کشتگانِ خنجرِ تسلیم را


امام عالی مقام علیہ السلام کی شہادت کے دن کی مناسبت سے ہمیں اس واقعے کو سمجھنے کی کوشش کرنا ہے۔ اس کو سمجھنے کی کوشش دو حوالوں سے راہنمائی کرتی ہے۔ اول مزاحمت کا تصور اور دوئم تسلیم و رضا کا تصور۔ فیض احمد فیض نے کہا تھا۔ جن کا دیں پیروی کذب و ریا ہے ان کو۔ ہمت کفر ملے جرات تحقیق ملے۔ جن کے سر منتظر تیغ جفا ہیں ان کو۔ دست قاتل کو جھٹک دینے کی توفیق ملے۔ تضاد کا قانون جو نشوونما اور ارتقاء کا قانون بھی ہے۔

کہتا ہے کہ مزاحمت کی مزاحمت سے نشوونما اور ارتقاء جنم لیتا ہے۔ جبر و استبداد اور استحصال کے خلاف مزاحمت نہ کی جائے۔ تو فرد اور معاشرہ کی نشوونما کے امکانات معدوم ہو جائیں گے۔ امام حسین علیہ السلام نے علم بالوحی (قرآن و سنت ) کی ہدایت کے برخلاف قائم ہونے والے سیاسی اقتدار اور اس سے جنم لینے والی اقدار کے خلاف مزاحمت کی۔ یہ مزاحمت اس شدت کی تھی کہ اس نے آج تک انسانی شعور کو جھنجھوڑ رکھا ہے۔ ہر سیاسی اقتدار اپنے ساتھ سماجی قدریں بھی لے کر آتا ہے۔

جہاں لوگوں نے مصلحت کے تحت سکوت اختیار کر رکھا تھا۔ اور وحی کی ہدایت سے فراہم ہونے والی سیاسی اور سماجی قدریں بھی ختم ہو رہی تھیں۔ وہاں امام حسین علیہ السلام نے بے پناہ جراءت و عزیمت اور قیام کو اختیار کیا۔ اور جبر اور استبداد سے قائم سیاسی اقتدار کو تسلیم کرنے سے انکار کے کھلی مزاحمت کی۔ تاکہ وہ قدریں جو نبی اکرم ﷺ کی تعلیمات نے عطا فرمائیں۔ معدوم نہ ہو جائیں۔ مٹ نہ جائیں۔ جو کہ دین کی اصل اور روح ہیں۔ اور جو خلافت راشدہ کے نظم سے اظہر من الشمس ہیں۔ یہ مزاحمت نہ ہوئی ہوتی تو دین کی اصل کھو گئی ہوتی۔ جوہر رح نے بھی فرمایا ہے۔ اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد ۔ یعنی استبداد اور جبر کے خلاف، شخصی اور خاندانی اقتدار کے خلاف، خاندانی عصبیت کے خلاف باشعور مزاحمت سے ہم دین کی اصل اور روح کے قریب ہو جائیں گے۔ لہذا ہمارے تاریخی سفر میں۔ امام عالی مقام علیہ السلام کی مزاحمت بہت بنیادی اور کلیدی و فیصلہ کن اہمیت کی حامل ہے۔

اس واقعے کی ایک ما بعد الطبیعاتی نوعیت بھی بے۔

محض اس عارضی دنیا کو نظر میں رکھنے والا انسان اس قسم کی قربانی۔ بقائمی ہوش و حواس۔ کیسے دے سکتا ہے۔ یہ ناقابل یقین قربانی وہی دے سکتا ہے جس کا زاویہ نگاہ دونوں جہانوں کو محیط ہو۔ جیسا کہ اقبال کہتے ہیں۔ موت کو سمجھے ہیں غافل اختتام زندگی۔ ہے یہ شام زندگی، صبح دوام زندگی۔ اس واقعے کی تفہیم آسان ہو جاتی ہے جب اس کو حضرت اسماعیل علیہ السلام کی قربانی کے واقعے سے ملا کر پڑھا جائے۔ اور باپ بیٹے۔ حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہم السلام کی اس وقت کی گئی گفتگو ملحوظ رہے۔ دین کے نظام فکر میں رضا کا تصور بے حد اہم ہے۔ جو عشق الٰہی سے مربوط ہے۔ اہل تصوف کی نگاہ میں امام حسین علیہ السلام اسی عشق اور تسلیم و رضا کے بلند ترین مقام کا حوالہ ہیں۔ احادیث نبوی ﷺ سے ثابت ہے کہ اس واقعے کی خبر صحابہ کرام کے علم میں تھی۔ اعلائے کلمۂ حق کی راہ میں آنے والے آلام و مصائب کو امام عالی مقام علیہ السلام نے رضائے الٰہی سمجھ کر تسلیم و رضا کو اختیار فرمایا۔ جہاں اللہ رب العزت کا خیال ان کو ہر طرف سے محیط تھا۔ کشتگان خنجر تسلیم را۔ ہر زماں از غیب جان دیگر است۔ (جو تسلیم و رضا کے خنجر سے قتل ہوتے ہیں۔ انہیں غیب سے ہر آن ایک نئی جان عطا ہوتی ہے )


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments