پی ٹی آئی ممنوعہ فارن فنڈنگ کیس میں 7 سال 7 ماہ کیوں لگے؟


اسلام آباد میں الیکشن کمیشن آف پاکستان کا صدر دفتر، فائل فوٹو

یہ خبر 21 جون 2022 کو شائع ہوئی تھی۔ اسے الیکشن کمیشن کے فیصلے کے بعد دوبارہ شائع کیا گیا ہے۔

اسلام آباد — الیکشن کمیشن آف پاکستان نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے ممنوعہ فنڈنگ کیس کی سماعت 7 سال اور 7 ماہ میں مکمل کی۔ اس دوران پی ٹی آئی کی طرف سے پہلے الیکشن کمیشن کا دائرہ کار ہی تسلیم نہیں کیا جارہا تھا، لیکن بعد میں سپریم کورٹ کے حکم پر اسے تسلیم کیا گیا اور پھر درجنوں متفرق درخواستیں آتی رہیں جن میں کبھی پی ٹی آئی کے حق میں اور کبھی مخالفت میں فیصلے آتے رہے۔

سابق سیکریٹری الیکشن کمیشن کے مطابق اس کیس کا فیصلہ آنے سے ملکی سیاست بدل سکتی ہے کیوں کہ جھوٹا سرٹیفکیٹ دینے پر عمران خان کے خلاف صادق اور امین نہ ہونے سے متعلق کارروائی ہوسکتی ہے اور الیکشن کمیشن پی ٹی آئی کے خلاف ریفرنس حکومت کو بھجوا سکتا ہے۔

پی ٹی آئی کے بانی رہنماؤں میں شامل اکبر ایس بابر نے 2014 میں پارٹی فنڈنگ سے متعلق الیکشن کمیشن سے رجوع کیا تھا اور کمیشن نے 21 جون 2022 کو اس پر سماعت مکمل کر لی تھی۔

21 جون آخری روز ہونے والی سماعت کے دوران درخواست گزار اکبر ایس بابر کے مالی امور کے ماہر ارسلان وردگ نے مختلف مالیاتی امور پر بریفنگ دیتے ہوئے کہا تھا کہ تحریک انصاف کو کینیڈا، امریکہ، برطانیہ اور آسٹریلیا سے فنڈنگ ہوئی۔ ان کے بقول پی ٹی آئی نے 11 اکاؤنٹس تسلیم کیے جو ظاہر نہیں کیے گئے تھے جب کہ بیرونِ ملک سے آئے کئی فنڈز کے ذرائع نہیں بتائے۔

چیف الیکشن کمشنر نے کہا کہ ڈونرز کی تفصیل نہ ہونے پر پی ٹی آئی وکیل انور منصور اپنے دلائل دے چکے ہیں۔ ان کے مطابق فنڈنگ کے وقت قانون میں ڈونر کی تفصیل دینا لازمی نہیں تھا۔

ممنوعہ فنڈنگ کیس ہے کیا اور اس میں کب کیا ہوا؟

اس کیس میں پاکستان تحریک انصاف کی بنیاد رکھنے والوں میں سے ایک اکبر ایس بابر نے نومبر 2014 میں الیکشن کمیشن آف پاکستان میں درخواست کی کہ پی ٹی آئی کے اکاؤنٹس میں آنے والی کروڑوں روپے کی رقوم غیرقانونی طور پر ان اکاؤنٹس میں آئی ہیں جن کے بارے میں کچھ اطلاع نہیں ہے۔

اس معاملے پر پارٹی کے اندر اکبر ایس بابر پر شدید تنقید کی گئی اور ایک وقت آیا کہ ان کی بنیادی رکنیت بھی ختم کردی گئی، لیکن اکبر ایس بابر اپنے موقف سے نہ ہٹے اور اس بارے میں الیکشن کمیشن میں کیس چلاتے رہے۔

درخواست گزار کا الزام تھا کہ تحریکِ انصاف کو بیرونی ممالک سے بھاری رقوم فنڈنگ کی مد میں حاصل ہوئیں۔ لیکن الیکشن کمیشن کو جو ریکارڈ فراہم کیا گیا وہ اُس رقم سے مطابقت نہیں رکھتا۔ لہذٰا فنڈز میں خرد برد کی گئی۔

الیکشن کمیشن نے اگست 2017 میں غیر ملکی فنڈنگ کیس کی سماعت روکنے کی درخواست مسترد کرتے ہوئے ریکارڈ جمع کرانے کے لیے سات ستمبر تک کی مہلت دی تھی۔ بعد ازاں، الیکشن کمیشن نے اسٹیٹ بینک آف پاکستان کو اس حوالے سے حکم دیا۔ جس کے مطابق پاکستان تحریکِ انصاف نے مختلف کمرشل بینکوں میں موجود کل 26 اکاؤنٹس میں سے آٹھ کو ظاہر کیا اور ان کی تفصیل الیکشن کمیشن میں عمران خان کے دستخطوں سے جمع کرائی۔

کل 26 اکاؤنٹس میں سے صرف 8 ظاہر شدہ تھے جب کہ باقی 18 اکاؤنٹس کے حوالے سے کہا جاتا ہے کہ یہ بے نامی اکاؤنٹس تھے جن میں بیرون ملک سے آنے والی فنڈنگ جمع کی جاتی رہی۔ لیکن یہ فنڈنگ کہاں خرچ ہوئی، اس بارے میں کوئی تفصیل فراہم نہیں کی گئی۔ پی ٹی آئی مخالف جماعتیں انہی بے نامی اکاؤنٹس کی بنیاد پر تحریک انصاف کے خلاف تحقیقات کا مطالبہ کرتی رہی ہے۔

پاکستان تحریک انصاف فارن فنڈنگ کے حوالے سے اکبر ایس بابر کی طرف سے عائد کردہ تمام الزامات کی تردید کرتی آئی ہے۔ پارٹی رہنماؤں کا مؤقف رہا ہے کہ سیاسی مخالفین کے کہنے پر پارٹی کو بدنام کرنے کے لیے یہ کیس بنایا گیا ہے۔

اکبر ایس بابر کا کہنا تھا کہ 2009 سے 2013 کے درمیان پارٹی کے کئی درجن سےزائد اکاونٹس مشتبہ ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی نے 73 لاکھ ڈالرسے زائد رقم وصول کی۔ تحریک انصاف نے معاملہ رکوانے کیلئے چھ مرتبہ اسلام آباد ہائیکورٹ کا رخ کیا اور درخواستوں میں الیکشن کمیشن کے اختیارات کوچیلنج کیا۔

الیکشن کمیشن میں دوران سماعت پی ٹی آئی نے9 وکیل تبدیل کیے۔

عدالت عظمیٰ کے حکم اورعدالیہ عالیہ سے سنوائی نہ ہونے پر کیس کی الیکشن کمیشن میں باقائدہ سماعت شروع ہوئی۔ الیکشن کمیشن نے تحقیقات کیلئے مارچ 2018 میں سکروٹنی کمیٹی قائم کی جس کو صرف ایک ماہ کا وقت دیا گیا تھا۔ لیکن اس کمیٹی نے انتہائی سست رفتاری سے کام کرتے ہوئے 96 اجلاس کے بعد اگست 2020 میں تحقیقاتی رپورٹ کمیشن میں جمع کروائی۔

الیکشن کمیشن نے یہ رپورٹ مسترد کی جس پر کمیٹی نے حتمی رپورٹ جنوری 2022 میں جمع کروائی۔

اسکروٹنی کمیٹی کی رپورٹ میں کیا ہے؟

جنوری 2022 میں الیکشن کمیشن آف پاکستان کی اسکروٹنی کمیٹی نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے فارن فنڈنگ کیس سے متعلق حتمی رپورٹ جمع کرا ئی، جس میں پارٹی کی طرف سے 53 بینک اکاؤنٹس چھپانے کا انکشاف ہوا تھا۔

اس رپورٹ کے منظرعام پر آنے سے قبل الیکشن کمیشن میں پاکستان تحریکِ انصاف نے اپوزیشن جماعتوں پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلزپارٹی کی اسکروٹنی کمیٹی کی رپورٹ آنے تک پی ٹی آئی کی رپورٹ خفیہ رکھنے کی استدعا کی تھی۔

الیکشن کمیشن کی طرف سے اگرچہ باقاعدہ طور پر اسکروٹنی کمیٹی کی رپورٹ جاری نہیں کی گئی، تاہم اس رپورٹ کے مندرجات میڈیا میں رپورٹ کیے جا رہے ہیں، جس کے مطابق پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) نے 65 بینک اکاؤنٹس میں سے صرف 12 بینک اکاؤنٹس کے بارے میں کمیشن کو آگاہ کیا اور مبینہ طور پر 53 اکاؤنٹس چھپائے۔

رپورٹ پیش کیے جانے کے موقع پر چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ نے مدعی مقدمہ اکبر ایس بابر سے سوال کیا کہ اسکروٹنی کمیٹی کی رپورٹ آ گئی ہے اب بتائیں کارروائی کیسے آگے چلانی ہے۔ اس پر درخواست گزار اکبر ایس بابر نے کہا کہ کمیشن قرار دے چکا ہے کہ رپورٹ آنے پر فریقین سے جواب مانگے جائیں گے۔ پی ٹی آئی کے وکیل شاہ خاور ایڈوکیٹ نے کہا کہ مناسب ہو گا کہ کمیشن کے حتمی فیصلے تک رپورٹ عام نہ کی جائے۔ رپورٹ صرف فریقین کو ہی دی جائے۔

انہوں نے درخواست کی کہ کم از کم پی ٹی آئی کا جواب آنے تک ہی رپورٹ خفیہ رکھی جائے، باقی پارٹیوں کی رپورٹ آ جائے تو ایک ساتھ ہی کیس سنا جائے۔ الیکشن کمیشن نے اسکروٹنی کمیٹی کی رپورٹ فریقین کو دینے کی ہدایت کر دی تھی۔

رپورٹ کے مطابق پی ٹی آئی نے 2008 سے 2009 کے دوران 65 میں سے صرف 12 اکاؤنٹس ظاہر کیے۔ پی ٹی آئی نے پانچ سال کے دوران مبینہ طور پر 32 کروڑ کی رقم چھپائی۔ تحریک انصاف کی 2013-2012 کی آڈٹ رپورٹ پر بھی مبینہ طور پرکوئی تاریخ درج نہیں۔ یاد رہے کہ آڈٹ رپورٹ پر تاریخ نہ ہونا اکاؤنٹنگ معیار کے خلاف ہے۔ یہ بھی الزام ہے کہ آڈٹ فرم کی فراہم کی گئی کیش رسیدیں بھی بینک اکاؤنٹس سے مطابقت نہیں رکھتیں۔

رپورٹ میں الزام لگایا گیا ہے کہ پی ٹی آئی نے پانچ سال کے دوران 32 کروڑ کی رقم چھپاتے ہوئے اسکروٹنی کمیٹی کو تحریک انصاف کینیڈا اور نیوزی لینڈ کے بینک اکاؤنٹس تک بھی رسائی نہیں دی گئی۔

پی ٹی آئی کے خلاف ریفرنس حکومت کو بھجوایا جاسکتا ہے: کنور دلشاد

سابق سیکرٹری الیکشن کمیشن کنوردلشاد نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان تحریک انصاف نے ممنوعہ فنڈنگ کیس کے معاملہ کو انتہائی غیر سنجیدگی سے لیا۔ سال 2014 میں جب کیس شروع ہوا توعمران خان سمیت پوری قیادت نے اسے نظر انداز کیا اور جب اس کیس میں شواہد، اسکروٹنی کمیٹی کی رپورٹ سامنے آئی تو عمران خان نے اس کیس کو متنازعہ بناتے ہوئے الیکشن کمیشن کو متنازعہ بنانا شروع کردیا۔ چیف الیکشن کمشنر کو ن لیگ کا کارکن کہنا شروع کردیا۔ ان کے بقول پی ٹی آئی کا یہ سب منصوبہ سوچا سمجھا تھا۔

اس وقت اگر الیکشن کمیشن کوئی فیصلہ نہ دے تو کہا جائے گا کہ 8 سال تک ایسے لٹکائے کیوں رکھا۔

کنور دلشاد نے کہا کہ پارٹی کالعدم قرار نہیں ہونی کیونکہ الیکشن کمیشن کے پاس یہ اختیار ہی نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ مجھے لگتا ہے کہ الیکشن کمیشن فنڈنگ ضبط کرنے کے ساتھ ساتھ حکومت کو ایک ریفرنس بھجوائے گا جس میں تمام تفصیل دی جائے گی۔ اس کے ساتھ سٹیٹ بینک کی رپورٹ شامل ہوگی۔ ڈرائیورز، خانساموں کے نام کروڑوں کے اکاؤنٹس کے ثبوت دیے جائیں گے۔ یہ اکاؤنٹس اور یہ ملازمین بھی اس وقت موجود ہیں۔ ان اکاؤنٹس کے ساتھ 12 اکاؤنٹس ایسے ہیں جو ان کی مرکزی قیادت کے نام ہیں اور ان میں 90 کروڑ کے قریب رقم آئی ہے۔ ان اکاؤنٹس کے بارے میں جب پوچھا گیا تو پی ٹی آئی نے لاتعلقی اختیار کی۔ لہذا یہ کیس ایسے ہی ختم ہونے والا نہیں ہے۔ یہ بہت لمبا جائے گا جس کے سنگین نتائج ہوسکتے ہیں۔

کنوردلشاد نے کہا کہ ای سی پی کے پاس بڑا اختیار یہ ہے کہ جب عمران خان نے ممنوعہ فنڈنگ نہ ہونے کا سرٹیفکیٹ دیا اور جب سٹیٹ بینک کے ریکارڈ کے مطابق ثابت ہوگیا تو حقائق چھپانے پر ان کے خلاف کارروائی ہوسکتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ عمران خان جھوٹا سرٹیفکیٹ دینے کی صورت میں صادق اور امین بھی نہیں رہیں گے اور اس بنا پر اگر الیکشن کمیشن اپنی رپورٹ بھجوائے گا تو اس پر عمران خان کے خلاف کارروائی بھی ہوسکتی ہے۔

اس کے علاوہ الیکشن کمیشن آف پاکستان ان کا انتخابی نشان بلا بھی واپس لے سکتی ہے اور اگر ایسا کیا گیا تو پاکستان تحریک انصاف کی رجسٹریشن پر سوالیہ نشان لگ جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ اس کیس کے بارے میں الیکشن کمیشن کو اندازہ ہے کہ ان کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج ہوگا لہذا وہ تمام سالوں کا مکمل ریکارڈ تیار کریں گے۔ ساتھ ہی دیگر جماعتوں کے حوالے سے بھی آئندہ چند دن میں فیصلہ آ جائے گا تاکہ کسی جماعت کو نشانہ بنانے کا تاثر پیدا نہ ہو۔

کنوردلشاد کے بقول عمران خان اور ان کی جماعت کی طرف سے الیکشن کمیشن پر مزید الزامات لگائے جائیں گے لیکن یہ ایک آئینی ادارہ ہے اور اسے ان الزامات سے کوئی فرق نہیں پڑے گا اورپی ٹی آئی کو اس کیس کے نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔

وائس آف امریکہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وائس آف امریکہ

”ہم سب“ اور ”وائس آف امریکہ“ کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے مطابق ”وائس آف امریکہ“ کی خبریں اور مضامین ”ہم سب“ پر شائع کیے جاتے ہیں۔

voa has 3331 posts and counting.See all posts by voa

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments