عقل سے پنجہ آزما ملائیت


اس دنیا کا یہ المیہ رہا ہے کہ یہاں صاحبان عقل و خرد کی بات سننے اور ان کو ماننے والے اقلیت میں رہے ہیں۔ وہ لوگ جو اس دھرتی کا زیور اور اس کے اسرار و رموز سے واقف ہوتے ہیں، ان کے لئے سب سے بڑی یہی آزمائش رہی ہے، کہ زمانہ ان کی مخالفت پہ ہمیشہ کمربستہ رہ کر ان کے لئے عرصہ حیات کو تنگ کر دیتا اور وہ دربدر اور کبھی پابند سلاسل رہ کر اپنے علم سے مستفید کیے بنا ہی اس دار فانی سے رخصت ہو جاتے رہے، جس کا سلسلہ ہنوز جاری ہے۔

آپ سقراط کو دیکھ لیجیے یا گلیلیو کو، ابن رشد کی زندگی کا مطالعہ کر لیجیے یا باچا خان کی طرف دیکھیں، یہ تمام عظیم لوگ جو اپنی قوم کو علم اور شعور جیسی صفات سے بہرہ مند کرنے کی جدوجہد کر رہے تھے ان سب کو کس طرح کے مصائب جھیلنا پڑے وہ اہل علم سے مخفی نہیں ہیں۔ اور ان مصائب کی وجہ بادشاہان وقت تھے جو اس بات سے ہمیشہ شاکی اور خائف رہے ہیں، کہ ان کی قوم اور رعایا شعوری طور پر بیدار نہ ہونے پائے۔ کیونکہ اگر قوم شعوری طور پر بیدار ہو گئی تو پھر وہ سوالات اٹھائے گی، پھر وہ کاروبار سلطنت میں اپنا حصہ طلب کرے گی، پھر وہ سیاست کو اشرافیہ کے محلات سے اٹھا کر، گلی کوچوں اور تھڑوں تک لے آئے گی۔

لہذا حالات کو اس نوبت تک پہنچنے سے پہلے، وہ دفاعی بندوبست کے بارے میں تدابیر اختیار کرتے ہیں، تاکہ اس سیلاب کا رخ اس کے محل کی جانب ہونے کی بجائے دائیں بائیں ہو کر منتشر ہو جائے۔ چنانچہ اپنے نوجوانوں کو گمراہ کرنے، ان کی شعوری اور فکری صلاحیتوں کو سلب کر کے ان کو ناکارہ بنانے کے لئے جو تیر بہدف نسخہ ہر دور میں اور ہر معاشرے میں مستعمل رہا ہے، وہ ملائیت اور رہبانیت کا استعمال ہے، جو دولت اور شہرت کے پجاری ہونے کے ساتھ عقل و شعور کے بھی مخالف ہوتے ہیں۔

چنانچہ ہر دور اور ہر مذہب کے اندر ملائیت اور رہبانیت کا یہی شیوہ رہا ہے، کہ اپنے دور کی ترقی پسند آوازوں کے خلاف سینہ سپر ہو کر ان کے اثرات اور نفوذ کو غیر موثر کر کے اپنے دور کی جابر اور غاصب قوتوں کا دست و بازو بن کر ان کے تاریک دور کو طوالت دینے میں ان کی مدد کرنا ہے۔ اور یہی طریقہ ہمارے ملک میں بھی کامیابی کے ساتھ قیام سے لے کر اب تک زیر استعمال ہے۔ یہ ملائیت اور رہبانیت کے پرچارک ضروری نہیں کہ کسی خاص فرقے، مسلک یا حلیے سے آراستہ ہوں، بلکہ یہ ایک خاص سوچ، نظریے اور فکر کا نام ہے جس کا مقصد سوچ کی حوصلہ شکنی، سوال کی تحقیر، فکر پر پہرہ، ترقی میں مزاحمت اور انسان کو جبر کا درس دے کر اسے ہمیشہ کے لئے محکوم رکھنا ہے۔

اس خاص طرز فکر کو ہمارے یہاں اس نہج پر ترویج دی جاتی ہے، جس کی بدولت یہ ملائیت معاشرے میں قبول عام کا درجہ حاصل کر کے عوام الناس کو اپنا گرویدہ بنا لیتی ہے اور پھر ان افراد کی دیوتا کی مانند پوجا شروع ہوجاتی ہے، کہ یہ دن کو رات بولیں تو پجاری اس پہ ایمان لے آتے ہیں۔ اس کے لئے ملا طارق جمیل کبھی استعمال ہوتا ہے تو کبھی ملا اوریا مقبول جان، ایک طرف ملا ثاقب مصطفائی تو دوسری طرف ملا ضمیر اختر نقوی، کہیں اس صف میں خلیفہ ہارون الرشید ملتا ہے، تو کہیں مصنوعی غصہ سجائے حسن نثار نظر آتا ہے۔

قصہ کوتاہ یہ کسی بھی نام سے ہوں اور کسی بھی مسلک سے، بنیادی کام عقل دشمنی، حریت فکر و قلم کی بیخ کنی، فرضی کہانیاں گھڑنا، دروغ گوئی کو عبادت کے درجے میں سمجھ کر معاشرے کو گمراہ کرنا، بد کردار جمہوری روایات کے دشمن آئین کے غداروں کو اقبال کا شاہین اور کپتان بنا کر ان کو مقبول بنانا، خلافت کے احیا کے پردے میں شخصی آمریت کے فضائل سنانا، عامتہ الناس کے مسائل کو چھوڑ کر اشرافیہ کے حق میں مہمات چلانا، فرقہ واریت کو فروغ دینا، بنیادی مسائل کو چھوڑ کر قبر، حشر، جنت اور جہنم کی الجھنوں میں الجھانا، صوفیوں کی طویل مگر بے مقصد ریاضتوں کے قصے سنا کر داد وصول کرنا، لایعنی کرامات سنا کر وقت کا ضیاع وغیرہ شامل ہے۔

ہم اگر ان کی محافل کا تجزیہ کریں اور کچھ دیر کے واسطے غور کریں کہ جن بزرگان دین کے قصص سنا سنا کر یہ ہماری عقول کو ماؤف کرتے ہیں، ان کی سماعت سے ایک عام انسان کی زندگی میں کیا بہتری آ سکتی ہے؟ کیا ایسی محافل میں جانے اور ان عقل دشمنوں کے دروس سن کر ایک عام انسان کے بنیادی مسائل حل ہو جاتے ہیں؟ کیا معاشرے میں اس کام سے جہالت کم کرنے میں مدد مل سکتی ہے؟ کیا ان محافل میں وقت برباد کر کے یکساں روزگار، تعلیم اور ترقی کے دروازے کھولے جا سکتے ہیں؟

تو ان تمام سوالات کا جواب ہے نہیں۔ یہ سب کچھ تو ممکن نہیں، تاہم ان ملاؤں، صوفیوں کی صحبت میں بیٹھنے سے ایک عملی اور ذمہ دار انسان بے عمل اور غافل ضرور ہوجاتا ہے، جس کا ذہن ہمیشہ کسی معجزے کے انتظار میں رہتا ہے، اور جو اس امید پر اپنی زندگی ضائع کرتا رہتا ہے کہ ایک دن یونہی وہ رات کو سو کر جب صبح اٹھے گا تو خوشحالی اس کا آنگن میں انتظار کر رہی ہوگی اور خوشیاں اس کی جھولی میں آن گریں گی۔ لہذا اس سراب کے پیچھے بھاگنے کو وہ ترجیح دیتا ہے، لیکن کسی عقل مند کی بات سننا اسے گوارا نہیں، کیونکہ ہماری اکثریت عقل پرستوں سے نفرت اور ان جہلاء سے محبت کرتی ہے۔

جس کی بایں وجہ تن آسانی، اجتماعی فرائض سے فرار، حور و شمائل کی رغبت، کار دنیا کو وقت کا ضیاع، محنت کی بجائے چندے اور خیرات پر یقین، مذہبی تصورات وغیرہ کا وہ فرسودہ نظام جس میں ایک عام انسان کے لئے بے پناہ کشش ہے۔ اور دوسری طرف ذات کی آگہی، معاشرتی ذمہ داریوں کی ترغیب، انفرادیت کی بجائے اجتماعیت کا تصور، فرضی عشق کی بجائے عقل کی حکمرانی، رہبانیت کی بجائے عمل پر زور، لایعنی ریاضت اور قصص کی بجائے اس دنیا کو بہتر بنانے کی باتیں، حور و غلمان کی بجائے اپنے اردگرد انسانوں سے پیار کی باتیں، جو تصور کی بجائے عمل کا حکم دیں تو بھلا ان حکماء اور ارباب دانش کی طرف کون متوجہ ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments