لڑائی لڑتی قوم معاہدہ امن کر لے


موجودہ دنیا کی تاریخ میں جو رول دیگر اقوام کا ہے بالخصوص مغربی دنیا کا، ان کے اثر سے شاید ہی کرہ ارض کا کوئی کنارہ محفوظ ہو۔ دنیا کا کوئی علاقہ ایسا نہیں جو ان سے بالواسطہ یا بلا واسطہ متاثر نہ ہو۔ کہیں ان کی معاشی ترقی چھائی ہوئی ہے تو کہیں ان کی سیاسی ترقی کا بول بالا ہے اور ٹکنالوجی کے میدان کے تو وہ شہسوار بنے ہوئے ہیں۔ اس سے بڑھ کر یہ کہ جہاں کوئی اعلیٰ علمی گفتگو ہو تو انہیں آج بھی حوالہ کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔

چلیں اسے ادھر ہی رہنے دیں۔ آپ میں سے ہر ایک اپنے آس پاس ہی دیکھ سکتا ہے کہ ان کی ایجاد کردہ چیزوں کے ہم سارے بہت بڑے کنزیومرز ہیں، بالخصوص مسلم ممالک تو دیگر اقوام کی ہی مارکیٹز ہیں جہاں ان کی بنی اور دریافت کردہ اشیاء ہی فروخت ہوتی ہیں۔ ان کی ترقی کا یہ عالم ہے کہ اب یہ اقوام مصنوعی ذہانت ( Artificial Intelligence ) والے انسان کی تخلیق پر تلے ہوئے ہیں۔ ایسا کیوں اور کیسے ہوا۔

اس کے کئی جوابات دیے جا سکتے ہیں لیکن اصل اور رہنما جواب تو ایک ہی ہے، وہ قیام امن ہے، اور ہاں باقی ساری وجوہات اور جوابات اس کے ہی ضمیمہ جات بن جائیں گے۔ کیونکہ علمی، فکری، ذہنی، معاشی اور سیاسی ترقی کے لیے امن ہی وہ واحد راستہ ہے جس پر چل کر ہی منزل مل سکتی ہے۔ یوں تو لڑائی جھگڑا، سر پھٹول اور دنگا فساد ہر معاشرہ کا حصہ رہا ہے، جیسے کہ ابن خلدون نے اپنی کتاب المقدمہ میں اس کا ذکر کیا ہے۔ تاریخ عالم میں شاید ہی کوئی قوم ایسی ہو جو جنگ و جدل سے پاک رہی ہو۔ لیکن جھگڑوں کو ہمیشہ کے لیے اپنے دامن سے پیوست رکھنا ہے یا اس سے بچ کر امن کی راہ لیتے ہوئے اپنے اپنے سفر کو رواں رکھنا ہے۔ اس کا انحصار قوم کے عمومی مزاج سے متعلق ہے۔ لیکن حقیقتاً امن کی راہ اختیار کرنا ہر ایک کی ذاتی اور اجتماعی ذمہ داری بھی بنتی ہے۔

مغربی اقوام کی تاریخ بھی حرب و جنگ سے خالی نہیں، بلکہ یوں کہیے کہ دنیا میں جتنی کثرت سے خون ان قوموں نے بہائے ہیں شاید کہ حساب سے باہر ہو۔ خاص کر ان کی مذہبی بنیادوں پر کی گئی بہیمانہ قتل و غارت گری اور اختتام تک نہ پہنچنے والی حروب (relentless war) نے تو انسانیت کی نسلیں ہی مٹائی ہیں۔ یہ مغرب کا پستی اور زوال سے نکلے کے ابتدائی ایام ہی تھے یعنی کہ قرون وسطی کا زمانہ تھا۔ یہ قتل و غارت گریاں جہاں سیاسی اقتدار کے حصول کے لیے ہوتی تھیں وہیں مذہبی متون (religious scriptures) کی ایسی تعبیرات اور تشریحات بھی تھیں، جن میں سے علوم عقلی کا مذہبی زاویہ سے نقطہ نظر کا پیش کرنا بھی تھا، اور یہاں سے ہی غیر دینی فتوی سازی کی دکانیں بھی کھل گئیں۔ ان ہی بنیادوں پر بہت سے سائنسدانوں، مفکروں اور نئے فکر کے حامل دانش وروں اور علماء کا بے تحاشا خون بہایا گیا۔

سنٹرل یورپ میں 1618 ء سے 1648 ء تک کی جنگیں مغربی قوم کی بند آنکھیں کھولنے کے لیے کافی تھیں۔ اس تیس سالہ جنگوں نے ان اقوام کو یہ باور کرایا کہ لڑائی، فسادات اور مذہبی خود ساختہ پابندیوں سے کوئی بھی ترقی ممکن نہیں ہے۔ چنانچہ یہ اقوام اس نتیجہ پر پہنچے کہ کہ آپس میں ایک ایسا معاہدہ کیا جائے جو آئندہ کے لیے کسی بھی پیش آمدہ جنگ کو روکنے کا ذریعہ بنے اور آپس کے مناقشات کو مکالمہ کے ذریعے حل کیا جائے۔ اس کے لئے 1648 ء میں ایک تاریخ ساز معاہدہ کیا گیا جسے معاہدہ ویسٹ فالیہ (Treaty of Westphalia) کہا جاتا ہے۔

یاد رہے کہ یہ جنگیں رومن بادشاہ کا اپنا مخصوص عقیدہ عیسائیت (Catholicism) کو جبرا نافذ کرنے کے نتیجہ میں شروع ہوئی تھیں۔ معاہدہ ویسٹ فالیہ سے اقوام عالم میں ایک نئے دور کا آغاز ہوا، جس کے نتائج آج کے دور میں ہم دیکھ رہے ہیں بالخصوص سائنسی ترقی اپنے نقطہ عروج پر ہے۔

ہمارے دینی ذخیرہ میں بھی ایک عظیم معاہدہ کا ذکر موجود ہے۔ جسے نہ ہم عملاً جانتے ہیں نہ ہماری قوم جانتی ہے۔ اور یہ ایک ایسا معاہدہ تھا جسے خود خالق کائنات نے فتح مبین (manifest victory) کہہ کر مخاطب کیا۔ اور ہاں جانتے بھی ہم کیسے، کیوں کہ، جس کتاب حکیم، قرآن میں اس معاہدہ کی طرف اشارہ ہے اسے ابھی تک ہم نے سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کیں۔ اور نئی نسل میں تو آج کل تلاوت کرنے کا بھی رجحان کم ہوتا جا رہا ہے، جب اس کتاب کے حق کو ہم ادا کرنے پر تیار نہیں تو ہدایت اور امن کیسے ملے گی۔

بہر حال یہ معاہدہ صلح حدیبیہ ( 628 ء) ہے، جسے رسول اللہ ﷺ نے مشرکین مکہ کے ساتھ طے کیا۔ یہ معاہدہ بھی اصلا دس سالہ جنگ بندی کا معاہدہ تھا۔ گو کہ اس معاہدے کے شرائط سے بظاہر اور وقتی لحاظ سے مسلمانوں کی شکست واضح ہو رہی تھی لیکن حقیقتاً ایسا نہیں تھا، اللہ تعالیٰ نے اس ظاہری شکست کے اندر ہی سے ایک عظیم فتح مسلمانوں کے لیے مقدر کیا ہوا تھا، جسے بعد کو مسلمانوں نے فتح مکہ ( 630 ء) کی صورت میں دیکھا، وہ بھی بغیر جنگ و جدل کے۔

اور ہاں یہ سب تو اسی ضمن میں ہی حاصل ہوئے جب قرآن کے بتائے ہوئے اصول الصلح خیر ( النساء : 128 ) ، صلح میں ہی بہتری ہے، پر مسلمان کاربند رہے۔ اس اصول کو جو بھی اپنائے گا اسلام والے یا غیر اسلام والے فائدہ میں رہے گا۔ جیسا کہ اس مضمون میں دو معاہدات کا ذکر ہوا اور اس سے حاصل ہونے والے نتائج پر بھی سرسری نگاہ ڈالی گئی۔

تو کیا صلح اور معاہدہ کی برکت خاص ایک ہی وقت اور زمانہ کے لیے ہے یا کہ اس کے فوائد عام ہیں۔ اگر مسلمانوں کے ہزار سال بعد بھی مغربی اقوام جنگ نہ کرنے اور بھائی چارگی سے رہنے پر معاہدہ ویسٹ فالیہ ( 1648 ء) کر کے عروج حاصل کر سکتے ہیں تو مسلمان قوم آپس میں معاہدات کرنے میں لیت و لعل کا کیوں مظاہرہ کرتے ہیں۔

معاہدات کی اہمیت تو انفرادی سطح پر بھی ہیں اور اجتماعی سطح پر بھی۔ بس کرنا یہ ہے کہ مسلمان عالم پہلے پہل ایسا دینی مزاج اختیار کر لیں جو قرآن اور سنت اور سیرت رسولﷺ کے عین موافق ہو۔ کیونکہ جب تک مکمل دینی مزاج کی کیفیت طاری نہ ہو، کیے گئے معاہدات کی اہمیت بھی فقط کاغذی نوعیت کی ہو کر رہ جاتی ہیں۔ اسی پر قیاس کر کے خود سے سوچیں کہ ہمارا وطن سے کیا گیا معاہدہ ہو، اپنے اداروں سے کیے گئے معاہدات ہوں، مذہبی بھائی چارگی کے قیام کے لیے وجود میں لائی گئی معاہدات ہوں یا ذاتی معاملہ سے متعلق کوئی معاہدہ ہو۔ دینی مزاج نہ ہو تو کوفیانہ صفت ہر انسان میں جڑ پکڑ لیتی ہے، جس طرح امام حسین علیہ السلام سے کیے گئے وعدہ بیعت اور معاہدات کو کوفہ والوں نے نظر انداز کر دیا۔

حالیہ دنوں میں، گلگت میں مذہبی جماعتوں کے درمیان شدید فائرنگ کا واقعہ رونما ہوا جس میں دو جوان جان بحق ہوئے، اس سے پہلے بھی گلگت کی تاریخ میں ایسے ناقابل بیاں اور لاتعداد لاشیں گری ہیں، اس سب کا حل دینی مزاج، جو قرآن کے عمیق نص کے مطالعے سے بنتی ہو، کا اختیار کرنا ہے، اور اس کے بعد آپس میں ایسے امن پر مبنی معاہدات کا دور شروع کیا جائے جس سے علاقہ کو بھی فائدہ پہنچے اور بے گناہ عوام کا قتل کا سلسلہ بھی رک جائے۔ ظاہر ہے جب مکمل امن و سکون آ جائے تو دینی، فکری، سائنسی، سیاسی اور معاشی ترقی کا دور اپنے آپ شروع ہو جائے گا، اور یہ مستقبل کے لیے بھی تاحیات امن کا ذریعہ بنے گا۔

آخری بات یہ کہ امن پسندی کے لیے صوفیانہ تعلیمات اور لٹریچر کو ہر سطح پر عام کرنا سود مند رہے گا۔ اگر اسے پاکستان بالخصوص گلگت بلتستان کی حکومت اپنے تعلیمی نصاب کا حصہ بنائے تو امید واثق ہے کہ قیام امن کا خواب حقیقت میں بدل کر عملاً بہت جلد معاشرے میں نظر آنے لگے گا۔ کاش کان والے حقیقت میں سنتے اور آنکھ والے حقیقت میں دیکھتے!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments