خود پرستی یا نارسسزم – ایک لاعلاج مرض
یوں تو ہر انسان خود کو کسی نہ کسی حد تک پسند کرتا ہے۔ جو کہ ایک فطری عمل ہے۔ لیکن خود پسندی جب انتہا کو پہنچ جائے تو خود پرستی بن جاتی ہے۔ ایسے لوگ خود سے بے انتہاء یعنی پاگل پن کی حد تک پیار کرتے ہیں۔ خود پرست اپنے آپ کو ہر فن مولا، لاجواب، اعلیٰ صلاحیتوں کا مالک، شاندار ورژن رکھنے والا یا والی، ناخدا، اپنے ہر عمل کو درست ثابت کر نے کے لئے خود ساختہ اور من گھڑت دلیلیں دیتا ہے۔ جن کا تاریخ اور حقیقت سے دور دور کا واسطہ نہیں ہوتا۔
خود پرست اپنے آپ کو عقل کل سمجھتا ہے۔ حالانکہ ایسے شخص کی گفتگو اس بات کی غمازی کر رہی ہوتی ہے کہ ان کی عقل پر قل تو کب کی پڑھی جا چکی۔ دوسری جانب ایک صاحب علم شخص عاجزی اور انکساری کا مظاہرہ کرتا ہے۔ عموماً شائستہ لہجے میں، حقائق اور دلائل سے بات کرے گا۔ دوسرے کی گفتگو کو تحمل سے سنے گا۔ اگر دلائل مضبوط ہوں۔ تو وہ اپنی اصلاح کرنے کی کوشش کرے۔ زیر بحث موضوع پر مزید تحقیق کرے گا۔ اور اصل حقائق کی کھوج لگائے گا۔
جب کہ خود پرست دوسروں کو حقیر سمجھتا ہے۔ دوسروں سے ہمدردی محض ذاتی تشہیر اور ذاتی مفاد کی خاطر ہی کرے گا۔ اس کائنات، اس دنیا اور بنی نوع انسان کی تاریخ، فلسفہ کا علم ایک وسیع سمندر کی مانند ہے۔ اور ہماری زندگی اتنی مختصر کہ کسی ایک شعبے کسی ایک موضوع پر مکمل دسترس حاصل کرنا اگر نامکمل نہیں تو بے انتہا مشکل ضرور ہے۔ ایسے میں جب کوئی شخص اس مغالطے کا شکار ہو جائے کہ وہ، تاریخ، جغرافیہ، سائنس، تقابل ادیان، فلسفہ، ریاضی، علم فلکیات، ارتقاء غرض تمام علوم و فنون اور رموز سے واقف ہے۔
اور عقل کل ہے۔ ایسا شخص ایسے لاعلاج مرض کا شکار ہو چکا ہو تا ہے۔ جیسے خود پرستی کہتے ہیں۔ جس کا علاج مادر نیچر اور قانون زوال یا تغیر Law of decay کے قوانین کے مطابق یعنی زندگی سے مھگتی کی صورت میں ہی ممکن ہے۔ خود پرست شخص نہ صرف خاندان، قبیلے، معاشرے بلکہ بعض اوقات ملک اور پوری دنیا کو اپنی کم عقلی اور جہالت کی بھینٹ چڑھا سکتا ہے۔
خدانخواستہ اگر ایسے شخص کو اختیار اور اقتدار مل جائے تو وہ ملک یا متعلقہ ادارے کو تباہی کے دھانے پر پہنچا کر ہی دم لیتا ہے۔ تاریخ شاید ہے کہ بڑے بڑے خود پرستوں اور طالع آزماؤں نے اپنی شخصیت کو پروان چڑھانے اور ذاتی مفاد اور اقتدار کے لئے کروڑوں انسانوں کو موت کی نیند سلا دیا۔ خود پرست اپنے تعلقات اور اختیارات کو اپنی ذات اپنی شخصیت کی تشہیر اور خود نمائی کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ سائنس اور ماہرین نفسیات نے خود پرستوں کی چند نشانیاں بیان کی ہیں۔
کہ خود پرست کو کسی محفل، کسی مجمعے یا عوامی مقامات پر تلاش کرنا بہت آسان ہوتا ہے۔ وہ عام طور پر اونچی آواز میں گفتگو کرتے ہیں۔ جو اپنی شخصیت کے دلفریب قصے کہانیاں، مالی حیثیت، خاندانی پس منظر، ماضی کی داستانیں، اکثر جادوئی کمالات یا مہارتوں اور کامیابیوں کے واقعات بیان کر کے حاضرین محفل اور بعض اوقات بڑے ہجوم کو اپنی جانب متوجہ کرنے اور گھیرنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں۔ ان کی گفتگو کا ہر فقرہ میں، میں، میں، مجھے، مجھے اور میں نے، میں نے سے شروع اور اختتام پذیر ہوتا ہے۔
ایسا شخص اپنے مال و دولت، اکثر خود ساختہ کامیابیوں، خوبیوں، یا املاک پر فخر کرتا ہے۔ انتہائی خود غرض اور اپنی ذات کا اسیر ہوتا ہے۔ دوسروں سے ہمدردی اس کی فطرت میں شامل ہی نہیں ہوتی۔ البتہ ذاتی مفاد اور رتبے کے حصول کے لئے نہ صرف دوسروں سے تعلقات بناتے ہیں۔ بلکہ ان تعلقات کو استعمال کر کے اپنی شخصیت کو پروان چڑھانے اور مالی مفادات کے حصول کے لئے کسی بھی حد تک جانے کو تیار رہتے ہیں اور با اثر افراد اور اشرافیہ کی طرف نہ صرف فوری مائل ہوتے ہیں بلکہ ان تعلقات کے ثمرات سے بھی فیض یاب ہوتے ہیں۔
خود پرست اپنے سے کمزور، سفید پوش، محنت کش طبقے سے بدتمیزی سے پیش آتے ہیں، دھمکاتے، نیچا دکھاتے اور ڈراتے ہیں۔ اور ان کا استحصال کرتے ہیں۔ خود پرست مسلسل توجہ اور تعریف کے خواہاں رہتے ہیں۔ وہ ہلکی سی تنقید بھی برداشت نہیں کر سکتے۔ خود کی اہمیت کے ایسے خول میں بند ہوتے۔ کہ وہ دوسرے لوگوں کا احترام نہیں کرتے۔ وہ انتہائی خود غرض ہوتے ہیں۔ ان کے تعلقات سطحی اور مفادات کے حاصل تک ہی محدود رہتے ہیں۔ وہ دوسروں کی تجاویز اور فیصلوں کی صلاحیت کو برداشت نہیں کر سکتے۔
وہ اپنی غلطیوں کی ذمہ داری قبول نہیں کرتے۔ بلکہ ہر کامیابی کا کریڈٹ لیتے ہیں اور ناکامیوں کا بوجھ دوسروں پر تھوپ دیتے ہیں۔ خود پرست عموماً دوسروں سے حسد کرتے ہیں اور یقین رکھتے ہیں کہ دوسرے بھی ان سے حسد کرتے ہیں۔ وہ احساس شرم، ندامت یا جرم محسوس کیے بغیر دوسروں کا فائدہ اٹھاتے ہیں۔ وہ مغالطے میں رہتے ہیں کہ وہ دوسروں سے بہتر، ہوشیار اور زیادہ قابل ہیں۔ ایسے لوگ بارہا اپنی خود ساختہ فکری برتری اور جسمانی کشش، مالی حیثیت اور رتبے کا پرچار کرتے ہیں۔
خود پرست بے انتہاء مغرور اور رعونیت کا شکار رہتے ہیں۔ اپنی غلطی تسلیم کرنا اور معذرت کا لفظ بولنا ان کے لئے تقریباً ناممکن ہوتا ہے۔ وہ ایک خیالی دنیا میں رہتے ہیں جو حقیقت کو مسخ کر کے خود فریبی اور جادوئی سوچ سے پیدا ہوتی ہے۔ وہ ہمیشہ حقدار اور سچے ہونے کا شدید احساس رکھتے ہیں۔ یعنی وہ ہمیشہ اپنے لئے بہترین سلوک اور خدمت کی توقع رکھتے ہیں۔ اور اپنے مطالبات کی فوری تعمیل کے خواہشمند رہتے ہیں۔
قارئین کرام یوں تو ہر مرض کی فوری تشخیص ضروری ہے۔ اور اس کا علاج بھی۔ لیکن خود پرست عناصر کی فوری اور درست نشاندہی، ان کا اجتماعی علاج ایک تعمیری سوچ اور پرامن معاشرے کے قیام کے لئے بے حد اہم ہے۔ اجتماعی علاج یعنی ان کو یہ باور کرانا کہ نہ کوئی عقل کل ہوتا ہے۔ اور نہ ہی تم عقل کل ہو۔ ان کے دماغوں میں جو لوچا چل رہا ہے۔ اسی لوچے نے ایسے رانگ نمبر پیدا کر دیے ہیں۔ جب انسان یہ سمجھ بیٹھے کہ وہ سب کچھ جانتا ہے۔ سمجھ لیجیے ایسا شخص کچھ بھی نہیں جانتا۔
- انسانی حقوق کے نمائندوں کا کردار اور اہمیت - 25/01/2024
- روادار معاشرے کے لئے مکالمے اور سوال کی اہمیت - 18/06/2023
- ایک سیاسی پارٹی میں اتحاد، اتفاق اور احترام کی اہمیت - 13/06/2023
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).