ضلع لسبیلہ سیلاب کی زد میں جبکہ حکومت، انتظامیہ محفوظ مقامات پر منتقل


جب بھی صوبہ بلوچستان کی بات ہو اور اس کے سب سے اہم اضلاع کی بات ہو تو وہاں سب سے زیادہ اہمیت کا حامل ضلع لسبیلہ تصور کیا جاتا ہے۔ جس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ یہ دنیا کا واحد خطہ ہو گا۔ جہاں پر کسی چیز کی کمی نہیں جنگل پہاڑ سمندر دریا زراعت شپ یارڈ بندرگاہیں اور صنعتی ادارے جن میں بجلی سونا سمیت ہر قسم کی قیمتی کارخانوں کا گڑھ ہے۔ سب سے بڑی بات وطن عزیز کے دفاعی اداروں کے لیے سب سے زیادہ اہمیت کے حامل ضلع بھی لسبیلہ تصور کیا جاتا ہے۔ مگر آج تک اس کی اہمیت صرف لفظوں تک محدود ہے جس پر پاکستان کا زیادہ تر انحصار صوبہ بلوچستان پر ہوتا ہے۔ جب لینا ہو یا لگانا یا کھانا ہو اس معاملے میں اسی طرح ضلع لسبیلہ بلوچستان کے لیے وہی اہمیت رکھتا ہے۔ یقین تو نہیں آ رہا مگر آنکھوں دیکھی صورتحال سے بھی تو اغماض نہیں کیا جاسکتا اور یہ حقیقت ہے۔ اہمیت کا اندازہ مصیبت یا آزمائش کے وقت پتا چلتا ہے اور یہی کچھ لسبیلہ کو حالیہ آنے والے شدید سیلابی صورتحال میں ہو چکا ہے۔

ضلع لسبیلہ میں اس وقت سیلابی صورتحال نے اس قدر تباہی مچائی ہے جس کا ازالہ برسوں تک نا ممکن ہے۔ ضلع لسبیلہ کے مقامی لوگوں کا زیادہ تر انحصار زراعت پر ہونے کی وجہ سے اب فاقہ کشی منڈلہ رہی ہے کیونکہ فصلات کا 80 فیصد حصہ مکمل تباہ ہو چکا ہے۔ سیلاب آنے کے 10 دن گزر جانے کے بعد بھی ابھی تک لسبیلہ کے مقامی آبادی جس کا 60 فیصد حصہ ابھی تک سیلاب میں محصور ہے۔ بالخصوص سینکڑوں رورل ایریاز میں مقیم لوگوں کا زمینی رابطہ شہری علاقوں سے منقطع ہے۔

سینکڑوں قیمتی جانیں مال مویشی سیلاب میں مر گئے ہزاروں گھر، زرعی زمینیں تیار فصلات سڑکیں بچاؤ بند برج سیلاب کی نظر ہو گئی ہیں اور جو مقامی لوگ اور ہاری بیل طبقہ سیلاب سے نکل کر محفوظ مقامات پر آئے ہیں۔ ان کو اسہال گیسٹرو جیسے مرض نے جھکڑ رکھا ہے۔ حالات اتنے کشیدہ ہیں کہ چاروں طرف جہاں تک نظر جاتی ہے۔ پانی ہی پانی نظر آ رہا ہے۔ کئی دیہات اس حد تک مسمار ہو گئے ہیں کہ جن کو دوبارہ بحال ہونا برسوں کا وقت مانگتا ہے اور حکومت کی توجہ جو ابھی تک لفظی توجہ تک محدود ہے۔

آدھے سے زیادہ لسبیلہ سیلاب کی زد میں ہونے کے باوجود اگر حکومت انتظامیہ کے کردار پر بات کریں تو ابھی تک 10 کلو کے کھانوں کے پیکٹ جو سیلاب متاثرہ دیہاتوں میں ہیلی کاپٹر کے ذریعے اونچائی سے زمین پر پھینکے گئے جن میں آدھے سے زیادہ سامان پھٹ جانے کی وجہ ضائع ہو گیا جو استعمال میں لانا مشکل ہے۔ بعض جگہوں پر پی ڈی ایم اے کی جانب سے مہیا کیا جانے والا سامان مقامی انتظامیہ اور کچھ نام نہاد سیاسی گروپ کے ذمہ داران نے غیر منصفانہ طریقے سے استعمال کیا بالخصوص ایسا ماحول تحصیل بیلہ میں دیکھا گیا۔

جس طرح بالا حکام کی طرف سے اظہار افسوس بھی دیکھنے کو ملا مگر کارروائی تاحال نہ ہو سکی۔ اب ایسی صورتحال میں جہاں لوگوں کے پاس رہنے کے لیے گھر نہ بچا ہو کھانے پینے کے لیے کچھ نہ بچا ہو وہاں سیاست چمکانا مزید کسی عذاب کی جانب جانے کے مترادف عمل ہے۔ شہری آبادی بھی متاثر ہیں۔ مگر زیادہ ضرورت اس امر کی ہے کہ جو دیہاتی آبادی ہے وہاں امدادی کارروائیاں عمل میں لائی جائیں راستے نہ ہونے باعث مشکلات ضرور ہیں۔ مگر کئی اور ذرائع موجود ہیں جن کے ذریعے امدادی اقدامات کیے جا سکتے ہیں۔

اس صورتحال میں لسبیلہ میں مقامی تنظیموں کی جانب سے متاثرین تک کپڑے کھانے پینے بے گھروں کے لیے ٹینٹ کے سامان کا بندوبست کیا جا رہا ہے۔ مگر وسائل محدود ہونے کے باعث حالات سے مقابلہ مشکل نظر آ رہا ہے۔ پھر بھی مقامی تنظیموں میں ایدھی فاؤنڈیشن، جماعت اسلامی کے رضاکار، بیرسٹر جہانزیب قاسم رونجھو کی ٹیم، وائس آف یوتھ کے والنٹیئر، وانگ تنظیم کے علاوہ لسبیلہ ویلفیئر ٹرسٹ کے رضاکار، جام محمد فاؤنڈیشن کے رضاکار کچھ مخیر حضرات باقی چھوٹی موٹی تنظیمیں اپنی بساط کے مطابق سیلاب متاثرین کے لیے اقدامات کر رہی ہیں۔

لیکن نیشنل اور انٹرنیشنل تنظیموں کے بغیر سیلابی متاثرین کے لیے کھانے پینے کی اشیاء ادویات پانی ٹینٹس کی فراہمی کے حوالے سے کوئی احوال نہیں اور نہ ہی ان کی جانب سے کوئی خاطر خواہ اقدامات کیے گئے ہیں۔ جب کہ مقامی سماجی ورکرز سوشل میڈیا کے ذریعے الیکٹرانک میڈیا آن لائن میڈیا تک صورتحال پہنچانے کی کوشش کر رہے ہیں اور مختلف ذرائع سے انٹرنیشنل نیشنل تنظیموں سے امداد کے لیے رابطے میں مگر تاحال کامیابی حاصل نہ ہوئی مگر گزشتہ دن سے کچھ تنظیموں کی جانب سے ریسپانس ملنا شروع ہوا ہے۔ اب عملاً کام کی ضرورت ہے۔

لسبیلہ میں چند نمایاں صنعتی ادارے ہیں۔ اگر صرف وہ سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے تو اس ضلع کو دیگر سماجی اداروں کے امداد کی ضرورت پیش نہ آتی نہ ہی ملکی اداروں کی مگر ان تمام صنعتی اداروں نے ہمیشہ کی طرح نظر چرائی تاحال سیلابی صورتحال میں ان کا کوئی کردار نظر نہیں آیا۔ اگر وہ چاہتے تو بہت کچھ کر سکتے تھے۔ سیلابی صورتحال سے نکلنے کے بعد متعلقہ تمام صنعتی اداروں کے خلاف کارروائی عمل میں لائی جائے جو لسبیلہ کو بیماروں کوڑا کرکٹ دھوئیں کے علاوہ کچھ نہ دے سکے اور نہ ہی دینا چاہتے ہیں اور لسبیلہ کے سیاسی نمائندے اس معاملے میں اس قدر خاموش ہیں کہ جیسے صنعتی اداروں کا سی ایس آر فنڈ کا کوئی حصہ ان کو باقاعدہ ملتا ہو بہرحال ضلع لسبیلہ سے ہر قسم کی ظلم و زیادتی کی اندھی مثال قائم کی گئی ہیں۔

جبکہ کچھ ایسے پروجیکٹس جن کے تحت سمال برج ڈیمز پروٹیکشن والز پر کام ہو رہے تھے اور آدھے سے زیادہ مکمل بھی بتائے جا رہے تھے۔ وہ بھی ناقص ہونے کے باعث سیلاب آنے کے بعد اربوں روپے ضائع ہو گئے تمام بندات جو زمینیں کٹاؤ کو بچانے کے لیے بنائی گئی تھیں تمام آب برد ہو گئیں جس کی وجہ سے پورا پورا لی بیسن پروجیکٹ فیل ہو گیا۔

لسبیلہ میں اگر سیاسی قیادتوں کی تعداد کا اندازہ لگایا جائے تو عام حالات میں قیادت کا اندازہ لگانے کے بعد لگتا تو ایسا ہے کہ ایسی صورتحال میں تمام سیاسی نمائندے آپس میں لڑنے کے بجائے متحرک ہوتے تو سیلابی صورتحال سے کسی حد تک نمٹا جاسکتا تھا۔ مگر یہاں ایک سیاسی گروپ کی جانب سے امدادی سامان اور کارروائیوں پر بھی سیاست دیکھی گئی ہے اور نمائندگان کی جانب سے سوشل میڈیا پر ماسوائے ایک دوسرے پر تنقید کے علاوہ کچھ دیکھنے کو نہیں ملا ایک سیلاب دوسرا سیاسی زہر دونوں نے ضلع لسبیلہ کو کہیں کا نہیں چھوڑا ہے۔

کوئی امدادی گاڑی کے ساتھ اپنی تصویر کشائی میں لگا ہوا ہے تو کوئی سرکاری امداد کو اپنے نمائندے کی امداد سے منسوب کر رہا ہے۔ کئی جگہ پاپڑ کی تھیلیاں دے کر فوٹو سیشن کیا جا رہا ہے تو کہیں سوشل میڈیا پر بالا حکام سے رابطے کے تذکرے دیکھے گئے۔ برائے کرم سماجی ورکرز اپنی کوششوں کو تیز کریں متعلقہ ڈونرز سے اپنی مدد آپ کے تحت رابطے کریں تاکہ سیلابی متاثرین کی جتنا ممکن ہو سکے مدد کی جائے کیونکہ پاکستان میں حکومت اور انتظامیہ کی جانب سے کسی قسم کا اقدام مکمل تباہی کے بعد ممکن ہے وہ بھی صرف فنڈز ہڑپنے کی حد تک اقدامات کرسکیں گے وگرنہ کوئی پرسان حال نہیں۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments