انسانیت سوز بے کفن لاشیں


قدرتی آفات کو روکنا ناممکن ہے۔ اللہ کے کام اللہ ہی بہتر جانے مگر آج کے دور میں ان آفات سے پہلے جدید آلات کو بروئے کار لا کر موسم کہ مزاج کی پیشن گوئی سے عوام کو آنے والی قدرتی آفات اور ان کے نتیجے میں ہونے والی تباہی سے آگاہ کر سکتے ہیں اس جدید دور میں بھی پاکستان کے اکثر علاقوں میں قدرتی آفات سے ہر سال اربوں روپے کا جانی اور مالی نقصان ہوتا ہے۔

اقتدار کی جنگ میں جنتا ہمیشہ پستی رہی پسماندہ علاقے مزید پسماندہ ہوتے جا رہے ہیں۔ قحط اور قدرتی آفات سے بچ نکلنے والے لوگ ہزاروں سال پیچھے چلے جاتے ہیں۔ ایسا نہیں کہ ہمارے ملک میں ایسے جدید موسمی پیشن گوئی کے ادارے یا اداروں میں ایسے آلات نصب نہیں ہیں جو کسی قسم کے ہنگامی حالات کے لئے پہلے سے ہی باخبر کر دیں۔ گلگت سے گوادر اور چترال سے کراچی، پورا ملک اس وقت شدید سیلابی صورتحال سے گزر رہا ہے۔ مگر عوامی نمائندے ہیں کہ بیانیوں کی بے ڈور پتنگ کے پیچھے بھاگے جا رہے ہیں۔

آئین، جو کہ ریاست کو ماں کا درجہ دیتا ہے، سیاسی قیادت رعایا کے بارے میں فکرمند ہونے کے بجائے آئین کی من پسند تشریح کے لیے کوشاں ہیں۔ پشاور کے علاقے حسن گڑھی کی دو برس کی سارا کی اوندھے منہ پانی پر تیرتی لاش عوامی نمائندوں سے سوال کر رہی ہے کہ کیا آپ کی کرسی میری میت سے زیادہ اہم ہے؟ اقتدار کا جلسہ میرے کفن سے زیادہ ضروری تھا؟ دور دور تک مٹیالے سیلابی پانی میں صرف ننھی سارا کی لاش ہی نہیں بلکہ ہمارا نظام تیر رہا تھا۔ جس کے گرد سیاسی مفادات اور الزامات کا کیچڑ ہے۔ جو نفرتوں کی دلدل میں پوری طرح دھنس چکا ہے۔

28 جولائی کو بلوچستان میں ہونے والی طوفانی بارشوں اور پھر اس کے بعد سیلاب کی وجہ سے بے گھر ہونے والے سینکڑوں خاندان اب تک مشکلات سے دوچار ہیں۔ متاثرہ علاقوں میں بعض گھروں کے ملیا میٹ ہونے سے متعلق جو ویڈیوز اور تصاویر وائرل ہو رہیں ہیں، انھیں دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ جیسے پہلے وہاں گھر نہیں بلکہ برساتی نالے تھے۔

بلوچستان ایمرجنسی سیل کے مطابق مون سون کی حالیہ بارشوں کے باعث بلوچستان کے ضلع کوئٹہ، پشین، قلعہ سیف اللہ، قلعہ عبداللہ، سبی، واشک، چمن، آواران، نوشکی، زیارت، شیرانی، ہرنائی، جعفر آباد، ژوب، ڈیرہ بگٹی، خضدار، مستونگ، پنجگور، کوہلو اور لسبیلہ میں ہلاکتیں ہوئی ہیں۔ حالیہ بارشوں سے چھ ہزار سے زائد مکانات کو مکمل یا جزوی طور پر نقصان پہنچا ہے۔

یہاں ہر سال برسات میں طوفانی بارشیں، سردیوں میں ہر دوسرے دن برف باری اور سخت ترین سردیاں تو مشہور ہیں مگر برسات میں قیامت خیز سیلابی ریلے اتنی شدت سے پہلے کبھی نہیں دیکھے۔

یہ طوفانی بارشیں اور سیلاب ہر سال دن بدن شدت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ اور ہر سال اسی شدت سے نقصان اٹھایا جاتا ہے۔

جہاں زندگی ہے پہلے ہی بہت دشوار ہے وہاں اس طرح کے مسائل عوام کے لیے موت سے بدتر ہے۔

حکومت اور پاک فوج ان علاقوں میں ریلیف کی فراہمی کے لیے ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں مگر کیا ہی اچھا ہو کہ ان آفات کے آنے سے پہلے ہی علاقہ خالی کروا لیا جائیں۔

اس وقت ہزاروں شہری بے گھر ہوچکے ہیں، سیکڑوں خاندان اجڑ گئے ہیں، عمر بھر کی جمع پونجی کیچڑ اور سیلاب کی نذر ہو چکی ہے۔ درجنوں قیمتی جانوں کو پانی تنکوں کی مانند بہا کر لے گیا۔ بے یار و مددگار اہل وطن حکومت کی جانب دیکھ رہے ہیں۔ وہی حکومت جس میں جماعت اسلامی کے سوا تمام سیاسی جماعتیں موجود ہیں۔ مگر ایک ایسے وقت میں جب شہروں، دیہاتوں کو سیلاب بہا کر لے جا رہا ہے، میدان عمل میں پاک فوج کے جوان اور جماعت اسلامی کے کارکنان ہی نظر آرہے ہیں۔

طوفانی بارشوں کی زد میں آنے والے علاقوں سے نشیب کی طرف آتے ہوئے پانی پر تیرتی ہوئی انسانوں اور جانوروں کی لاشوں کی ویڈیوز انتہائی دلخراش ہیں۔ اس پانی پر بہتی ہوئی لاشیں ٹھیک ہے جی کر حکومت وقت سے گریا کر رہی ہیں کس سب سیاسی جماعتیں ایک ہو کر ملک اور عوام کی اس مشکل گھڑی میں انسانیت کا علم اٹھا کر ایک قوم بن کر سامنے آئیں اور جو لوگ بچ گئے ہیں ان کو محفوظ مقامات پر پہنچایا جائے اور ان کے لیے زندگی آسان کی جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments