حسینؑ ہی کی ضرورت تھی کربلا کے لیے


حضرت جوش ملیح آبادی، احمد ندیم قاسمی، اختر حسین جعفری، علامہ اختر حسین جعفری، استاد سبط جعفر زیدی، حضرت حفیظ تائب، حضرت جون ایلیا ء، طفیل ہوشیار پوری، ڈاکٹر مقصود زاہدی، علامہ سید غلام شبیر بخاری، صہبا اختر، جناب خالد احمد، حضرت قیصر بارہوی، محسن نقوی، ڈاکٹر ریحان اعظمی، ڈاکٹر آغا سہیل، سجاد حیدر خروش، علامہ ناصر عباس، علامہ عرفان حیدر عابدی، اسرار زیدی، ڈاکٹر اجمل نیازی، بیدار سرمدی، ڈاکٹر عاصی کرنالی، ابصار عبدالعلی، ظفر علی راجا، قائم نقوی، شاہد واسطی، ڈاکٹر اصغر ندیم سید، بیدار سرمدی اور سرفراز سید، یوسف حسن، شہزاد احمد، جاوید احمد قریشی، حضرت یزدانی جالندھری، ممتاز العیشی اور جناب کرامت بخاری جیسے دیگر بہت سے ممتاز اور قادرالکلام شعرا ء اور محبان و مخلصین سید فخرالدین بلے کے ساتھ ہم نے جتنے بھی قافلہ پڑاؤ کی میزبانی میں معاونت کا اعزاز پایا یا جتنی بھی شعری نشستوں اور محافل مسالمہ میں شرکت کی ان میں سے اکثر میں ہمارے والد گرامی قبلہ سید فخرالدین بلے سے فرمائش کر کر کے جو کلام سنا جاتا تھا اس میں حضرت امیر خسرو کے سات سو برس بعد تخلیق کیے جانے والا شاہکار تخلیقی معجزہ قول ترانہ من کنت مولا، مری نماز علی ع ہے مری دعا بھی علی ع، حسین ع ہی کی ضرورت تھی کربلا کے لیے، باران کرم، ہنگام محشر، بازیافت، آگ، چھ ستمبر، مٹی کا قرض، تسخیر اور بہت سا شاہکار کلام شامل ہیں۔

جسے سن کر سامعین کرام جھوم اٹھتے تھے اور مکرر، مکرر، پھر سے عطا فرمائیے، سبحان اللہ، سبحان اللہ کی صدائیں بلند ہوا کرتی تھیں اور ایک اک شعر اور بند کو بار بار پیش کرنے عطا فرمانے کی فرمائش ہوتی تھی۔ ان محافل میں ہم نے اکثر یہ بھی دیکھا کہ حضرت جون ایلیا ء اپنی نشست سے اٹھ کر سید فخرالدین بلے شاہ صاحب کے پاس آتے اور ان کا ماتھا چوم لیا کرتے تھے۔ ایسی ہی ایک محفل میں حضرت احمد ندیم قاسمی دوران سماعت اپنی نشست سے اٹھ کھڑے ہوئے اور منقبت جناب ملکہ کون و مکاں سیدہ فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہ کے ایک شعر پر تو مکرر، مکرر سبحان اللہ، سبحان اللہ کی ایسی گردان شروع کی کہ سید فخرالدین بلے شاہ صاحب نے نو دس مرتبہ اس شعر کو پڑھا۔ اور جناب احمد ندیم قاسمی دوران سماعت مسلسل کھڑے رہے۔ وہ شعر نذر

قارئین ہے۔
و اللہ بے مثال تھی شادی بتول کی
بیٹا خدا کے گھر کا تھا، بیٹی رسول کی
ماہ محرم الحرام کی ان قابل تعظیم و تکریم ساعتوں میں اور عاشورۂ محرم کی
مناسبت سے قارئین ہم سب کی خدمت میں سید فخرالدین بلے شاہ صاحب کے شہرۂ
آفاق کلام سے انتخاب بصد عقیدت و احترام پیش کیا جا رہا ہے۔
الٰہی! کون مٹا دین کی بقا کے لئے
یہ کس نے جام شہادت پیا وفا کے لئے
یہ کس نے کر دیا قربان گھر کا گھر اپنا
یہ کس نے جان لٹا دی تری رضا کے لئے
حسینؑ ہی کی ضرورت تھی کربلا کے لئے
ہنوز تشنہ تھی روح پیام رب جلیل
ہنوز تشنہ و مبہم تھی زندگی کی دلیل
ہنوز تشنۂ تکمیل تھا مذاق خلیل
حصول مقصد تعلیم انبیاء کے لئے
حسینؑ ہی کی ضرورت تھی کربلا کے لئے
قیام فصل بہاراں کا کام باقی تھا
علاج تنگیٔ داماں کا کام باقی تھا
ابھی نقادت ایماں کا کام باقی تھا
شعور حکمت قرآں کی انتہاء کے لئے
حسینؑ ہی کی ضرورت تھی کربلا کے لئے
بھٹک رہا تھا اندھیروں میں کاروان رسول
اسیر دام مصائب تھا خاندان رسول
امیر و حاکم و سلطاں تھے دشمنان رسول
تحفظ حرم و دین مصطفیٰ کے لئے
حسینؑ ہی کی ضرورت تھی کربلا کے لئے
اسیر حلقۂ دشمن تھے مہوشان حرم
اجڑ رہے تھے خیابان و گلستان حرم
بنے ہوئے تھے سیہ کار پاسبان حرم
حرم کی حرمت و تقدیس کی بقا کے لئے
حسینؑ ہی کی ضرورت تھی کربلا کے لئے
حیا کا نام مٹا جا رہا تھا دنیا سے
وفا کا نام مٹا جا رہا تھا دنیا سے
خدا کا نام مٹا جا رہا تھا دنیا سے
فروغ سنت و پابندیٔ وفا کے لئے
حسینؑ ہی کی ضرورت تھی کربلا کے لئے
فنا سے دست و گریباں تھا زندگی کا وقار
ملا رہی تھی ہوس خاک میں خودی کا وقار
سوال عظمت خاکی تھا آدمی کا وقار
عروج آدم خاکی کی انتہا کے لئے
حسینؑ ہی کی ضرورت تھی کربلا کے لئے
حسینؑ ہی کی ضرورت تھی کربلا کے لیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments