زندگی اور موت کے درمیان چند تصویریں


زندگی اور موت کے درمیان چند تصویریں سر عمیر غنی کی یادداشتوں پر مبنی تیسری کتاب ہے۔ عمیر غنی کا نام فوٹوگرافی میں کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ اب تک ان کی تین کتب شائع ہو چکی ہیں۔ پہلی کتاب ”تصویر کا دوسرا رخ“ جو فوٹوگرافی پر مختصر مضامین پر مشتمل ہے۔ دوسری کتاب ”فوٹوگرافی“ (فنی اور تخلیقی پہلو) ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ مختلف ادبی جرائد میں افسانے بھی لکھ رہے ہیں۔

زندگی اور موت کے درمیان چند تصویریں پڑھنے سے پہلے سب سے پہلا خیال اس وقت کا آیا۔ جب تصویر کھینچتے اور بنواتے طرح طرح کے فتوے لگتے تھے۔ فتویٰ لگانے والے بھی بہت قریب دوست ہوتے تھے۔ اگر بھول کر کوئی کسی کے گھر چلا جاتا اور اس کے گھر کوئی تصویر یا پینٹنگ دیکھ لیتا۔ تو توبہ توبہ کر کے تصویر میں جان ڈالنے کا کہا جاتا۔ چاہے وہ قدرت کے حسین مناظر ہوتے یا پھر کوئی بزرگوں کی یادگار تصویر۔ سب کے متعلق ایک سا بیان ہوتا۔

جب میزبان بے چارہ ہکا بکا کبھی دوست اور کبھی تصویر کو دیکھتا تو خود کو جہنم کی آگ میں جلتا دیکھتا۔ اور آئندہ تصویر بنوانے سے توبہ کر لیتا۔ لیکن تصویریں پھر بھی پورے ذوق و شوق سے بنتی رہیں۔ فتویٰ دینے والے خود بھی کیمرے کے سامنے آ کر سب بھول جاتے اور گردن اکڑا کر تصویر بنواتے۔ وقت گزرنے کے ساتھ تصویر والے سارے فتوے دم توڑ گئے۔ اب ہر لمحے کی یاد کو موبائل میں محفوظ کرنا ضروری ہو گیا ہے۔ اب خال خال ایسے لوگ ملتے ہیں جو موبائل لیے اٹھتے، بیٹھتے، سوتے جاگتے، کھاتے پیتے اور کہیں آتے جاتے سیلفی لینا نہ بھولتے ہوں۔ تصویر کے بغیر سب یادیں ادھوری لگتی ہیں لیکن زندگی اور موت کے درمیان چند تصویریں ایک فوٹوگرافر کی ایسی یادوں کی کتاب ہے۔ جو رنج و الم میں ڈوبی اور خوشی کے رنگ بکھیرتے نغموں کے ساتھ قدرت کے حسین مناظر کا عکس دکھاتی ہیں۔

کتنی گرہیں کھولی ہیں میں نے
کتنی گرہیں باقی ہیں

ان یادوں میں ایک طلسماتی جہاں آباد ہے۔ یاد کوئی بھی، کسی رشتے کی ہو یا پھر کسی خاص جگہ کی۔ لکھ کر ان بھولی بسری یادوں کو الفاظ کی شکل میں ڈھالنا بہت تکلیف دہ کام ہے۔ کیونکہ ان یادوں میں ایک گہرا کرب چھپا ہوتا ہے۔ حساس انسان کے لیے یادیں لکھنا اور پڑھنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ زندگی کی تلخ و شیریں حقیقتوں سے فرار ممکن نہیں۔ مجھے اس کتاب میں شامل چودہ یاد داشتوں میں ایک یادداشت ہمیشہ یاد رہے گی۔ ”عدنان“ ایک بھائی کی غم افروز یاد۔

جہاں کمرے کے باہر زندگی رواں دواں ہے اور اندر سسک رہی ہے۔ اپنوں کے غم اور ان کے بچھڑنے کے لمحات بیان کرنا بہت درد انگیز ہوتا ہے۔ کچھ یادیں ایسی ہوتی ہیں جو انسان کو ہمیشہ اپنے حصار میں لیے رکھتی ہیں۔ یہ ایک طرح سے عکسی یادیں ہیں۔ مجھے یہ عکسی سے زیادہ افسانوی یادیں لگیں۔ وہ اس لیے کہ حقیقت کو افسانے کی شکل میں عمیر غنی نے بہت عمدگی سے بیان کیا ہے۔

اگر آپ فوٹوگرافی کے ساتھ سیاحت اور عمدہ نثر نگاری پڑھنے کے شوقین بھی ہیں۔ تو ”زندگی اور موت کے درمیان چند تصویریں“ کتاب کو ضرور پڑھیں۔ کتاب ”فوٹوگرافک سوسائٹی آف پاکستان“ سے شائع ہوئی ہے۔

کتاب کے حصول کے لیے ریڈنگز لاہور سے رابطہ کیا جا سکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments