کیا مولانا طارق جمیل تحریک انصاف کے ترجمان یا ”کو پارٹنر“ بن چکے ہیں؟
سیاستدان خواہ اس کا تعلق کسی بھی سیاسی جماعت سے ہو وہ اس وقت انتہائی خطرناک ہوتا ہے جب وہ اپنے سیاسی منشور کو مذہبی رنگ دینے کی کوشش کرتا ہے، اپنے ذاتی مفاد کے لئے اور اپنی سیاسی جماعت کو عوام میں پذیرائی دلوانے کے لئے مذہب کو بطور ”سٹنٹ یا ٹول“ کے استعمال کرنا خود مذہب کی توہین کے زمرے میں آتا ہے۔ مذہب اور سیاست کا آپس میں کوئی جوڑ نہیں ہے۔ سیاست امکانات اور تبدیل ہوتے ہوئے ہر لمحہ کی رفیق ہونے کے ساتھ ساتھ ایڈجسٹمنٹ، ری ایڈجسٹمنٹ یا متبادلات کا نام ہوتا ہے۔
یعنی سیاست میں کچھ بھی حرف آخر نہیں ہوتا اور انسانی بصیرت وقت و حالات کے حساب سے رجوع کرنے کی طرف گامزن رہتی ہے۔ سیاست روئے زمین پر بکھرے درجنوں انسانی مسائل کو ممکنہ حد تک عملی طور پر حل کرنے کا نام ہوتا ہے اور سیاست میں انسانی مسائل و مشکلات کو کسی ماورائی طاقت کے کھاتے میں ڈال کر جان چھڑانے کے عمل کو انسانی فہم و فراست کی تذلیل تصور کیا جاتا ہے۔ جبکہ مذہب ایک مخصوص عقیدہ و فکر، فکس تصورات اور ناقابل تبدیل اصول و ضوابط کا نام ہے جس میں کسی بھی قسم کی تبدیلی کی قطعی طور پر کوئی گنجائش نہیں ہوتی، اسی لئے آج کی دنیا میں مذہب و عقائد کو ہر انسان کا انتہائی نجی معاملہ سمجھا جاتا ہے۔
اپنے من کی شانتی اور تزکیہ نفس کے لیے کوئی جو بھی عقیدہ رکھنا چاہے اسے مکمل آزادی ہونی چاہیے اور ہمیں اس سے کوئی سروکار نہیں رکھنا چاہیے۔ مسائل اس وقت پیدا ہوتے ہیں جب کسی سیاسی جماعت کا سربراہ اپنے منشور میں مذہب کا تڑکا لگا کر عوام کو بیوقوف بنانے کی کوشش کرتا ہے یا مذہب کو دوسروں کے بیڈروم میں داخل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، دونوں طرح سے شخصی تشفی تو ہوجاتی ہے مگر مذہب کا نام استعمال کرنے سے مذہبی تقدس یا حساسیت ختم ہو جاتی ہے۔
میری نظر میں اپنے ذاتی مفادات کے حصول کے لئے مذہب کو استعمال کرنا انتہائی پست ذہنی کی علامت ہوتا ہے اور مذہب کی توہین بھی ہوتی ہے۔ اسی لئے کہا جاتا ہے کہ سیاستدان کا وہ روپ انتہائی خطرناک اور مضحکہ خیز ہوتا ہے جب وہ اپنے سیاسی آفس کی کرسی پر بیٹھتے وقت یا اسمبلی کی نشست پر براجمان ہوتے وقت اپنے ہاتھ میں تسبیح پکڑ لیتا ہے اور ان اہم مواقعوں کے علاوہ اسے تسبیح یاد بھی نہیں ہوتی تو سمجھ لیجیے کہ دال میں کچھ کالا ہے اور ”اداکاری کا وقت ہوا جاتا ہے“ ۔
اور اس بندے کے پاس لوگوں کے مسائل کا حقیقی حل موجود نہیں ہے اور آخر میں مذہبی کلمات کا سہارا لے کر چلتا بنے گا۔ یاداشت کو ریفریش کر لیں اور ریاست مدینہ والے سابق لاڈلے وزیراعظم کا طرز حکمرانی، طرز کلامی، ہاتھ میں تسبیح، جگہ جگہ اسلامی ٹچ اور آخر میں ممنوعہ فنڈنگ کے 8 سالہ طویل ترین کیس کا خلاصہ ہونے کے بعد ریاست مدینہ کے سربراہ کی بد دیانتیوں کی ایک لمبی فہرست کا سامنے آ نے کے بعد انتہائی ڈھٹائی انکار کرنا متصور کر لیں آپ کے ذہنی اسکرین پر سب کچھ ابھرنے لگے گا اور سوچیں یہی سب کچھ 1947 سے ایسے ہی چلتا آ رہا ہے۔
اسی تصویر کا دوسرا رخ مذہبی طبقے کا مذہب کو بطور سیاست استعمال کرنا ہے جب کہ کڑوی حقیقت یہ ہے کہ مذہبی طبقہ اس حقیقت کو بخوبی جانتا ہے کہ وہ مذہب کے سہارے دوسری سیاسی جماعتوں کو بلیک میل کرنے یا اپنی نشستوں کی اچھی قیمت حاصل کرنے کے علاوہ کچھ نہیں کر سکتے یعنی طاقت کے ایوانوں کا حصہ تو ضرور بن سکتے ہیں مگر پردھان منتری کے روپ میں عوام انہیں دیکھنا پسند ہی نہیں کرتے۔ مگر سیاست و اقتدار کا نشہ تو سر چڑھ کر بولتا ہے بھلے دنیا مردود سے نفرت کرنے کی اداکاری کرتے پھریں مگر ہر مذہبی ذہن کے نہاں خانے میں سیاست کا حسین و جمیل محل ضرور موجود ہوتا ہے، بھلے خوابوں کی تعبیر نہ ہونے پائے مگر نام کمانے کے لئے اتنا شرک تو چلتا ہے اور اہل جبہ و دستار کی نظر میں یہ گناہ صغیرہ کہلاتا ہے جسے معمولی سے گناہ کے ساتھ تشبیہ دی جاتی ہے۔
ویسے سوال تو بنتا ہے کہ اگر سیاست دان سیاست میں مذہب کا استعمال کرتا ہے تو ہماری نظر میں یہ انتہائی رذیل اور مکروہ عمل ہے مگر اگر کوئی مذہبی رہنما مذہب میں سیاست کا دخول کرتا ہے تو اس کے متعلق اہل نظر و فکر کی کیا رائے ہوگی؟ ہماری نظر میں تو یہ دونوں رویے پست ذہنی کی غمازی کرتے ہیں۔ گزشتہ دنوں ایم ٹی جے بزنس امپائر کے سربراہ تبلیغی جماعت میں اچھی خاصی نیک نامی کمانے کے بعد اب سیاست میں قسمت آزمائی کا سوچ رہے ہیں۔ جب سے عمران خان زیر عتاب ہیں مولانا صاحب مسلسل ان سے مل رہے ہیں اور ان کی ہمت بندھا رہے اور محبت کی اس لازوال داستان کو ٹی وی اسکرین تک لے آئے ہیں۔ ایک انٹرویو میں یہ تک کہہ ڈالا کہ
” 22 کروڑ عوام کی منتخب حکومت کو گرانے کے لیے انسانوں کو خریدا گیا اور کس طرح دھوکے سے حکومت بنائی گئی، کیا یہ کل اللہ کے سامنے کھڑے ہو پائیں گے؟ تم نے چند ٹکوں کی خاطر 22 کروڑ عوام کو ذلیل و رسوا کر ڈالا“
مولانا صاحب یہ سب باتیں کرنے سے پہلے آپ نے کہا کہ پاکستانی شہریت رکھنے کی حیثیت سے میں اپنے موقف کا اظہار کر سکتا ہوں۔ آپ بالکل کر سکتے ہیں مگر بصد احترام یا تو آپ بہت زیادہ سادہ ہیں یا ”عشق عمران“ آپ کے دل و دماغ میں سرایت کر چکا ہے یا آپ جان بوجھ کر وسیع تر مفاد میں حقائق سے نظریں چرا رہے ہیں۔ حضور آپ اس وقت کس غار میں چلا کشی فرما رہے تھے جب آپ کے لاڈلے کو اقتدار کی مچان تک پہنچانے کے لیے ”جیتنے والے گھوڑوں“ کو سیاسی اصطبل سے نکال کر ”حلقہ لاڈلاں“ میں داخل کیا جا رہا تھا؟
جب بھی لاڈلے کا اقتدار ہچکولے کھانے لگتا تو من و سلویٰ طرز کی مدد فوراً آ پہنچتی تھی بقول موجودہ وزیر اعلی پنجاب چوہدری پرویز الہی کے کہ ”لاڈلے کے ساڑھے تین سال تک ڈائپر تبدیل کیے جاتے رہے“ جس کے دور اقتدار میں آپ کو صدارتی ایوارڈ سے نوازا گیا ممنوعہ فنڈنگ اسکینڈل کے ہوشربا انکشافات کے بعد آپ کا کیا موقف ہے؟ جس طرح سے آپ نے تحریک انصاف کا ہر آڑے وقت میں ساتھ دیا ہے اب عمران خان کو چاہیے کہ اپنی پارٹی کو تمام بلاؤں سے محفوظ رکھنے کے لئے فواد چوہدری اور شہباز گل کو ترجمان کے عہدے سے برخاست کر کے مولانا طارق جمیل کو ترجمان مقرر کر لیں۔
آخر میں مولانا صاحب سے درخواست ہے کہ یک طرفہ موقف جان کر دوسروں کو برا بھلا کہنا آپ کے شایان شان بالکل نہیں ہے، آپ کو جو عزت تبلیغ کی وجہ سے ملی ہے اسے یک شخصی عشق پر قربان مت کریں۔ اگر پھر بھی آپ مطمئن نہیں ہیں اور سیاست کے خاردار میدان میں قدم رنجا فرمانا چاہتے ہیں تو بسم اللہ کریں کسی سیاسی پارٹی کو جوائن کریں یا اپنی سیاسی جماعت رجسٹرڈ کروا لیں چند دنوں میں آپ پر اپنی حقیقت آشکار ہو جائے گی۔
- میری بیٹی کی اپنے ”دانائی“ انکل سے ملاقات - 18/03/2024
- دلوں کے طبیب ڈاکٹر خالد سہیل کی میرے شہر میاں چنوں آمد - 13/03/2024
- اچھرہ کی مظلوم خاتون اور پروفیسر شیر علی کی معافی کے مابین مماثلت۔ - 28/02/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).