ہینی بال


ایک طرف رومی فتوحات میں مصروف عمل تھے تو دوسری طرف قرطاجن بھی اپنی سلطنت کو وسعت دینے کے لیے ادھر ادھر کوششیں کر رہے تھے۔ رومی اور قرطاجن کی مہمات کے نتیجے میں ہم قرطاجنہ کو رومیوں کے خلاف ایک روایتی حریف کہہ سکتے ہیں۔ اگرچہ قرطاجن جزیرہ سسلی سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے اور وہاں رومی قدم مضبوط ہوچکے تھے لیکن ہملکار اس جزیرہ کے نعم البدل ہسپانیہ (سپین) میں جگہ بنا چکا تھا۔ یہ معرکہ ایک طرح سے رومیوں کے ہاتھوں شکست کا بدلہ تھا۔

قرطاجنہ کا جرنیل ہملکار اپنی تنخواہ دار فوج کے ساتھ ہسپانیہ کو اپنے کنٹرول میں لا چکا تھا۔ ہملکار کی موت کے بعد جانشینی اس کے بھائی ہیسدروبال کو میسر آئی اور مہمات کے دوران ہیسدروبال کے انتقال کے بعد ہملکار کا بیٹا کماندار ہوا۔ اس نوجوان کا نام ہینی بال تھا جو رومیوں کے لیے سخت نفرت اور انتقام رکھتا تھا۔ وہ پہلے دن سے ہی رومیوں کو زیر کرنے اور ان سے اپنے علاقے واپس لینے کی ٹھان چکا تھا۔ اس کے حوصلے بلند اور عزم مضبوط تھا۔

فوج کی کمان سنبھالتے ہی ہینی بال ساگنٹم پر قبضے کی غرض سے چڑھائی کرنے کے لئے آگے بڑھا۔ خطہ مذکورہ کے باشندوں نے ہینی بال کی پیش قدمی کے خلاف رومیوں سے مداخلت، مدد اور حفاظت کی درخواست کردی۔ ابھی تک رومیوں کو ہینی بال سے کوئی واسطہ نہ پڑا تھا۔ وہ صرف اس نوجوان کو ایک جگنجو سپہ سالار کے روپ میں دیکھ رہے تھے۔ رومی فتوحات اور کامیابیاں سمیٹتے ہوئے کسی کو بھی اپنے خلاف بڑا خطرہ نہیں سمجھتے تھے۔ لیکن ہنی بال رومیوں کو خوب سمجھتا تھا۔ رومیوں سے جنگ اور مہمات کے دوران ایک نئی تاریخ رقم ہونے کو تھی جو ہینی بال کی شکل میں نمودار ہوئی۔

رومیوں نے ہینی بال کو پیغام بھیجا کہ وہ فورا ہسپانیہ اور ساگنٹم سے نکل جائے۔ اسی دوران ہینی بال نے ساگنٹم کا محاصرہ کرنا شروع کر دیا جس کے بعد پورے کا پورا ہسپانیہ قرطاجنہ کے ریز تسلط آجانا تھا۔ قریبا آٹھ ماہ کے عرصے کے بعد قرطاجنہ کے ہیرو ہینی بال کوساگنٹم کی شکل میں فتح نصیب ہوئی لیکن اس سے یہ بات مکمل طور پر واضح ہو گئی کہ اب ہینی بال اور رومیوں کے درمیان جنگ ضرور ہوگی۔ ہینی بال کو شکست دینے کے لئے رومیوں نے فوجیں تیار کیں اور ہسپانیہ کی جانب رخ کرنے کا ارادہ کیا۔ رومیوں کا گمان تھا ان کا سامناہینی بال سے غالباً ہسپانیہ میں ہو گا۔

تاریخ یورپ میں فن حرب و سپہ گری میں ہینی بال کا کوئی مد مقابل نہیں۔ مورخین اس کے قد کاٹھ اور جنگی حکمت عملی کے معترف ہیں۔ رومیوں کے خلاف جتنے عرصے تک قرطاجنہ کے درمیان جنگ جاری رہی وہ ہینی بال کی دلیری، قابلیت اور اس کے بہتر استعمال کا نتیجہ تھی۔ ہینی بال کے موازنے میں سکندر اعظم، نپولین بونا پارٹ اور جولیس سیزر بھی شامل ہیں۔ یہ سبھی جنرلز بھی تاریخ میں ایک مقام و مرتبہ رکھتے ہیں لیکن جو کمال فن حرب ہینی بال کے حصے میں آیا وہ ان میں سے کسی کو نصیب نہیں ہوسکا۔ ہینی بال کے متضاد ان سپہ سالاروں کا واسطہ اپنے سے کمزور حریفوں اور دشمنوں سے پڑا۔ ہینی بال ان سب سے الگ تھا۔ اس نے نہ صرف قرطاجنہ کا مضبوط دفاع کیا بلکہ روما پر متعدد بار حملہ آور بھی ہوا۔ اس عظیم سپہ سالار نے رومیوں کو اس وقت ٹف ٹائم دیا جب وہ اپنے عروج پر تھے۔

رومی فوجیں ہسپانیہ کی طرف پیش قدمی کرنے والی ہی تھیں کہ ہینی بال نے خود اطالیہ پر حملہ کر دیا۔ یہ حملہ ایک طرح کا سرپرائز تھا جس کی توقع رومی نہ رکھتے تھے۔ رومیوں کو جب اندازہ ہوا کہ دشمن خشکی کے راستے کوہ آلپس کو عبور کر کے ان کے دروازے تک آن پہنچا ہے تو ان کو اپنی فوجیں ہسپانیہ سے واپس بلانا پڑی۔ یاد رہے کہ نپولین اور فرانس کے دیگر جنرل کوہ آلپس کو عبور کرنے کے دعویدار ہیں لیکن ہینی بال نے اس وقت کے دشوار گزار راستوں اور دروں کو بغیر نقشوں اور محدود جغرافیائی معلومات کے طے کر کے ثابت کر دیا کہ وہ عظیم جنگجو تھا۔ اس کی فوج میں شامل ہاتھی جو افریقہ کی گرمی کے عادی تھے، ہسپانیہ اور فرانس کی سردیوں میں چل کر اطالیہ تک پہنچ گئے۔

ہینی بال نے جس طرف بھی پیش قدمی کی فتح اس کی مقد ر رہی۔ رومیوں کو بار بار شکست ہوتی رہی حتیٰ کہ ان کی جمہوریت (سینٹ) کی کمر ٹوٹ گئی۔ ہینی بال کے ہاتھوں متعدد بار شکست کے باوجود رومیوں نے ان مہمات کو جاری رکھا۔ اور اپنے اس ریکارڈ کو بھی قائم رکھا کہ وہ اپنی شکست کو فتح میں بدل دیتے تھے۔ ایسا صرف اس لیے ممکن تھا کیونکہ رومی جلد ہی بازی پلٹ دینے والی قوم تھی۔ وہ اپنی کمزوریوں پر جلد قابو پا لیتے اور فتح حاصل کرلیتے تھے۔

ہینی بال کی فتوحات میں یہ عنصر غالب تھا کہ اسے مزاحمت میں کوئی طاقت نہ روک سکتی تھی لیکن جلد ہی رومیوں نے اس کی کمزوریوں کو بھانپ لیا اور اپنی شکست کا حل ڈھونڈ نکالا۔ وہ جان چکے تھے کہ ہینی بال کو صرف محاصرہ کرنے اور جگہ جگہ محدود جھڑپوں سے پریشان کرنے پر ہی وہ فتح یاب ہوسکتے ہیں۔ محاصروں کے ذریعے رومی ہینی بال کو شکست دینے لگے دوسری طرف ہینی بال کو بار بار مقامی لوگوں سے عدم تعاون اور مداخلت کی وجہ سے کئی بار پریشانی کا سامنا کرنا پڑا۔ ایسی مشکلات سے اس کی طاقت میں بتدریج کمی ہوتی رہی۔ ایسے میں بغاوتیں بھی ہوتی رہی۔

رومیوں کی ایک تازہ دم فوج ہینی بال کو ہرانے کی غرض سے مقام کنائے پر اکٹھی ہوئی۔ یہ ایک کثیر التعداد فوج تھی جس میں جدت تھی اور اس کے مقابلے میں ہینی بال کی فوج میں روایتی پن کا عنصر غالب تھا۔ لیکن اس جنگ میں بھی رومیوں کو ذلت آمیز شکست ہوئی۔ جنگ کے اختتام میں صرف چند ہزار رومی فوجی زندہ بچ نکلے۔ اس بدترین شکست نے بھی رومیوں کے عزم کو زیادہ متاثر نہ کیا۔

زاما کے مقام پر ایک بار پھررومی اور قرطاجن ایک دوسرے کے مد مقابل ہوئے۔ اس دفعہ رومی ہینی بال کے داؤ پیچ اور حکمت عملی کو خوب جان چکے تھے۔ سخت لڑائی کے بعد رومیوں کو فتح نصیب ہوئی اور ہینی بال نے قرطاجنوں کے مشاورت سے شکست تسلیم کرلی اور تاوان کے طور پر اپنے چند علاقے اور جنگی جہاز رومیوں کے سپرد کر دیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments