخلیقی عمل کے حوالے سے ان کی ایک انٹرویو کا یہ حصہ بھی ہمارے معاونت کرتا ہے۔ یہ بھی دیکھ لیجیے۔ ”ہر بار جب کوئی ناول یا سفر نامہ مکمل کرتا ہوں تو ذہن اتنا خالی ہوجاتا ہے کہ مجھے کامل یقین ہوجاتا ہے کہ میں آئندہ کبھی ایک حرف بھی نہیں لکھ پاؤں گا۔ کہ جو کچھ میرے احساسات اور تخلیق کی سطح پر موجود تھا وہ سب صرف ہو گیا لیکن خالی کوزہ میری بے خبری میں ہولے ہولے بھرنے لگتا ہے اور کوئی ایک شام ایسی آتی ہے کہ جب کوئی ناول کوئی سفر نامہ چھلکنے لگتا ہے۔ یہ وہ لمحہ ہوتا ہے جب میں پھر سے قلم تھام لیتا ہوں کیا میں نے جو لکھنا تھا لکھ لیا؟

اس کا جواب یہ ہے کہ میں نے تو کچھ بھی لکھنا نہیں تھا، جو لکھا ہے وہ لکھوایا گیا ہے۔
ائندہ بھی اگر لکھوایا گیا تو لکھوں گا!

تارڑ صاحب لکھتے ہیں کہ ”کوئی بھی عمل جب ٹرائل اینڈ ایرر کے مرحلے سے گزر کر ٹھوس تجربے کی صورت اختیار کر جاتا ہے تو پھر گاڑھے اندھیرے میں بھی اسے کمال خوش اسلوبی سے سر انجام دیا جا سکتا ہے۔“ پاکستان کا اعزاز ہے کہ تارڑ صاحب بقید حیات ہم سب کے درمیان موجود ہیں۔ ان کی ادب کے فروغ کے لیے خدمات کسی اعزاز کی محتاج نہیں مگر ان کو حکومت کی طرف سے تمغہ برائے حسن کارکردگی ملا ہے جو ان کا خدمات کا اعتراف ہے۔ یکم مارچ 2013 کو یوم مستنصر قرار دیا گیا اور اب ہر سال یکم مارچ کو یوم مستنصر منایا جاتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments