فرمانبرداری یا ذہنی معذوری؟


ثقافتی لحاظ سے اچھے برے لوگوں کی پیمائش کے لیے بنائے گئے پیمانے میں ’فرمانبرداری کا لیول‘ سر فہرست ہے۔ جتنی زیادہ جی حضوری اور اپنی سوچ اور عقل کو ایک طرف رکھ کے ’جیسے آپ کی مرضی‘ کا ورد کرتے رہیں بہترین لوگوں کے اسکیل پر فٹ آتے جائیں گے۔ عموماً والدین اس بچے کو سب سے زیادہ اہمیت دیتے ہیں جو اپنی آنکھیں بند رکھتا ہو اور صرف ماں باپ کی نظر سے ہر پہلو دیکھتا ہو۔ اسی طرح سے تعلیمی اور پیشہ ورانہ اداروں میں بھی جی جی والوں کا اسکوپ زیادہ ہوتا ہے۔ اس بلاگ میں میں ’جی حضوری‘ اور خاندان کے حوالے سے بات کرنا چاہوں گی۔

عام طور پر جب بھی لوگ اپنی اولاد کا تعارف کراتے ہیں اور ان کی خصوصیات بیان کر رہے ہوتے ہیں تو کون سا بیٹا یا بیٹی کس قدر فرمانبردار ہے۔ یہ پہلو سامنے رہتا ہے بالخصوص بیٹیوں کے معاملے میں۔ جو اولاد زیادہ فرمانبردار ہو اس کے اوصاف بیان کرنے میں زمین و آسمان کے قلابے ملا دیے جاتے ہیں۔ اپنی رائے رکھنے والا تو ویسے ہی گمراہ گنا جاتا ہے۔

سوال یہ ہے کہ آخر فرمانبرداری ہے کیا؟

میرے نزدیک یہ بلاکس (blocks) کی گیم جیسا ہے۔ جیسے جڑے ہوئے بلاکس میں جب پہلا گرتا ہے تو اس کی وجہ سے دوسرا پھر تیسرا، چوتھا اور اپنی باری آنے پر سارے بلاکس اسی سمت میں گرنے لگتے ہیں جس میں پہلا بلاک گرا تھا۔ ہمارے بڑوں کو اور بہت بڑوں کو رائے کا حق کبھی ملا ہی نہ تھا۔ وہ دوسروں کے فیصلوں کے تحت زندگیاں گزارتے رہے اور پھر اپنی باری آنے کا انتظار کرتے رہے کہ کب وہ ان بڑوں کی نشستوں پر فائز ہوں گے اور اپنی اگلی نسلوں پر فرمان جاری کریں گے جن کی تابعداری بچوں پر فرض ہو گی۔ بس بلاکس کی طرح نسلوں میں یہی چیز منتقل ہوتی آئی ہے۔ ایک ہی سمت کو بہے جاتے ہیں۔

بات یہ ہے کہ جب کسی فرماں بردار شخص کو تمام زندگی اپنے فیصلے لینے کی آزادی اور نوبت آنے ہی نہیں دی گئی تو وہ ”بڑوں والی نشست“ پر فائز ہو کر پختہ فیصلے کیسے کر سکتا ہے؟

یقیناً یہ وہی ”بڑے“ ہوتے ہیں جو اپنی بونگیوں کو بھی فرمان کہلوائے جانا پسند فرماتے ہیں اور پھر اپنے کچے تجزیے اور باتوں کو لے کر پکی ضدوں پر اڑ جاتے ہیں۔

کئی ماؤں کو کہتے سنا ہے کہ ”ماشاء اللہ میرا بیٹا اتنا فرمانبردار ہے کہ شادی کے بعد بھی آنا جانا، بات کرنا نہ کرنا اور رشتے ناتے نبھانا۔ ہر چیز میرے سے پوچھ پوچھ کر کرتا ہے!“ وغیرہ۔ میرے نزدیک ایسا بیٹا فرمانبردار سے کہیں زیادہ عقل سے پیدل ہے جو بالغ ہونے کے باوجود اپنے فیصلے لینے اور عقل کا استعمال کرنے سے قاصر ہے۔ ایسا ”ذہین“ بیٹا کیسا شوہر اور باپ ثابت ہو گا؟

’دوسروں کی رائے کو اہمیت دینا‘ اور ’صرف دوسروں کی ہی رائے پر چلنا‘ دو مختلف چیزیں ہیں۔

ہمارے ہاں باہمی احترام سکھانے کی بجائے ”کنٹرول“ کے تعلقات کو فروغ دیا جاتا ہے۔ فرمانبرداری، باہمی احترام کا الٹ ہے اور طاقت کے زور کا نام ہے جہاں ایک شخص یا پارٹی ایسی پوزیشن میں ہوتے ہیں کہ اپنی بات منوا سکیں جبکہ دوسرے کو اپنی لاچارگی کی بناء پر بات ماننی ہوتی ہے۔

بالغ ہو جانے کے بعد بھی اولاد کا والدین کے ساتھ adult to adult انٹرایکشن نہیں بن پاتا۔ بڑے انھیں اپنے زمانے کے ٹوٹکوں پر چلانے کی سر توڑ کوشش میں لگے رہتے ہیں یہ سمجھے بغیر کہ وقت کے ساتھ مسائل کی نوعیت بدلتی ہے۔ نئی نسل کے مسائل مختلف اعتبار سے پرانی نسل کے مسائل سے الگ ہو سکتے ہیں۔ ان کا حل فرمان تھوپنے اور ان کو پورا نہ کرنے پر بچوں پر سختی کرنے میں نہیں بلکہ پرامن ڈائیلاگ اور باہمی احترام میں ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments