عدالتی مارشل لا


یہ تو کہیے آپ کے عیب و ہنر دیکھے گا کون

آپ ہی کی ہے عدالت، آپ ہی منصف بھی ہیں۔
یہ تو کہیے آپ کے عیب و ہنر دیکھے گا کون۔
عدل و انصاف کسی بھی معاشرے کی شہ رگ ہے، اس کے بغیر معاشرے کی حیات ناممکن ہے۔

اس بات سے شاید ہی کسی کو اختلاف ہو کہ آج تک جتنے بھی انسانی معاشرے اور تہذیبیں زوال کا شکار ہیں اس کی وجہ عدل و انصاف کا فقدان اور ظلم و جور کی اندھی حمایت رہی ہے۔

عدلیہ سے لوگوں کو انصاف کی توقع ہوتی ہے اور عدالتیں اس کی علامت ہوتی ہیں۔ جج بھی انسان ہونے کے ناتے جذبات بھی رکھتے ہیں آراء بھی اور شاید مفادات بھی لیکن انہیں ایک معیار قائم رکھنا ہوتا ہے تاکہ جانبداری کا تاثر نہ پھیلے ورنہ لوگوں کا عدالتوں سے اعتماد اٹھ جاتا ہے۔ عوام خیال کرتے ہیں کہ عدالتوں میں انصاف نہیں ہوتا بلکہ صرف فیصلے ہی ہوتے ہیں۔

مولانا ابوالکلام آزاد رحمہ اللہ کے نام سے کون واقف نہیں۔ ان کے خلاف انگریز نے بغاوت کا مقدمہ قائم کیا انہوں نے عدالت میں جو بیان دیا وہ ”قول فیصل“ ، کے نام سے شائع ہو چکا ہے۔ ان کے بیان کا کچھ حصہ وطن عزیز پاکستان کے عدالتی فیصلوں کے پس منظر کو سامنے رکھتے ہوئے ملاحظہ فرمائیں۔ مولانا ابوالکلام آزاد نے فرمایا۔

ہمارے اس دور کے حالات کی طرح یہ حالت بھی نئی نہیں۔ تاریخ شاہد ہے کہ کبھی طاقتور حکمرانوں نے آزادی اور حق کے معاملے ہتھیار اٹھائے ہیں تو عدالت گاہوں نے سب سے زیادہ آسان اور بے خطا ہتھیار کا کام دیا ہے۔ عدالت کا اختیار ایک طاقت ہے وہ انصاف اور نا انصافی دونوں کے لیے استعمال کی جا سکتی ہے۔ منصف گورنمنٹ کے ہاتھ میں وہ عدل و حق کا بہترین ذریعہ ہے لیکن جابر اور ظالم حکومتوں کے لیے اس سے بڑھ کر انتقام اور نا انصافی کا کوئی آلہ بھی نہیں۔

تاریخ عالم کی سب سے بڑی نا انصافیاں میدان جنگ کے بعد عدالت کے ایوانوں میں ہوتی ہیں۔

مولانا ابوالکلام آزاد کا کہا ہوا سچ آج بھی اسی طرح موجود ہے۔ برسہا برس بیت گئے، عدل و انصاف کے پیمانے بدل گئے، قوانین کی ضخیم کتابیں بن گئیں، انسائیکلوپیڈیاز موجود ہیں بیرسٹر اور اعلیٰ تعلیمی پس منظر کے حامل ججز بھی کثیر تعداد میں ہیں نچلی عدالتوں سے لے عدالت عظمیٰ تک آج بھی وہ تاثر موجود ہے کہ انصاف صرف طاقت ور کو ملتا ہے اور کمزور انصاف کی بھیک ”مانگتے، مانگتے لب گور پہنچ جاتا ہے سوائے چند مستثنیات کے۔

جسٹس اے آر کیانی اور جسٹس کارنیلیس عدلیہ کا حصہ تھے تو جسٹس عبدالقیوم اور جسٹس ثاقب نثار جیسے بھی عدلیہ میں رہے۔ نظریہ ضرورت سے نظریہ سہولت تک آئین کی من مانی تشریحات نے آئین ساز اداروں کو عضو معطل بنا دیا۔“ مارشل لاء ”سے“ جوڈیشل کو ”تک عوام کی آزادیاں سلب ہوئیں طالع آزما سند جواز پاتے رہے اور حق تلفیاں ہوتی رہیں۔ ہماری ریاست کے دو ستون انتظامیہ اور مقننہ پہلے ہی مفلوج ہو چکے ہیں۔ اب عدلیہ کے کردار پر ہونے والا تنازع اس تیسرے ستون کی تباہی کی نشان دہی کر رہا ہے۔

پنجاب کی وزارت اعلیٰ کے بارے میں دو ماہ کے قلیل عرصے میں سپریم کورٹ کے دو فیصلوں میں غلطی اور تصحیح میں ایک ہی فریق کو فائدہ پہنچانے کے عمل نے مزید تنازعات کے دروازے کھول دیے ہیں۔ حکومت کا عدالتی کارروائی کا بائیکاٹ پاکستان یا کسی بھی ملک میں پہلی بار ہوا ہے۔ سیاسی معاملات تیزی سے عدالتوں کے پاس جا رہے ہیں وہ راتوں کو کھل رہی ہیں اور تندہی سے ایسے فیصلے کر کے بعض سائلین کو وہ بھی مہیا کر رہی ہیں جس کا ان کی طرف سے تقاضا بھی نہیں کیا گیا ہو تا۔

ایسا سپیڈی انصاف شاید کسی ترقی پذیر تو کیا ترقی یافتہ ممالک میں بھی دکھائی نہیں دیتا اس کے باوجود بین الاقوامی سطح پر درجہ بندی میں پاکستانی عدلیہ 130 ویں نمبر ہے جس سے صاف واضح ہوتا ہے کہ عدلیہ کی اپنی اصل کارکردگی بہت زیادہ خراب ہے۔ حال ہی میں سامنے آنے والے دو مقدمات کے دو انہونے فیصلے ملاحظہ فرمائیں جن میں سے حال ہی میں ایک

شہری کو وفات کے بعد 45 سالہ پرانے مقدمے میں انصاف مل گیا۔ اسی طرح کے ایک اور فیصلے میں کچھ عرصہ قبل ایسے دو بھائیوں کو قتل کے الزام سے بری کر دیا گیا جنہیں ایک سال پہلے سزائے موت دی جا چکی تھی۔ اب وہ بے چارے جھوٹے الزام سے بری ہونے کی خوشی بھی منائیں تو کیسے منائیں؟ جس خوش قسمت شخص کو 45 سال بعد بالآخر انصاف مل گیا وہ ایک اوور سیز پاکستانی تھا جس کی جائیداد پرایک فراڈیے نے قبضہ کر لیا تھا۔ عدالت نے اسے واپس لوٹا دی ہے مگر افسوس کہ شہری اس سے بہت پہلے اس دنیا فانی کو الوداع کہہ چکا ہے۔

ایک طرف سیاسی مقدمات میں سپیڈی انصاف اور دوسری جانب انصاف کی فراہمی میں اتنی تاخیر ہمارے عدالتی نظام پر ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔ عدالت عظمیٰ کے چیف جسٹس عمر عطا بندیال کا یہ کہنا کہ وہ اپنے ضمیر کے مطابق فیصلے کر رہے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ وہ اپنی دانست میں درست کہہ رہے ہوں مگر ان کے حلف کا تقاضا ہے کہ وہ آئین اور قانون کے مطابق فیصلے کریں۔ عدالت عظمیٰ میں آخر مخصوص ججز اور بینچ ہی کیوں ہر مقدمے کی سماعت کے لیے دستیاب ہوتا ہے۔

قاضی فائز عیسیٰ پر فروری 2021 میں چیف جسٹس گلزار، جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس مشیر عالم نے ایک حکم کے تحت پابندی عائد کر دی کہ وہ کسی ایسے بینچ کا حصہ نہیں ہوں گے جو عمران خان کے متعلق کوئی مقدمہ سن رہا ہو۔ یہ فیصلہ بھی انصاف کے ”وسیع تر اصولوں“ کو سامنے رکھ کر کیا گیا ہو گا۔ سپریم کورٹ کے باقی ججز بھی ہیں مگر عوام ان کے نام تک نہیں جانتے کیوں کہ انہیں کسی بینچ کا حصہ نہیں بنایا جاتا۔ آئین کی تشریح کا اختیار ہونے کا کیا مطلب ہے کہ آپ نیا آئین لکھنے بیٹھ جائیں۔ ایک طرف وزرائے اعظم کو توہین عدالت کا مرتکب قرار دے کر گھر بھیج دیں اور ان کی شنوائی تک نہ ہو۔

کتنی حساس عدالت ہے مرے ملک تری۔

جو مظلوم سے آہوں کی صفائی مانگے۔ اسی پر معاملہ ختم ہو جاتا تو بات تھی رہی سہی کسر آرٹیکل 62.63 کی غلط تشریح کے ذریعے تاحیات نا اہلی، پارٹی صدارت سے علیحدگی اور سربراہ کی حیثیت سے اس کے سابقہ فیصلوں کو بھی کالعدم قرار دینا۔ دوسری جانب جب ایک فریق علی آلا علان توہین عدالت کا مرتکب ہوتو چیف جسٹس یہ کہہ دیں کہ ان تک خبر نہیں پہنچی ہوگی توہین عدالت کی کارروائی سے راہ فرار اختیار کرلی جائے۔ آئین توڑنے والوں کو پوچھا تک نہ جائے اور جو عدالتی فیصلے کے مطابق رولنگ دے اسے بلائیں اور پھر اپنی غلطی تسلیم کر نے کے بعد بھی اصلاح کے بجائے اپنے فیصلے کو ہی بدل ڈالیں۔

پہلے فیصلے میں ووٹ شمار کیے بغیر سزا دے کر پارٹی سربراہ کے کہنے پر ڈی سیٹ کرنا اور دوبارہ اسی طرح کا معاملہ درپیش ہونے پر ووٹ شمار کرنا ایسے مخصوص مائنڈ سیٹ کا پتہ نہیں دیتا جس میں انصاف لاپتہ ہو گیا۔ سینٹ کے انتخاب میں پریذائیڈنگ افسر ووٹ رد کر دے تو عدالت میں درخواست کے باوجود اسے اب تک زیر التوا رکھا جانا قرین انصاف ہے؟ ایسے جانبدارانہ فیصلوں نے اگر معاشرے میں تقسیم بڑھا دی ہے تو عدالت میں بھی واضح تقسیم دکھائی دے رہی ہے، جوڈیشل کونسل میں چیف جسٹس کی جانب سے جونئیر ججوں کی تقرری کے فیصلے کو مسترد کر دیا گیا ہے۔

پارلیمنٹ کے دیے ہوئے اختیار کو اس کے خلاف استعمال کرنا کیا قانون ساز ادارے کی توہین نہیں؟ مولوی تمیز الدین کیس سے شروع ہونے والا سلسلہ چار مارشل لاؤں کو آئینی قرار دینے سے عدالتی قتل اور غداری و جلاوطنی تک اعلیٰ عدلیہ کے کردار کی کہانی ہے جس کا انجام لگتا ہے قریب آتا جا رہا ہے۔ اب عدلیہ کے بارے میں یہ رائے بنتی جا رہی ہے۔

فیصلہ لکھا ہوا رکھا ہے پہلے سے خلاف
آپ کیا خاک عدالت میں صفائی دیں گے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments