ابن صفی: ایک تھا جادوگر


آج اس جادوگر کی سال گرہ ہے، سو کچھ باتیں یاد آتی ہیں۔

یہ شاید 1965 کی بات ہے۔ ہم لاہور کے علاقے دھرم پورہ میں رہتے تھے۔ میرے بڑے بھائی احمد اقبال ان دنوں ایک سرکاری محکمے سے وابستہ تھے۔ اس محکمے میں لائبریری قائم کرنے کی ذمہ داری بھائی جان کو سونپی گئی تو چند دنوں کے لئے ہمارے گھر میں کتابوں کا ڈھیر لگ گیا۔ جب تک دفتر میں لائبریری کے لئے جگہ تیار ہوتی رہی، فرنیچر کا بندوبست کیا جاتا رہا، اس وقت تک ستلی سے بندھے کتابوں کے وہ بہت سے بنڈل ہمارے ہی گھر رہے۔

ایک دن میں نے بہت احتیاط سے ایک ایسا بنڈل کھولا جس میں پتلی پتلی بہت سی کتابیں تھیں۔ نونہال اور تعلیم و تربیت جیسے بچوں کے رسائل پڑھنے کے باعث، میرا خیال تھا کہ یہ کتابیں کم صفحات کی ہیں تو شاید بچوں کی کتابیں ہوں گی۔ مجھے کیا خبر تھی کہ اس پہلی کتاب کے ذریعے کوئی نئی، انوکھی دنیا مجھ پر اپنے در کھولنے والی ہے۔

وہ ابن صفی کی عمران سیریز کا کوئی ناول تھا جو میں نے پڑھنا شروع کیا۔ اپنی کم عمری کے باعث میں کچھ سمجھا، کچھ نہیں سمجھا۔ مگر بیزاری نہیں ہوئی، کچھ الگ سا مزا آیا۔ پتا نہیں ایکسٹو کا کیا مطلب تھا، ٹوسیٹر کیا بلا تھی، اور جولیانا فٹزواٹر جیسا عجیب و غریب نام کیوں رکھا گیا تھا۔ مگر وہ پوری فضا بڑی مزے دار تھی، عمران کی شوخی بڑی چٹپٹی تھی اور جملے عجب تیکھے سے تھے۔ دو دن میں یہ کتاب ختم کر کے واپس بنڈل میں رکھی، اور دوسری نکال لی۔

تیسری چوتھی کتاب تک میں معاملات کو کچھ کچھ سمجھنے لگا تھا اور اگر درمیان میں دو اجنبی، یعنی فریدی اور حمید نہ آ جاتے اور میں ان کا نیا سیٹ اپ سمجھنے کی کوششوں میں نہ الجھ جاتا تو عمران کسی قریبی دوست کی طرح میرے بہت قریب آ چکا ہوتا۔ اس دوران ہی وہ کتابیں بھائی جان کی دفتری لائبریری چلی گئیں اور ہم ستمبر کی جنگ کے بعد کراچی منتقل ہو گئے۔

کراچی آنے کے کچھ عرصے بعد مجھے پتا چلا کہ ہمارے گھر سے کچھ دور جمشید روڈ نمبر 2 پر ایک لائبریری ہے جہاں سے ہر طرح کے ناول، رسالے کرائے پر مل جاتے ہیں۔ اس زمانے میں ایسی لائبریریاں ہر محلے میں ہوتی تھیں۔ تو اس طرح جمشید روڈ کی ایک نیم تاریک، سیلن زدہ، اقبال لائبریری کے ذریعے میں نے عمران سے، فریدی اور حمید سے، اور ابن صفی سے تعلقات دوبارہ استوار کئے۔

آج پلٹ کر دیکھتا ہوں تو احساس ہوتا ہے کہ ابن صفی کوئی جادوگر تھے جنہوں نے وہ راز پا لیا تھا جو چند مصنف ہی جان پاتے ہیں۔ یعنی اثر کرنے والی، دل میں اترنے والی، باندھے رکھنے والی کہانی تخلیق کرنا۔ یہ کوئی آسان کام نہیں ہے۔ آسان ہوتا تو ہر ماہ درجنوں اچھے کہانی کار منظر عام پر آتے اور کہانی کاروں کی قلت کا شکوہ کرنے کی ضرورت ہی نہ رہتی۔

آج ابن صفی کی مقبولیت کے زمانے کا احوال بیان کریں تو شاید اس پر مبالغے کا گمان ہو، مگر میں نے اپنی نو عمری میں ہی ان کے نئے ناول کی آمد کے اعلان سے پیدا ہونے والا عوامی جوش و خروش دیکھا ہے۔ میں نے کراچی کے ریگل چوک پر ان کے ناولوں کے اجرا پر بے تاب قارئین کی قطاریں دیکھی ہیں۔ اور میں محلہ محلہ قائم لائبریریوں میں ان کا نیا ناول کرائے پر حاصل کر کے پڑھنے کے خواہش مندوں کی لڑائیوں کا شاہد ہوں۔ عوامی سطح پر تیز رفتار فروخت کے یہ مناظر میں نے صرف دو مطبوعات کے لئے ہی دیکھے ہیں۔ ابن صفی کے ناول، یا پھر سب رنگ کے تازہ شمارے کی آمد۔

عوامی سطح پر ایسی مقبولیت کسی اتفاق کی بدولت نہیں ہوتی۔ یہ لکھنے کے فن میں مہارت، ذہن کی زرخیزی، عمدہ اسلوب اور برسوں پر محیط محنت کے ذریعے ہی نصیب ہوتی ہے۔ اور اسے برقرار رکھنے کا مرحلہ، بار بار ایک نئے امتحان میں سرخرو ہونے جیسا دشوار ہے۔

لفظوں کی ایک علیحدہ دنیا ہوتی ہے۔ پیچیدہ اور پراسرار۔ انگریزی کا ایک لفظ ہے، مینٹور۔ اردو میں اسے اتالیق یا راہ نما یا استاد وغیرہ کہا جاتا ہے۔ انگریزی میں اس کا مفہوم تجربہ کار اور قابل بھروسہ مشیر یا تربیت کار وغیرہ بتایا جاتا ہے۔ لیکن میرا خیال ہے کہ اس لفظ کا اصل مفہوم شاید اس سے بھی سوا ہے۔

کہنا میں یہ چاہتا ہوں کہ ابن صفی ایک مینٹور تھے۔ ایک غیبی مینٹور۔ وہ کسی جامعہ میں نہیں پڑھاتے تھے، فکشن کا کوئی کوچنگ سینٹر نہیں چلاتے تھے، لکھنے لکھانے والوں سے بھرے کسی آڈیٹوریم کے اسٹیج پر لیکچر دینے نہیں آتے تھے، پھر بھی وہ لاکھوں قارئین کے محبوب تھے۔ اور اس کے ساتھ ہی درجنوں، سینکڑوں، شاید ہزاروں خاص لوگوں کے مینٹور تھے۔ ان لوگوں کے مینٹور، جنہوں نے بعد میں فکشن کا رخ کیا، ناول اور افسانے لکھے، تخلیقی سرگرمیوں میں مصروف رہے، نام ور ہوئے۔

اردو ادب میں ایک ایسا طبقہ موجود ہے (شاید ہمیشہ موجود رہا ہے) جو اعلی ادب، خالص ادب، مقبول ادب، عوامی ادب جیسی اصطلاحات کے سہارے کسی بھی تخلیق کار کا مقام اور مرتبہ طے کرنے کا اختیار اپنے پاس رکھنے کا آرزو مند رہتا ہے۔ ان میں روایتی مبصرین بھی شامل رہے ہیں، تنقید نگار بھی، اور بعض اوقات خود لکھنے والے بھی۔

اس طبقے نے ہمیشہ یہ کوشش کی کہ ابن صفی کے ناولوں کو ادب نہ سمجھا جائے بلکہ پاپولر ادب جیسے کسی کھاتے میں ڈال دیا جائے۔ اور ایک ابن صفی پر ہی کیا موقوف ہے، اس طبقے نے آہستہ آہستہ سب کچھ مسترد کرنا شروع کر دیا ہے۔ کرشن چندر بھی، ممتاز مفتی بھی، اشفاق احمد اور بانو قدسیہ بھی، اے حمید بھی۔ استرداد کی تلوار ہے جو اندھا دھند چلائی جاتی ہے، یہ سوچے بغیر کہ ادب میں کسی کے اچھا یا کم اچھا ہونے، معیاری یا اوسط درجے کا ہونے کے بارے میں اصل فیصلہ وقت کرتا ہے۔ جس دیے میں جان ہوتی ہے، وہی دیا رہ جاتا ہے۔ باقی سب وقت کے غبار میں گم ہو جاتا ہے۔ سو اگر آج ابن صفی کا نام، ان کے رخصت ہو جانے کے بیالیس سال بعد بھی زندہ ہے تو سمجھ لیجئے کہ رد و قبول کے جو پیمانے ان ماہرین نے ایجاد کئے تھے، وہ بے کار ثابت ہوئے۔

یہ سب کچھ تو بہت بعد میں سمجھ آنا شروع ہوا۔ اس سے بہت پہلے ہی، ابن صفی کی زندگی میں ہی، یہ چٹکلہ مشہور ہو چکا تھا کہ ادب سے وابستہ بہت سے لوگ چھپ چھپ کر ابن صفی کے ناول پڑھتے ہیں لیکن ادبی نشستوں میں ان ناولوں کو ادب کا حصہ ماننے سے انکار کر دیتے ہیں۔ یوں ظاہر کرتے ہیں جیسے ابن صفی کو کبھی پڑھا ہی نہیں۔

ایسی باتوں سے ابن صفی پر اور ان کی مقبولیت پر بھلا کیا اثر پڑ سکتا تھا۔ سو عمران سیریز اور جاسوسی دنیا سیریز کا سلسلہ جاری رہا۔ ان ناولوں کے قارئین کی تعداد بڑھتی گئی۔

ادب اور غیر ادب کی بحث میں پڑے بغیر، تعصب کی کوئی عینک لگائے بغیر، ابن صفی کی زندگی کے سارے کام کو دیکھا جائے تو چند باتیں سامنے آتی ہیں۔ پہلی یہ، کہ وہ کہانی کی بنت کے ماہر تھے۔ غیر معمولی ماہر۔ انہوں نے سراسر فینٹسی کی دو دنیائیں تخلیق کیں اور ان دنیاوں کو پڑھنے والوں کے لئے قابل یقین بنا دیا۔ اتنا قابل یقین بنا دیا کہ لوگ ان خالص تخیلاتی کہانیوں سے عشق کرنے لگے۔

انہوں نے دوسرا بہت اہم کام یہ کیا کہ اردو فکشن کے بے شمار قاری پیدا کئے اور اردو زبان کو ایک نئے ڈھنگ سے فروغ دیا۔ کسی بھی زبان کو فروغ دینے، عوامی سطح پر لوگوں کو زبان کی تعلیم دینے اور باریکیاں سمجھانے کے لئے دل موہ لینے والے فکشن سے بڑا ہتھیار آج تک ایجاد نہیں ہو سکا ہے۔

ابن صفی کا تیسرا کارنامہ وہ ہے جس کا آج بھی کشادہ دلی سے اعتراف نہیں کیا جاتا۔ انہوں نے ایسے لوگوں میں کہانی لکھنے کی تڑپ پیدا کی جن میں تخلیق کی کوئی نہ کوئی چنگاری موجود تھی۔ اچھا مصنف اپنے فن کے ذریعے نئے مصنف پیدا کرتا ہے۔ ابن صفی نے دو طرح کے مصنفین پیدا کئے۔ ایک تو وہ، جنہوں نے دیکھا دیکھی اپنی ہی عمران سیریز اور جاسوسی دنیا سیریز لکھنا شروع کیں جن کے کردار وہی ابن صفی والے تھے، مہم جوئی مختلف تھی۔ یہ ناول بھی ان لوگوں میں خوب مقبول ہوئے جو ابن صفی کے ناول چاٹ چکے تھے مگر ہر مہینے اسی فضا میں لکھے گئے مزید دو چار ناول پڑھنا چاہتے تھے۔ کچھ لوگوں نے ابن صفی کے ناولوں سے ملتے جلتے ناول بھی لکھے جن میں بالکل نئے کردار تھے۔

لیکن اس کے ساتھ ہی ابن صفی نے ایسے کہانی کار بھی پیدا کئے جنہوں نے اپنے لئے جاسوسی ادب یا سری ادب سے مختلف راہ منتخب کی۔ ان لوگوں نے ابن صفی کی تحریروں سے تربیت حاصل کرنے کے بعد عام زندگی کے افسانوں کی جانب، ناولوں کی جانب، فکشن کی تا حد نگاہ پھیلی دنیا کی جانب رخ کیا اور پھر زنگی بھر یہیں قیام کرنے کا فیصلہ کیا۔

میری کم نصیبی رہی کہ مجھے زندگی میں ابن صفی سے ملنے کا کبھی موقع نہ مل سکا۔ ایک بار موقع مل سکتا تھا لیکن میرے فطری تذبذب نے یہ موقع ضائع کر دیا۔

ہم کراچی یونیورسٹی میں صحافت پڑھتے تھے۔ دوستوں سے مل کر یہ فیصلہ کیا کہ ایک ادبی رسالہ نکالا جائے۔ اس رسالے “شفق” کا اشتہار بھی یونیورسٹی ہی کے ایک اخبار میں چھاپ دیا۔ رسالے کی اشاعت کے لئے دو ڈھائی ہزار روپے درکار تھے۔ طے ہوا کہ کچھ اداروں اور لوگوں سے پانچ پانچ سو روپے کے اشتہار لئے جائیں۔ لہٰذا ایک تعارفی لیٹر اور ٹیرف تیار کیا گیا اور مختلف دوستوں کی ڈیوٹی لگائی گئی کہ وہ اپنے اپنے جاننے والوں سے اشتہار حاصل کرنے کی کوشش کریں۔

چار پانچ دن بعد، پہلے پانچ سو روپے آ گئے۔ اب بالکل یاد نہیں کہ یہ کامیابی کس کے ذریعے حاصل ہوئی تھی۔ ہاں، یہ یاد ہے کہ ہم کیسے دنگ رہ گئے تھے۔

یہ پانچ سو روپے ابن صفی صاحب نے بھجوائے تھے !!

مجھے تو یوں لگا جیسے کسی استاد نے میرے کاندھے پر تھپکی دی ہو۔ ایک ایسے استاد نے، جسے معلوم بھی نہیں کہ میں اور مجھ جیسے نہ جانے کتنے لوگ اس کے شاگرد ہیں، جس نے بالکل انجان طلبہ و طالبات کی حوصلہ افزائی اس لئے ضروری سمجھی ہو کہ وہ ایک ادبی رسالہ نکالنے کی جدوجہد کر رہے ہیں۔

ہم نے ان پیسوں سے کتابت شروع کرا دی۔ لیکن وہ رسالہ کبھی شائع نہ ہو سکا کیونکہ ابن صفی صاحب کے سوا کسی نے ہمیں مالی تعاون یا اشتہار فراہم کرنے کے قابل نہ سمجھا۔ ہم چند ماہ سوچتے ہی رہے کہ ایک روز جا کر ان کا شکریہ ادا کریں اور انہیں بتائیں کہ رسالہ کیوں نہیں نکل سکا۔ لیکن اسی دوران ایک روز وہ دل دوز خبر آ گئی کہ ابن صفی صاحب رخصت ہو گئے ہیں۔

کم لوگ ہوتے ہیں جو اپنی زندگی میں ہی ایسی کامیابی، ایسی مقبولیت حاصل کریں کہ انہیں پورے اعتماد کے ساتھ لیجنڈ کہا جا سکے۔ ابن صفی انہی گنے چنے لوگوں میں سے ایک تھے۔

(ماہنامہ ‘قومی زبان’ کے خصوصی ابن صفی نمبر میں شائع ہونے والی تحریر)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments