مسلکی تعصب میں پستی : دعا زہرہ


وطن عزیز پاکستان میں مذہبی اور فرقہ وارانہ منافرت کوئی نئی نہیں ہے، یہ ایک ایسا ناسور ہے، جو قیام پاکستان سے لے کر آج تک ہزاروں ماؤں کی گود اجاڑ چکا ہے، اگر چہ یہ ناسور کچھ عرصہ پہلے کافی حد تک کنٹرول ہو چکا ہے، لیکن آج بھی کہیں نہ کہیں، کسی نہ کسی شکل میں یہ ابھر کر سامنے آ جاتا ہے اور آج کی دنیا میں، جہاں جانوروں کے بھی حقوق متعین ہوچکے ہیں، وہاں یہ فرقہ واریت انسانوں کو بھی بعض اوقات جانوروں سے بدتر بنا دیتی ہے۔

ایسا ہی کچھ معاملہ کراچی کی دعا زہرا کیس میں دیکھنے میں سامنے آ رہا ہے۔ اس کیس سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ کس طرح مسلکی تعصب میں جا کر انسان کس طرح منافقت کا سہارا لیتے ہیں اور ایسے پوائنٹ اپنے مفادات کے لیے اٹھاتے ہیں، جو کہ خود ان کے مسلکی اعتقادات کے خلاف ہوں۔

دعا زہرہ کیس میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ مذہب اسلام کے تمام مسالک کے درمیان یہ متفقہ امر ہے کہ لڑکی یا لڑکے کی شادی کی کوئی عمر متعین نہیں اور تمام مسالک کم از کم اس بات پر متفق ہیں کہ کسی بھی لڑکی یا لڑکے کی شادی اس وقت کی جا سکتی ہے، جب وہ بالغ ہوں۔ لیکن دعا زہرا کے کیس میں مسلکی جذبات میں بہہ کر ان کے والد خود اپنے مسلک کے برخلاف ایک ایسے نقطے پر عدالت سے اپنے حق میں فیصلہ کرانے پر مصر ہیں، جو ان کے اپنے مسلک کے بھی خلاف ہے۔

مسلک تشیع کے مطابق اور شیعہ مسلم اکثریت والے ملک ایران میں، جہاں شرعی احکامات کو ملکی قوانین کی بنیاد بنایا گیا ہے، شادی کے لیے لڑکیوں کی کم از کم قانونی عمر 13 سال اور لڑکوں کے لیے 15 برس ہے۔ جبکہ دعا زہرا کی عمر متنازعہ میڈیکل رپورٹ کے مطابق بھی 15 سے 16 سال تک ہے۔ جو کہ مسلک کی تشیع اور ایرانی قوانین کے مطابق ( جو مسلک تشیع اثنا عشری کے مطابق ہے ) بھی شادی کی کم از کم عمر سے 2 سال زیادہ ہے۔ اگر عادلانہ نظر سے جائزہ لیا جائے تو مذہبی طور پر اس کیس کو کم عمری کی بنیاد پر عدالت میں لے جانا بنتا ہی نہیں ہے۔

اب ہم دیکھتے ہیں، کیس کا دوسرا بنیادی نقطہ، جو کہ ظہیر اور اس کی فیملی پر اغوا کا لگایا جانے والا الزام ہے، جس طرح سے کیس کو مسلکی رنگ دے کر لوگوں کی ہمدردیاں سمیٹنے کی کوشش کی گئی تھی، اس کی وجہ سے یہ الزام پہلے دن سے ہی مشکوک نظر آ رہا تھا، جوں جوں یہ کیس آگے بڑھ رہا ہے، یہ حقیقت مزید عیاں ہوتے جاری ہے کہ اس کیس کے پیچھے سوائے مسلکی منافرت کے علاوہ کوئی جذبہ محرکہ نہیں ہے۔ اگر اغوا کے الزام کو دیکھا جائے تو یہی اس وجہ سے بھی جھوٹا نظر آتا ہے کہ اس کیس میں سندھ اسمبلی کی ڈپٹی اسپیکر شہلا رضا پہلے دن سے متحرک ہیں اور ان پر یہ الزامات بھی لگ رہے ہیں کہ وہ مبینہ طور پر ریاستی مشینری پر بھی اثر انداز ہو رہی ہیں۔

اگر ظہیر اور اس کی فیملی کا کسی مافیا سے تعلق ہوتا تو یہ ممکن نہیں ہے کہ سندھ کی ایک طاقتور سابق صوبائی وزیر اور موجودہ ڈپٹی اسپیکر کے مبینہ دباؤ اور بھرپور عدالتی ایکشن، جس میں ایک صوبے کے آئی جی پولیس کو بھی تبدیل کر دیا گیا ہو، کے باوجود گینگ نما کچھ چیز کا سامنا آنا تو درکنار، کوئی ایک اشارہ بھی نہ مل سکا۔ اگر گینگ کے معاملے میں کوئی سچائی ہوتی تو گزشتہ تین ماہ سے جس طرح پوری ریاستی مشینری متحرک تھی، لازما گینگ پکڑا جاتا یا کم ازکم کچھ نہ کچھ ایسی چیزیں لازمی طور پر سامنے آ جاتیں، جو کہ اس الزام کو تقویت دینے کے لیے کافی ہوتیں۔ لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا بلکہ ہر گزرتے دن کے ساتھ یہ تاثر مزید گہرا ہوتا جا رہا ہے کہ ایسا کچھ بھی نہیں ہے، اور معزز عدلیہ بھی ایسے ریمارکس دے چکی ہے، جس سے اغوا کے تاثر کی نفی ہوتی ہے۔

اب ہم دعا زہرہ کے والدین کے رویے کا جائزہ لیں تو انہوں نے سب کچھ معلوم ہونے کے باوجود مختلف ہتھکنڈے استعمال کرتے ہوئے کیس کو مسلکی رنگ دینے کی کوشش کی ہے، کیس کے شروع میں انہوں نے دعا زہرہ کی گمشدگی کے اعلان کی بنیاد پر مسلکی ہمدردیاں بٹورنے کی کوشش کی اور جس میں وہ کافی حد تک کامیاب بھی ہوئے، حالانکہ دعا زہرہ کے بیانات کے مطابق اس کے والدین تمام معاملات سے آگاہ تھے۔ اس کے باوجود جس انداز میں دعا زہرہ کے والدین نے اس کیس کو لڑا ہے، اس کے نتیجے میں ہم دیکھتے ہیں کہ مسلکی بنیادوں پر کیس پر مبینہ طور پر با اثر افراد نے اثر انداز ہونے کی کوشش کی ہے۔ اور دعا زہرہ کے والدین اپنی انا کی تسکین کی خاطر مسلکی منافرت کو بھرپور انداز میں استعمال کر رہے ہیں۔

تاہم، اس کیس کا دردناک اور افسوسناک پہلو یہ ہے کہ اس سارے معاملے میں دعا زہرہ کی خواہشات بری طرح کچلی گئی ہیں، دعا زہرہ، جسے بین الاقوامی انسانی حقوق کے چارٹر کی دفعہ نمبر 1 تا 10 اور 16 اور پاکستانی قوانین کے تحت تمام انسانی حقوق حاصل ہیں، موجودہ صورتحال میں وہ عدلیہ اور والدین کے درمیان ایک فٹبال بن کر رہ گئی ہے، اور اس کے معصوم احساسات اور جذبات کو بری طرح کچل کر رکھ دیا گیا ہے۔

بچے شرعی اصولوں کے تحت بھی والدین کے پاس امانت ہوتے ہیں، نجانے والدین ان کو اپنی ملکیت کیوں سمجھ بیٹھتے ہیں؟ بظاہر دعا زہرہ کا فیصلہ ان کو برا ہی کیوں نہ لگتا ہو، لیکن والدین کو اسے قبول کرنا چاہیے تھا نا کہ اس طرح مسلکی تعصبات میں بہہ کر اپنی معصوم بیٹی کا میڈیا ٹرائل کرتے اور نہ ہی اسے اس کم عمری میں یوں عدالتوں میں رسوا کرتے بلکہ اس کو اعتماد اور بھروسا دیتے جو کہ شرعی اصولوں کے مطابق بھی اور پاکستانی اور عالمی قوانین کے تحت بھی ان کا فرض بنتا ہے، کیوں کہ بچے خدا کی امانت ہیں، آپ کی ملکیت نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments