تامل ناڈو اور وادی سندھ: جہاں پچیس سو سال پرانا ایک کھیل اب تک مقبول ہے


1999 ء میں ہندوستان کے سفر میں جو جانا، جو سنا، جو سمجھا، اس کی ایک جھلک پیش ہے۔

حال ہی میں ہندوستان ٹائم اخبار نے ایک رپورٹ شائع کی ہے۔ جس کے مطابق جدید ترین تحقیق سے یہ بات ظاہر ہو رہی ہے کہ تامل ناڈو اور وادی سندھ کی تہذیبوں میں بے حد مماثلت پائی جا رہی ہے۔ اب اس پر عالمی سطح پر بھی تحقیق شروع ہو چکی ہے۔ تامل ناڈو میں حالیہ کھدائی کے دوران ایک گاؤں سے ملنے والی آرٹ کی بہت سی چیزیں ایسی ہیں جو کھدائی کے دوران وادی سندھ کے بھی مختلف مقامات سے ملی ہیں۔ ان کی تعداد پندرہ ہزار سے بھی زائد ہے۔ اس بنیاد پر ماہرین کا یہ خیال ہے کہ یہ لوگ وادی سندھ سے جنوبی ہندوستان آئے تھے بنیادی طور پر یہ لوگ دراوڑ نسل سے تعلق رکھتے تھے۔

تحقیق سے ایک اور بات یہ ثابت ہوئی کہ ان لوگوں کا تعلق ہندو مذہب سے نہیں تھا۔ تامل ناڈو میں کھدائی کے دوران کوئی ایسی چیز نہیں ملی جس سے یہ کہا جا سکے کہ وہ لوگ مذہبی طور پر ہندو مت کے ماننے والے تھے۔

میں نے جب اسے مزید جاننا چاہا تو مجھے پتہ چلا کہ چھٹی صدی قبل مسیح سے پہلی صدی قبل مسیح یعنی اڑھائی ہزار سال پہلے تک تامل ناڈو کے لوگوں کا وادی سندھ میں آنا جانا تھا۔ تاریخ کی کتابوں میں یہ لکھا ہوا ہے کہ وادی سندھ میں پیدا ہونے والی کپاس سے جو کپڑا بنایا جاتا تھا وہ فراعین مصر مردوں کو محفوظ کرنے کے لیے استعمال کرتے تھے۔ اس طرح تامل، وادی سندھ اور مصری تہذیب کے آپسی تعلق کی نشاندہی ہوتی ہے۔

بھارت میں شائع ہونے والے ایک اخبار دی ہندو نے ستمبر 2019 ء میں ایک تفصیلی رپورٹ شائع کی ہے جس میں یہ بتایا گیا کہ وادی سندھ اور تامل ناڈو کی تہذیب کے درمیان بہت زیادہ مماثلت پائی جاتی ہے 1۔ بہت سے ماہرین کا خیال ہے کہ یہ دونوں تہذیبیں آپس میں بہت ملتی جلتی تھی۔ میں نے تامل کے علاقے میں پائے جانے والے آثار قدیمہ اور موہن جو داڑو اور ہڑپہ کی تصاویر کا موازنہ کیا، مجھے ان میں بہت زیادہ مماثلت نظر آئی لیکن جب تک اس کا کوئی سائنسی ثبوت سامنے نہیں آتا تب تک کوئی بات حتمی طور پر نہیں کہی جا سکتی۔

میں نے بھی مشاہدہ کیا کہ وادی سندھ کے رہنے والے لوگ جس طرح کے بیل پالتے ہیں وہ تامل ناڈو کے بیلوں سے خاصے ملتے جلتے ہیں۔ اگر میں کپڑوں کے حوالے سے بات کروں تو یوں لگتا ہے کہ جیسے مدراسی پرنٹ بہت مشہور تھے بالکل اسی طرح وادی سندھ میں اجرک کا پرنٹ بھی بے حد مشہور ہے۔ اس طرح کی کئی چیزیں ماہرین کے نظریے کو ماننے میں معاون ثابت ہو رہی ہیں۔

آپ یہ نہ سمجھیے کہ میں زبردستی تامل ناڈو اور وادی سندھ کو آپس میں رشتہ دار ثابت کرنے کی کوشش کر رہا ہوں۔ جہاں سائنس دانوں نے اپنے خیالات ظاہر کیے وہاں مجھے بھی تو اپنا خیال ظاہر کرنے کا اختیار ہے۔ اس وقت تک یہ سب مفروضہ ہے جب تک کوئی سائنسی ثبوت سامنے نہیں آ جاتا۔

انا اسحاق نے اس موضوع پر ایک تفصیلی مضمون لکھا ہے جس کا عنوان ہے
Major discovery in Tamil Nadu ’s Keezhadi: A possible link to Indus Valley Civilisation

اس مضمون میں انا اسحاق نے اس بات کی کھوج کی ہے تامل ناڈو سے ملنے والے آثار قدیمہ سے اس بات کا ثبوت ملنے کا کافی امکان ہے کہ اس علاقے کا وادی سندھ سے ایک گہرا تعلق رہا ہے 2۔

اس بارے میں اروا تھام مایدوان نے اپنی کتاب
Early Tamil Epigraphy from the Earliest Times to the Sixth Century A.D.

میں اس بات کو ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ یہ دونوں علاقے زمانہ قدیم سے ایک دوسرے کے ساتھ رابطے میں رہے ہیں۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ اس بات کا قوی امکان ہے کہ جب کسی وجہ سے سندھ میں بسنے والے لوگ مشکل میں تھے تو انھوں نے تامل ناڈو کی طرف نقل مکانی کی اور اسی طرح کا رہن سہن یہاں شروع کیا۔

تامل ناڈو میں ایک بہت ہی دلچسپ کھیل کھیلا جاتا ہے جسے جالی کاٹو کہتے ہیں۔ اس کھیل کے کئی اور نام بھی ہیں یہ ایک صدیوں پرانا کھیل ہے۔ میں نے اس کی کئی ویڈیو دیکھی ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ انتہائی خطرناک کھیل ہے۔ اس کھیل میں ایک طاقتور اور بڑے بڑے نوکدار سینگوں والے بیل کو مجمع میں کھلا چھوڑ دیا جاتا ہے۔ درمیان میں کافی کھلی جگہ ہوتی ہے جہاں لوگ اسے تنگ کرتے ہیں جس پر بیل مشتعل ہو جاتا ہے اور لوگوں کو مارنے دوڑتا ہے۔

لوگ بچنے کے لیے ارد گرد لگے جنگلوں کے پیچھے چلے جاتے ہیں۔ کچھ لوگ بیل کے سامنے بھی آ جاتے ہیں۔ اس کھیل میں بیل کو قابو کرنا لوگوں کے لیے ایک چیلنج ہوتا ہے۔ کچھ وقت کے بعد بیل تھک جاتا ہے تو پھر کوئی نوجوان آگے بڑھتا ہے اور اس کی کمر کے ابھرے ہوئے حصے آپ اسے بیل کا کوہان بھی کہہ سکتے ہیں کو پکڑ کر اس کے ساتھ لٹک جاتا ہے اور پھر دونوں میں مقابلہ ہوتا ہے۔ بیل آدمی کو گرانے کی کوشش کرتا ہے۔ اور اسے قابو کرنے کی اس کشمکش میں کافی وقت گزر جاتا ہے۔ بالآخر بیل تھک کر ایک جگہ پر رک جاتا ہے۔ اس پر کھیل ختم ہو جاتا ہے۔ اس کھیل میں لوگ زخمی بھی ہو جاتے ہیں۔ کچھ لوگ اس کھیل کے خلاف ہیں اور وہ سپریم کورٹ تک گئے۔ عدالت نے اس کھیل پر محدود پابندی بھی لگائی ایک صدیوں پرانے کھیل کو ختم کرنا مشکل ہو تا ہے۔ یہی اس کھیل کے ساتھ بھی ہوا۔

اگر آپ بھی خوبصورت بیل دیکھنے اور قابو کرنے والا منظر دیکھنا چاہتے ہیں تو اس کے لیے سوشل میڈیا پر بے شمار ویڈیوز موجود ہیں۔ پہلی مرتبہ یہ کھیل آج سے پچیس سو سال پہلے کھیلا گیا تھا۔ میں نے ایک ویڈیو دیکھی جس میں ایک بیل تھک کر کھڑا ہو جاتا ہے، اس دوران اس کا مالک آتا ہے اور وہ بیل کے منہ کو اپنے کندھے پر رکھ کر اسے پیار کرتا ہے اور بیل بھی اس کے ساتھ بے حد محبت کا اظہار کرتا ہے۔

مجھے یاد ہے کہ میرا خاندان تقسیم ہند سے پہلے خوبصورت بیل پالنے کے سلسلے میں علاقے بھر میں مشہور تھا۔ میرے پردادا علی بخش مانگٹ ایک مانے ہوئے بیل شناس تھے۔ ہمارا آبائی علاقہ ریاست پٹیالہ کا شہر سرہند تھا۔ تقسیم ہند کے بعد میرے دادا جان نے پنڈی بھٹیاں میں اپنے بھائیوں کے ساتھ مل کر کاشتکاری شروع کی۔ اس دوران میں بھی ان کے پاس جایا کرتا تھا۔ دادا جان نے بڑے خوبصورت بیل رکھے ہوئے تھے جو مجھے بے حد پسند تھے۔ میں ان سے اسی طرح سے پیار کرتا تھا جیسے بچے آپس میں ایک دوسرے سے پیار کرتے ہیں۔ میں اب بھی خواہش رکھتا ہو کہ زندگی رہی تو میں بھی اپنی خاندانی روایت کا پاس رکھتے ہوئے بیل پالوں گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments