موروثی سیاست کے خلاف نعرے لگانے والا سیاسی خود پرست


پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین سابقہ وزیراعظم عمران کا ستمبر میں ہونے والے ضمنی الیکشن کی نو نشستوں پر خود ہی الیکشن لڑنے کا فیصلہ سن کر پہلا سوال ذہن میں آیا، کیا یہ وہی سیاسی لیڈر ہے جو موروثی سیاست کی مخالفت پہ اپنی سیاسی کیمپین کرتا رہا؟

جس نے حال ہی میں اپنی پارٹی میں قومی اسمبلی کے رکن والد کے بیٹے (رکن قومی اسمبلی) کو صوبائی نشست پر ضمنی الیکشن لڑنے کا ٹکٹ دیا نتیجہ میں خالی ہونے والی قومی اسمبلی کی نشست پہ اسی رکن کی بیٹی کو ٹکٹ دے دیا۔ جس کے نتیجہ میں حلقہ این اے 157 میں پی ٹی آئی کے ورکرز نے اپنی ہی پارٹی کے خلاف موروثی سیاست کی نفی میں پلے کارڈ اٹھا رکھے تھے جو مترادف امیدوار کے سراپا احتجاج کا ثبوت ہیں۔

اس پر چند دوستوں کی رائے ہے کہ کارما عمران خان کا پیچھا رہتی زندگی تک کرے گا۔ اہل عقل اکثر کہا کرتے تھے ”پہلے تولو پھر بولو“ ورنہ ”تھوکا ہوا چاٹنا پڑتا ہے“ ۔

کیا عمران خان، ان کے ہم جماعت، ہم خیال، ہمنوا اور خود کو تحریک انصاف کہنے والے اس نا انصافی کا دفاع کر سکتے ہیں؟ یا پھر میراث کا طعنہ بھی ”سلیکٹڈ“ ہی سمجھا جائے۔ ہاں مگر اس دفاع کی شرط ہے کہ مخالفین کی پگڑیاں اچھالے بغیر، گالی گلوچ کیے بغیر ان سے پوچھے گئے سوال کا جواب دلیل سے دینے والا ہے کوئی انصافی؟

اپنی کہی بات سے پلٹ جانا، چند گھنٹوں یا دنوں کے فرق سے اپنا بیان بدل لینا، اپنی ہی کی ہوئی بات اور فکر سے متضاد عمل پیرا ہونا، ریاستی اداروں کے عہدوں پہ بیٹھے ہوئے کسی شخص کو ایک لمحے میں دیانتداری اور غیر جانبداری کا سرٹیفیکیٹ سے نوازنا اور دوسرے لمحے اسی عہدے اور شخص کو جانبدار گرداننا، متنازعہ بنانا، حریف سیاسی جماعتوں کے اعلی عہدے داران جو رتبے کے اعتبار سے ہم منصب ہوں ان کی ہر لمحہ کردار کشی کرنا، القابات سے پکارنا، یقیناً یہ سب کرنے والا اپنی سیاسی، سماجی و شخصی ساکھ کھو بیٹھتا ہے مگر جب بات آئے عمران خان کی تو یہ کوئی اچمبے یا تعجب کی بات نہیں۔ بلکہ معمول اور حسب معمول اسے حسن کارکردگی اور فخریہ پیشکش کے طور پیش کیا جاتا ہے۔

ایسا ہی ایک راگ موروثی سیاست کے خلاف خان صاحب دہائیوں سے الاپتے چلے آ رہے ہیں۔ حسب عادت ان کی تخیلی بندوق کی شست پہ ان کے دو بڑے سیاسی حریف ایک شریف خاندان اور دوسرا بھٹو خاندان محور بنے رہے۔

ڈاکٹر کی بیٹی/بیٹا ڈاکٹر، بیوروکریٹ کے بچے بیوروکریٹ، پائلٹ کا بچہ پائلٹ، سیاستدان کا بچہ سیاستدان بنتے تو دیکھا سنا ہے مگر ایک ہی ڈاکٹر نو مختلف آپریشن تھیٹر کا سرجن ہو، ایک ہی پائلٹ بیک وقت نو جہاز اڑائے، ایک ہی بیوروکریٹ نو سیٹوں پر مقابلے کا امتحان دے اور ایک ہی سیاسی لیڈر نو اراکین اسمبلی سے استعفے دلوا کر، ان کی مقامی سیاسی ساکھ کو رد کر کے بقلم خود نو ضمنی نشستوں پہ الیکشن لڑنے چل پڑے۔ یہ مثال نہ پہلے کبھی سنی گئی نہ دیکھی گئی۔

چند مخالف احباب شاید تشبیہ ڈھونڈیں گے کہ ایک سے زائد سیٹوں پہ الیکشن لڑنا معمول ہے۔ جبکہ وہ یکسر مختلف فعل ہے جو کہ عام انتخابات میں سیاسی وجوہات کے بنا پر روایت ہے جس کا مرتکب عمران خان بھی 2018 میں متعدد نشستوں سے الیکشن کا حصہ بن کر ہوئے۔

حالیہ صورت حال بتاتی ہے ماضی میں وزیراعظم کے عہدے پہ بیٹھا ”فرد“ حکومت کی مجموعی نمائندگی کرتے ہوئے اپنی تقاریر میں ”میں“ ”مجھے“ ”میں“ ”میرا“ کی گردان پڑھتے ہوئے آج اپوزیشن کی سیاست کرتے ہوئے ”میں“ نو سیٹوں سے بکلم خود ہی ضمنی الیکشن لڑوں گا پہ آن پہنچا۔

وزیراعلی پنجاب کی کرسی پر بھی بیٹھنا ہے، وزارت عظمی بھی واپس چاہیے، ملک گیر نشستوں پہ الیکشن بھی لڑنا ہے اور بس ”میں“ !

قیاس آرائی پہ منحصر شنید یہ بھی ہے کہ 17 جولائی کو جیت سمجھنے کا زعم، مقبولیت کے مغالطے کا غرور یا آئندہ نا اہلی کی لٹکتی تلوار کو ماند کرنے کی حکمت عملی کے طور نو نشستوں پر الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا۔

عام انتخابات 2018 میں عمران خان پانچ قومی اسمبلی کی نشستوں سے الیکشن جیتے تھے مگر اس بار اگر آر ٹی ایس نہ بیٹھا تو! نتیجہ؟

وجہ جو بھی ہو موروثیت کی نفی کا علم اٹھانے والا ذات سے باہر نہ نکل پایا۔

وراثتی سیاست اگر عملی میدان میں کاوش اور محنت سے کمائی جائے تو بلا شعبہ جائز حق ہے۔ مگر اس ”اکائی“ کی ”انفرادیت“ اور ”خود پرستی“ کی انتہا خدانخواستہ سیاسی نظام کو لے ڈوبے گی۔

سلمیٰ بٹ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سلمیٰ بٹ

سلمیٰ بٹ کا تعلق پاکستان مسلم لیگ (ن) سے ہے اور وہ پنجاب اسمبلی کی رکن ہیں۔ ان کی خاص دلچسپی خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے میں ہے۔

salma-butt has 6 posts and counting.See all posts by salma-butt

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments