اقبال اور جمہوریت


جمہوری نظام جب دنیا میں قائم ہوا تو لوگوں کو اس سے امیدیں وابستہ ہوئیں۔ علامہ اقبال بھی اس فکر میں شامل تھے۔ انھوں نے اس نظام کا استقبال کیا۔ جمہوریت کی خوبیوں کی تعریف اور خامیوں پر تنقید کی۔ اقبال جمہوریت کے جتنے مدح ہیں اس سے کہیں زیادہ اس کے نقاد ہیں۔ اقبال چونکہ گہری نظر رکھتے تھے اس لیے جب یہ نظام نافذ ہوا تو جلد ہی اقبال کو اندازہ ہو گیا کہ یہ نظام بھی محض برائے نام ہے۔ اس نظام کے نافذ ہونے پر اقبال نے مزدور کو جہاں یہ پیغام دیا تھا:۔

اٹھ کے اب بزم جہاں کا اور ہی انداز ہے
مشرق و مغرب میں تیرے دور کا آغاز ہے

لیکن پھر جلد ہی جمہوریت کے بارے میں اقبال کی رائے بدل گئی۔ بعض لوگوں کو اس سے یہ غلط فہمی پیدا ہوئی کہ وہ جمہوریت کے سرا سر خلاف ہیں اور جنگل کا قانون چاہتے ہیں۔ درحقیقت اقبال جمہوریت کی روح کے خلاف نہیں تھے بلکہ اس کے غلط استعمال کے خلاف تھے۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے مغربی جمہوریت کو محض بازی گری کہا ہے اور یہ کہ اس کا جمہوریت کی روح سے کوئی تعلق نہیں۔ انھوں نے جمہوری نظام کو ایک سحر قرار دیا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ اس کی آڑ میں حکمراں طبقے کے اپنے مفاد پوشیدہ ہیں۔ انھوں نے اپنی شہکار نظم ”خضر راہ“ کا ایک حصہ اس موضوع کے لیے مخصوص کیا۔ نظم کے آغاز میں وہ اس حقیقت کو یوں عیاں کرتے ہیں :۔

آ بتاؤں تجھ کو رمز آیۂ ان الملوک
سلطنت اقوام غالب کی ہے اک جادوگری
خوب سے بیدار ہوتا ہے ذرا محکوم اگر
پھر سلا دیتی ہے اس کو حکمراں کی ساحری

علامہ اقبال نے مثنوی ”پس چہ باید کرد“ کی نظم ”سیاسیات حاضرہ“ میں مغربی جمہوری نظام اور عہد حاضر کی سیاسی حقیقت کو بے نقاب کیا ہے۔ یہاں اقبال نے جمہوریت کے نمائندوں کے مکر و فریب پر کھل کر بات کی ہے اور ان سے بچنے کی تلقین کی ہے۔ اقبال کہتے ہیں کہ یہ سیاستدان ہمیشہ پہلو دار بات کرتے ہیں۔ ان کے قول و فعل میں تضاد ہوتا ہے۔ یہ کہتے کچھ اور ہیں اور اس سے مطلب کچھ اور نکالتے ہیں۔ اقبال اس بارے میں کہتے ہیں :۔

الحذر از گرمی گفتار او
الحذر از حرف پہلو دار او
چشم ہا از سرمہ اش بے نور تر
بندہ مجبور از و مجبور تر

یہی وجہ ہے کہ انھوں نے نچلے طبقے کو ہمیشہ دھوکے میں رکھا ہے۔ اور اس طرح ان کا استحصال کرتے ہیں۔ اسی لیے اقبال نے اس نظام کے چنگل سے بچنے کی تلقین کی۔ اس بارے میں کہتے ہیں :۔

از خودی غافل نہ کردد مرد حر
حفظ خود کن حب افیونش مخور

جمہوری نظام سے مزدور طبقے کو یہ امید قائم ہوئی کہ یہ ان کے حق میں ہے۔ اقبال اس کی وضاحت میں کہتے ہیں کہ یہ مغرب کا وہی پرانا نظام ہے جس کے پس پردہ ان کے اپنے مفاد کے سوا کچھ بھی نہیں۔ اقبال نے اس نظام کو دیو استبداد قرار دیا۔ ”خضر راہ“ میں اس کی وضاحت یوں کرتے ہیں :۔

ہے وہی ساز کہن مغرب کا جمہوری نظام
جس کے پردوں میں نہیں غیر از نوائے قیصری
دیو استبداد جمہوری قبا میں پائے کوب
تو سمجھتا ہے یہ آزادی کی ہے نیلم پری
(سلطنت)

اسی طرح ”بال جبرئیل“ میں اس کی مزید وضاحت یوں کرتے ہیں :۔
جو بات حق ہو وہ مجھ سے چھپی نہیں رہتی
خدا نے مجھ کو دیا ہے دل خبیر و بصیر
میری نگاہ میں سیاست لادیں
کنیز اہر من و دوں نہاد و مردہ ضمیر
ہوتی ہے ترک کلیسا سے حاکمی آزاد
فرنگیوں کی سیاست ہے دیو بے زنجیر
متاع غیر پہ ہوتی ہے جب نظر اس کی
تو ہیں ہر اول لشکر کلیسا کے سفیر
(لادین سیاست)

علامہ محمد اقبال نے مغربی سیاست کو ایک ایسا سرمہ قرار دیا جس کو لگانے سے آنکھوں کی بینائی چلی جاتی ہے۔ اور جمہوریت کے چنگل میں آنے والا انسان پہلے سے بھی زیادہ تنگ دست ہو جاتا ہے۔ اس کی وضاحت نظم ”خضر راہ“ کے ”سرمایہ و محنت“ والے حصے میں یوں کرتے ہیں :۔

اے کہ تجھ کو کھا گیا سرمایہ دار حیلہ گر
شاخ آہو پر رہی صدیوں تلک تیری برات
دست دولت آفریں کو مزد یوں ملتی رہی
اہل ثروت جیسے دیتے ہیں غریبوں کو زکوٰۃ

اقبال کہتے ہیں مغربی جمہوریت اس طرح ہے جیسے شراب کا کوئی پیالہ ہو۔ جو بظاہر تو خوبصورت نظر آتا ہے لیکن اس کے اندر زہر بھرا ہوتا ہے۔ اس میں ایک مخصوص طرح کی کشش ہوتی ہے جو اقوام کو اپنی طرف کھینچ لیتی ہے۔ ”خضر راہ“ میں ایک جگہ اس کا تذکرہ یوں کرتے ہیں :۔

ساحر الموط نے تجھ کو دیا برگ حشیش
اور تو اے بے خبر سمجھا اسے شاخ نبات

اسی طرح ”بانگ درا“ کے دوسرے دور کی آخری غزل میں اقبال نے اس کی وضاحت یوں کی ہے :۔
دیار مغرب کے رہنے والو! خدا کی بستی دکاں نہیں ہے
کھرا جسے تم سمجھ رہے ہو وہ زر کم عیار ہو گا

علامہ اقبال نے اپنے آخری شعری مجموعے ”ارمغان حجاز“ میں مغرب کے اس سیاسی نظام کے باطن کو چنگیز سے بھی تاریک تر قرار دیا ہے :۔

جلال پادشاہی ہو کہ جمہوری تماشا ہو
جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی
علامہ اقبال ”ضرب کلیم“ میں اس جمہوری حقیقت کو یوں واضح کرتے ہیں :۔
دور حاضر ہے حقیقت میں وہی عہد قدیم
اہل سجادہ ہیں یا اہل سیاست ہیں امام
اس میں پیری کی کرامت ہے نہ میری کا ہے زور
سینکڑوں صدیوں سے خوگر ہیں غلامی کے عوام
خواجگی میں کوئی مشکل نہیں رہتی باقی
پختہ ہو جاتے ہیں جب خوئے غلامی میں غلام!
(خواجگی)

علامہ اقبال نے غلامی کے اس چنگل سے بچنے کی تلقین کی۔ ان کے نزدیک جمہوریت اقوام کو اس طرح سے غلام بناتی ہے کہ وہ پھر کبھی اس غلامی سے بیدار ہی نہیں ہو پاتیں۔ ”ضرب کلیم“ میں اس جانب یوں اشارہ کرتے ہیں :۔

حکمت مشرق و مغرب نے سکھایا ہے مجھے
ایک نکتہ کہ غلاموں کے لیے ہے اکسیر
دین ہو، فلسفہ ہو، فقر ہو، سلطانی ہو
ہوتے ہیں پختہ عقائد کی بنا پر تعمیر
حرف اس قوم کا بے سوز، عمل زار و زبوں
ہو گیا پختہ عقائد سے تہی جس کا ضمیر!
(غلاموں کے لیے )

جب علامہ اقبال پر جمہوریت کا حقیقی چہرہ واضح ہو گیا تو اس کے متعلق انھوں نے جو رائے قائم کی اس کا تذکرہ یوں کیا:۔

اس راز کو اک مرد فرنگی نے کیا فاش
ہر چند کہ دانا اسے تولا نہیں کرتے
جمہوریت اک طرز حکومت ہے کہ جس میں
بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے

یعنی ابتدا میں علامہ اقبال نے جمہوری نظام کی تعریفیں کی اور اس کے حق میں لکھا۔ لیکن جیسے جیسے ان پر یہ راز افشا ہوا کہ یہ بھی ایک مخصوص طبقے کا بنایا ہوا نظام ہے جس کے پس پردہ ان کے اپنے مفاد ہی پوشیدہ ہیں اور اس سے نچلے طبقے کو کوئی فائدہ حاصل نہیں ہو گا۔ تو انھوں اس کے حقیقی چہرے سے پردہ اٹھانے کی بھرپور کوشش کی۔ علامہ محمد اقبال نے ”ارمغان حجاز“ کی ایک نظم ”ابلیس کی مجلس شوریٰ“ میں جمہوریت کو ملوکیت اور استحصال کی آڑ دیا ہے۔ جس کا ظاہر تو روشن ہے لیکن باطن تاریک تر ہے۔ اس کا تذکرہ یوں کرتے ہیں :۔

تو نے دیکھا نہیں مغرب کا جمہوری نظام
چہرہ روشن اندروں چنگیز سے تاریک تر

اقبال کہتے ہیں کہ اس جمہوریت میں وہی پرانی ملوکیت اور شعبدہ گری ہے۔ اس ساری بحث سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اقبال کسی طرح بھی جمہوریت کے مخالف نہیں بلکہ اس کے حامی تھے۔ اس کے پس پردہ حکمراں طبقے کے جو مقاصد ہیں اقبال نے انھیں عیاں کیا۔ علامہ نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ جمہوریت ایک پاک روح ہے لیکن اس کا استعمال غلط کیا گیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments