قومی یوم اقلیت اور اثباتی اقدامات


ملک پاکستان کو وجود میں آئے ہوئے 75 سال مکمل ہونے کو ہیں اور آج بھی پاکستان میں مذہبی اقلیتوں کو اپنے حقوق حاصل کرنے کے لئے جدوجہد نہیں بلکہ جنگ کرنا پڑتی ہے۔ اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے ریاست پاکستان نے انسانی حقوق سے متعلق کئی معاہدوں کی توثیق کی ہوئی ہے اور انسانی حقوق کے متعلق قوانین اور پالیسیاں بھی بنا رکھیں ہیں لیکن ان قوانین پر عمل درآمد ایک حقیقی مسئلہ ہے۔ پاکستانی مذہبی اقلیتیں عدم تحفظ کا شکار ہیں ان کے حقوق کے لئے بنائے گئے ادارے بھی برائے نام دکھائی دیتے ہیں۔

سرکاری طور پر یوم اقلیت منانے کا مقصد تو یہ ہی ہے کہ پاکستان میں اقلیتوں کو تمام تر حقوق حاصل ہیں اور ان کو ہر طرح کی آزادی میسر ہے حکومت نے اقلیتوں کے لئے کئی اثباتی اقدامات اٹھائے ہیں لیکن ان کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے کیونکہ بہت سارے اقدامات قانون سازی کی بجائے نوٹیفکیشن کے ذریعے متعارف کروائے گئے ہیں جس کی وجہ سے ان پر عمل درآمد بھی مشکل ہے اور ان مثبت اقدامات کی مانیٹرنگ کرنا بھی مشکل ہے اس طرح سے اس کے ثمرات نہیں پہنچ پاتے کیونکہ کوئی ذمہ دار ادارہ نہیں ہوتا کہ ان اقدامات پر عمل درآمد کروائے۔

حکومت پاکستان کو چاہیے کہ اقلیتوں کے حقوق کے لئے قانون سازی کے ذریعے ادارے بنائے۔ پاکستان میں انسانی حقوق کے تحفظ اور ان کے مسائل پر بہت سارے ادارے اپنی تحقیقاتی رپورٹس شائع کر رہے ہیں اگر ان رپورٹس پر سرکاری طور پر کام کیا جائے تو حقوق کی فراہمی میں بہتری آ سکتی ہے۔ اقلیتوں کے حقوق کی مانیٹرنگ اور مسائل کی نشاندہی اور ان کے حل کے لئے ملکی سطح پر قومی کمیشن برائے حقوق اقلیت اس کی واضح مثال ہے۔ اس بنائے گئے کمیشن میں سب سے بڑی رکاوٹ یہ ہے کہ اس کمیشن کو باقاعدہ قانون سازی کے ذریعے نہیں بنایا گیا دوسرا یہ کمیشن ان کمشنز مثلاً کمیشن برائے انسانی حقوق، حقوق نسواں، حقوق اطفال وغیرہ کے مقابلے میں کمزور کمیشن ہے اور اس کمیشن کو وزارت برائے مذہبی امور و بین العقائد ہم آہنگی کے ماتحت رکھا گیا ہے جبکہ یہ کمیشن ایک آزاد اور خود مختار کمیشن نہیں ہے۔

اس کمیشن کا کوئی واضح مینڈیٹ نہیں ہے اس کمیشن کے پاس کوئی عملہ یا دفتر نہیں ہے اور یہ کمیشن اقلیتوں کے کسی سانحہ یا مسئلہ پر متحرک دکھائی نہیں دیتا جبکہ اس کمیشن کو نچلی سطح تک فعال ہونے کی اشد ضرورت ہے۔ دنیا بھر میں انسانی حقوق کے تحفظ کے نظام اور محروم طبقات کے حقوق پر توجہ مرکوز کرنے کے لئے سرکاری سرپرستی اور امداد سے خصوصی ادارے کمیشن وغیرہ بنائے جاتے ہیں جن کے اختیارات اور دائرہ کار میں اقلیتوں کو درپیش مسائل پر تحقیق کرنا، اقلیتوں کے حقوق اور اقدامات پر عمل درآمد کی نگرانی، اقلیتوں کے حقوق اور فروغ کے لئے اقدامات اٹھانا، اقلیتوں کے حقوق کی خلاف ورزی کی تحقیقات اور موصول ہونے والی شکایات کا ازالہ، قوانین و پالیسیوں کا جائزہ اور اصلاحات کے لئے سفارشات مرتب اور پیش کرنا شامل ہونی چاہیں۔

حال ہی میں انسانی حقوق کے لئے کوشاں ادارہ برائے سماجی انصاف کی تحقیقاتی رپورٹس میں اقلیتوں کو درپیش مسائل پر بے شمار رپورٹس جاری کی گئیں ہیں۔ جبری تبدیلی مذہب جیسے اہم مسلے پر قانون سازی نہ ہونا حیرانی کی بات ہے۔ رپورٹ کے مطابق سال 2021 میں جبری تبدیلی مذہبی کے واقعات میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ صرف اس سال میں 78 کیس رپورٹ ہوئے، اس کے برعکس 2019 کے دوران 50، اور 2020 میں 15 کیس رپورٹ ہوئے تھے۔ ادارہ کے مرتب کردہ اعداد و شمار کے مطابق جبری تبدیلیوں کے متاثرین میں 39 ہندو، 38 مسیحی اور ایک سکھ لڑکیاں، خواتین شامل تھیں ان میں 76 فیصد بچیاں نابالغ تھیں 33 فیصد بچیاں 14 سال سے کم عمر تھیں جو کہ بچوں کے حقوق کے کمیشن کے لئے بھی سوالیہ نشان ہے۔

سب سے زیادہ کیس سندھ میں رپورٹ ہوئے اس کے بعد پنجاب اور کے پی کے میں رپورٹ ہوئے۔ دو حکومتی اداروں وزارت برائے مذہبی امور اور بین المذاہب ہم آہنگی اور اسلامی نظریاتی کونسل نے پارلیمانی کمیٹی میں مسودہ قانون پر بحث کی مخالفت کی۔ اگر اس مسئلہ پر جامع قانون متعارف کروایا جائے اور ملوث افراد کے خلاف سخت کارروائی کی جائے نیز حکومت کو چاہیے کہ اس اہم مسئلہ پر نہ صرف قانونی بلکہ انتظامی اقدامات اٹھائے جائیں تاکہ جبری تبدیلی مذہب کے واقعات میں کمی واقع ہو اور ذمہ دار افراد کو کیفرکردار تک پہنچایا جائے۔

پاکستانی اقلیتوں کو ملازمتوں میں ملازمت کوٹہ پر بھی تکالیف اٹھانا پڑتی ہیں ملازمت کوٹہ پر عمل درآمد نہیں ہو رہا، درجہ چہارم کی آسامیاں اقلیتوں کو دے دی جاتیں ہے جبکہ ملازمت کوٹہ کی سیٹیں بھی اکثریتی کمیونٹی کو دے دی جاتی ہیں۔ افراد شماری میں اقلیتوں کی بروقت اور درست تعداد بھی پبلک نہ کرنا ایک سوالیہ نشان ہے جبکہ اضلاع کی سطح پر بنائی گئی سرکاری کمیٹیز میں بھی نمائندگی صفر کے برابر ہے۔ حکومت کی طرف سے ترقیاتی منصوبوں کی تقسیم کا بھی کوئی طریقہ کار واضح نہیں کیا گیا اور نہ ہی میرٹ کی بنیاد پر ان کو کوئی فنڈز دیے جاتے ہیں اور بہت ساری بیشتر سیاسی جماعتیں اپنے انتخابی منشور میں کئی وعدے کرتی ہیں لیکن حکومت میں آنے کے بعد ان وعدوں کو بھول جاتی ہیں ان پر عمل درآمد نہیں کرتیں بہتر یہ ہی ہے کہ وعدوں کو وفا کیا جائے اور اقلیتوں کے مسائل ملازمت کوٹہ، تعلیمی امتیازی مواد، جبری تبدیلی مذہب کے قانون کا نفاذ جیسے دیرینہ مطالبات پر اقدامات اٹھائے جائیں۔

سال 2009 میں وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے گیارہ اگست کو قومی یوم اقلیت کے طور پر منانے کا اعلان کیا اب یہ دن اقلیتوں کے حقوق کے حوالے سے ہر سال عوامی اور سرکاری سطح پر منایا جاتا ہے اور اس دن کو منانے کی وجہ یہ ہے کہ بانی پاکستان محمد علی جناح کا بحیثیت گورنر جنرل 11 اگست 1947 کو پاکستان کی دستور ساز اسمبلی سے خطاب کو مساوی شہری حقوق، رواداری، مذہبی آزادی اور جہموریت کے احساس کا منشور کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا۔ اس تقریر میں کہا گیا تھا کہ مذہبی اقلیتوں کے ساتھ کوئی امتیازی برتاؤ نہیں کیا جائے گا لیکن آج 75 سال گزرنے کے باوجود بھی اگر یہ مسائل حل نہیں ہوتے تو حقیقی معنوں میں یوم اقلیت منانا بے فائدہ اور بے سود ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).