عورت ایسی خوشبو لگائے جس میں مہک نہ ہو


سوال۔ کیا عورت کے لیے خوشبو لگانا جائز ہے ؟
ملاں صاحب۔ اگر خوشبو لگائے تو ایسی خوشبو ہو کہ اس میں سے مہک نہ آئے۔

آپ اس وائرل کلپ کی فیوض و برکات سے مستفید تو ہوئے ہوں گے ۔ لیکن اطلاعاً عرض ہے کہ یہ اس علمیت کا محض پہلا درجہ ہے۔ اس سے اگلی رفعتیں طے کرنے کے لیے میں نے اس علمیت کی روشنی میں چشم تصور سے باقی کا کلپ بھی دیکھ لیا جس کی تفصیل کچھ یوں ہے۔

عورت۔

۔ ایسی خوشبو استعمال کرے جس میں سے مہک نہ آئے بلکہ بساند پھوٹ رہی ہو۔ ”اچھان“ آ رہی ہو۔ بدبو کے بھبھوکے اٹھ رہے ہوں۔ اس سے اس کے غیر محرم تو کیا محرم بھی دور رہیں گے اور دو ر سے بھی اپنی ناک میں مشک کافور کی گولیاں ڈال کر بیچ میں اگر بتیاں بھی جلا لیں گے اس سے انہیں اپنی موت یاد رہے گی، اور وہ گناہوں سے بچتے رہیں گے۔

۔ لباس کے معاملے میں بہت زیادہ احتیاط کی ضرورت ہے۔ کپڑا پٹ سن کا تمبو کنات والے کپڑے کا استعمال کریں یا آٹے کی گتھیوں کو جوڑ کر جوڑا بنائیں ویسے بھی عورت کا تعلق آٹے برتن کچن وغیرہ ہی سے ہے۔ اگر جوڑا کہیں سے مل گیا ہے تو ایسا رنگ پہنے جس میں رنگ اور رنگینی نظر نہ آئے۔ مثلاً سرخ جوڑا پہن رکھا ہے تو اس کی سرخی نظر نہ آئے۔ اگر آ رہا ہے تو اس پر بلیچ گرا لے۔ پھر پہنے۔

۔ کنگھی پھیرے لیکن بال سیدھے نہ ہوں۔ اجڑے اجڑے نظر آئیں۔ جیسے ان ملاں صاحب کی داڑھی کے تھے۔ ورنہ بالوں میں تھوڑی سی مٹی یا راکھ ڈال لے۔ ( ہم بھی تو یہی کر رہے ہیں )

۔ بناؤ سنگھار کرے تو بالکل پتا ہی نہ چلے۔ پارلر سے آ رہی ہو تو پتا چلے کہ ورکشاپ سے آ رہی ہے۔ اور اگر کچھ اثرات بناؤ سنگھار کے رہ گئے ہوں تو ٹوپی والا برقعہ استعمال کرے۔ جو کہ رنگدار نہ ہو۔ اور اس میں سے بھی گیلے دنبے جیسی بدبو آ رہی ہو۔

۔ نیل پالش بہتر ہے ٹرانسپیرنٹ یعنی شفاف ہو۔ اگر رنگدار کسی نے ہدیہ کر دی ہے تو ناخنوں کے اندر کی طرف لگائے۔ تا کہ نظر نہ آئے اور شوق بھی پورا ہو جائے

۔ لپ اسٹک لگانی ہو تو ڈھکنا کھولے بغیر لگائے نہیں تو ماسک پہنے۔ ماسک بھی رنگ بھی رنگ دار نہ ہو۔ اگر رنگ دار ہو تو ماسک پر مارکر سے کاٹے مار لے۔

۔ اگر کاجل لگانا ہے تو سفید رنگ کا ہو۔ یا پھر کاجل لگا کر ”سرمچو“ کو ہر بار دھو کر لگائیں۔ یا پھر کاجل پرانی پنجابی فلموں کی طرح اتنا لگائیں کہ جھیل جیسی آنکھوں کی تمثیل بدل کر پرنالے جیسی آنکھیں بن جائے سیپیوں جیسی آنکھوں کی بجائے چنگیروں جیسی آنکھیں ہو جائے۔ اس سے عشقیہ شاعری کر کے جو لوگ نوجوانوں کو گمراہ کرتے ہیں ان کو افاقہ ہو گا۔

۔ رنگ گورا کرنے والی کریموں کی جگہ توے کے الٹی طرف ہاتھ پھیر کر تیمم کے انداز میں منہ پر پھیر لے۔ اور اگر قدرتی طور پر رنگ گورا ہے اور توے کی کالک پسینے یا پانی سے اتر گئی ہے تو منہ پر بچوں والے کارٹونوں کے ربڑ والے ماسک لگا لے۔

۔ چوڑیاں پہنے تو نہ ان کی رنگت دکھائی دے ناں کھنک سنائی دے۔ چوڑیاں پہن کر اسے اسی ”سیبے یا سوتر“ کے ساتھ ہاتھ پر باندھ دیا جائے جس میں وہ پہلے دکان پر بندھی تھیں۔ یا پھر زیادہ دل کرے تو خرادیے کے پاس جائے لیکن یاد رہے خرادیہ خاتون ہونی چاہیے۔ اس سے کلائیوں پر مستقل چوڑیاں ڈلوا لے۔

۔ کانوں میں کانٹے، بندے یا بالیاں ہر گز نہ پہنے۔ بہتر ہے کانوں میں کیے گئے سوراخ بند کروا دے۔ اگر پہننے لازمی ہوں تو ایسے کانٹے پہنے جو دکھائی نہ دیں۔ بہتر ہے کیکر یا ببول کے کانٹے پہنے۔

۔ عورتوں کے جوتے آج کل بہت رنگدار زیب و آرائش سے اٹے ہوئے اور ”فیشنی“ آ رہے ہیں۔ کوشش کریں اس طرح کے جوتے نہ پہنیں۔ کوشش کریں کھیڑی پہنیں یا لینٹر ڈالنے والے لمبے بوٹ نہیں تو ”لیلنڑ دیاں جتیاں وٹا لؤ“ والے گلی کے بابا جی سے کوئی پرانے جوتے لے لیں اور اگر نہیں تو جوتے پہن کر ان پر سیاہی پھینک لیں۔

اور آخری نصیحت یہ ہے کہ بہتر ہے کوشش کریں کہ کہ آپ مرد پیدا ہوں۔ تاکہ آپ اپنی آنکھوں پر پلکوں کے پردے کا بوجھ برداشت نہ کرنے کا ازالہ یہاں کی عورت پر حدود سے متجاوز پردے ڈال کر کر سکیں اور اس کے لیے آپ کو عقل، انصاف، عدل اور مساوات کا علمبردار اسلام تو میسر نہیں آئے گا البتہ مردانہ احساس برتری کی ماری اس کی تفہیم ملائیت ضرور دستیاب ہو گی جو عورت کے مشتہر ہونے کے خلاف ہے لیکن اس کی اپنی فتووں کی دکان عورت ہی پر چلتی ہے نہیں یقین تو وہ خوشبو لگا کر دکھائیے جس میں سے مہک نہ آئے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments