افغانستان میں طالبان حکومت کا ایک سال: طالبان کا سنائپر جو اب سرکاری ادارے میں ڈائریکٹر ہے


Ainudeen sitting behind a wooden desk with a black and white Taliban flag behind him
طالبان کے سنائپر جو اب بلخ صوبے کے لینڈ اینڈ اربن ڈویلمپنٹ کے ڈائریکٹر کا کام کر رہے ہیں
گذشتہ برس اگست میں جب طالبان نے افغانستان پر قبضہ کیا تب سے اب تک سینکڑوں افغان شہریوں کی زندگیاں بدل گئی ہیں۔ گذشتہ ایک برس کے دوران دسیوں ہزار افغان شہریوں نے ملک چھوڑ دیا ہے، بیشتر لڑکیوں کے سیکنڈری سکولوں کو بند کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور ملک میں غربت میں اضافہ ہو رہا ہے لیکن چار دہائیوں میں پہلی بار ملک تشدد کی لپیٹ میں نہیں اور یہاں بدعنوانی میں بھی واضح کمی آئی ہے۔

افغانستان پر طالبان کے قبضہ کے دوران بی بی سی کے نامہ نگار سکندر کرمانی وہاں موجود تھے، اور اب ایک برس بعد دوبارہ انھوں نے افغانستان کا دورہ کیا اور ان افراد سے ملاقات کی، جن سے وہ گذشتہ برس ملے تھے۔

طالبان کا سنائپر نشانہ باز اب نئی زندگی کیسے گزار رہا ہے؟

گزشتہ موسم گرما میں جب طالبان نے افغانستان میں پیش قدمی کی اور غیر ملکی افواج کے انخلا کے فوراً بعد ہی افغان حکومت سے اقتدار حاصل کر لیا تو ہماری افغانستان کے شمالی ضلع بلخ میں طالبان کے ایک سخت گیر جنگجو عین الدین سے ملاقات ہوئی تھی۔

اس وقت جب ہم نے ان سے بات کی تھی تو ان کی آنکھوں میں سختی اور سرد مہری تھی۔ اس گفتگو کے دوران جب ہم نے ان سے پوچھا تھا کہ وہ اس تشدد کو کیسے جائز قرار دیتے ہیں تو انھوں نے جواب دیا تھا کہ ’ہم شہریوں کو نقصان نہ پہنچانے کی پوری کوشش کر رہے ہیں لیکن یہ لڑائی ہے اور لوگ مریں گے۔ ہم یہاں افغانستان میں اسلامی نظام کے علاوہ کوئی اور چیز قبول نہیں کریں گے۔‘

اس وقت ہماری ان سے مختصر گفتگو ہوئی تھی کیونکہ اس وقت بھی طالبان اور افغان حکومت کے درمیان لڑائی جاری تھی اور افغان حکومت کی جانب سے فضائی حملے کا خطرہ تھا۔

Ainudeen sitting at a desk in his office in Balkh province

مگر اس کے چند ماہ بعد، طالبان کی حکومت کے قیام کے کچھ ہی عرصے بعد افغانستان اور ازبکستان کو تقسیم کرنے والے دریائے آمو کے کنارے تلی ہوئی مچھلی کے کھانے پر نشست کے دوران، عین الدین نے مجھے بتایا کہ وہ طالبان کے سنائپر نشانہ باز تھے۔

انھوں نے مجھے بتایا کہ انھوں نے اندازاً افغان سکیورٹی فورسز کے درجنوں اہلکاروں کو ہلاک کیا اور دس مختلف واقعات میں وہ زخمی ہوئے تھے تاہم طالبان کے اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد انھیں بلخ صوبے میں لینڈ اینڈ اربن ڈویلمپنٹ کا ڈائریکٹر تعینات کر دیا گیا۔

جب میں انھیں طالبان حکومت کے ابتدائی دنوں میں ملا تھا تو میں نے ان سے پوچھا تھا کیا وہ اس ’جہاد‘ کو یاد کرتے ہیں جسے وہ طویل عرصے تک لڑتے رہے تو انھوں نے دو ٹوک انداز میں کہا تھا ’جی ہاں۔‘

اب ایک سال بعد اپنے دفتر میں اپنی ایک جانب اسلامی امارات کا سفید و سیاہ جھنڈا لگائے، لکڑی کے میز کے پار بیٹھے وہ ابھی بھی اپنی نئی زندگی میں مطابقت پیدا کرنے کی کوشش کرتے دکھائی دیے لیکن ان کا کہنا ہے کہ وہ اپنے فرائض اور کردار کی اہمیت کو سمجھتے ہیں۔

’ہم پہلے بندوق کے زور پر اپنے دشمنوں کے خلاف لڑ رہے تھے، اللہ کا شکر ہے کہ ہم نے انھیں شکست دی اور اب ہم اپنے قلم کے ذریعے اپنی عوام کی خدمت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘

عین الدین کہتے ہیں وہ لڑتے ہوئے بھی خوش تھے اور اب بھی خوش ہیں مگر علیحدگی میں چند دیگر طالبان ارکان جو کبھی لڑائی میں اگلے محازوں پر تھے، نے تسلیم کیا کہ وہ دفتر میں رہ کر اپنی نئی ذمہ داریوں سے اکتا گئے ہیں۔

عین الدین جس عملے کی نگرانی کرتے ہیں ان میں سے زیادہ تر کو گذشتہ حکومت میں ملازمت پر رکھا گیا تھا، البتہ شہر کے دیگر مقامات پر، ہمیں رہائشیوں کی جانب سے سابقہ طالبان جنگجوؤں کی طرف سے ان کی ملازمتیں چھیننے کی چند شکایات سننے کو ملی ہیں۔

میں نے عین الدین سے سوال کیا کہ کیا وہ اس عہدے کے اہل ہیں۔ جس کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ’ہمارا تعلق عسکری سرگرمیوں سے رہا اور اب ہم اس شعبے میں کام کر رہے ہیں لیکن آپ ہمارے کام کا موازانہ گذشتہ حکومت سے کر سکتے ہیں اور جان سکتے ہیں کہ کس نے بہتر نتائج دیے ہیں۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’اگر گوریلا جنگ کی مشکلات کا موازنہ گورننس سے کیا جائے تو گورننس لڑائی سے زیادہ مشکل ہے۔ جنگ آسان تھی کیونکہ اس میں آپ پر کم ذمہ داری تھی۔‘

طالبان حکومت کو یہ مسئلہ پر جگہ درپیش ہے کیونکہ یہ گروہ عسکریت پسندوں سے حکمرانوں میں تبدیل ہوا ہے۔


اگلے محاذ پر موجود گاؤں بہتر سکیورٹی صورتحال پر شکر گزار

اگرچہ سورش کے دوران افغانستان کے بڑے شہروں میں تباہ کن بم دھماکے اکثر میڈیا کی توجہ اپنی طرف مبذول کرواتے تھے لیکن زیادہ تر سنگین اور شدید لڑائی دیہی محاذوں پر لڑی گئی تھی۔

عام افراد طالبان اور بین الاقوامی فورسز کی حمایت یافتہ افعان فوج کے درمیان لڑائی میں پھنس جاتے تھے اور ان میں سے چند دونوں گروہوں کے متعلق کم ہی فرق کر پاتے تھے کیونکہ ان کی شدید خواہش صرف امن کا قیام تھا۔

A shop in Padkhwab

افغانستان کے صوبہ لوگر کے گاؤں پدخواب میں واقع دکان

ہم نے طالبان کے قبضے کے فوراً بعد کابل کے جنوب مشرق میں صوبہ لوگر کے گاؤں پدخواب کا دورہ کیا تھا۔ وہاں کے رہائشی ہمیں جنگ کے آثار دکھانے کے لیے بے تاب تھے۔

وہاں کے ایک رہائشی سمیع اللہ جو ٹائل بنانے کا کام کرتے ہیں، کا کہنا تھا کہ ’یہاں حالات بہت خراب تھے، ہم کچھ نہیں کر سکتے تھے، بازار اور دکانوں تک نہیں جا سکتے تھے،لیکن اب خدا کا شکر ہے ہم ہر جگہ جا سکتے ہیں۔‘

پدخواب جیسے دیہات میں طالبان کی اقدار شہری علاقوں کی نسبت مقامی آبادی کے ساتھ زیادہ ملتی ہیں۔ یہاں تک کہ پچھلی حکومت کے دور حکومت میں بھی خواتین عام طور پر گھروں سے باہر جاتے وقت یا عوامی سطح پر اپنے چہرے کو ڈھانپتی تھیں اور مقامی بازار میں بھی شاذ و نادر ہی جاتی تھیں۔

گذشتہ ہفتے جب ہم یہاں واپس آئے تو مرکزی بازار کے وسط میں عمارتوں میں گولیاں لگنے سے ہونے والے چند سوراخ بھر چکے تھے اور یہاں کے رہایشی سکیورٹی کی بہتر صورتحال پر شکر گزار ہیں۔

یہاں کے ایک درزی گل محمد نے بتایا کہ ’پہلے یہاں کے بہت سے لوگ خصوصاً کسان فائرنگ کی زد میں آکر زخمی ہو جاتے تھے، بہت سے دکانداروں کو بھی گولیاں لگی تھی۔‘

لیکن امریکی انخلا کے بعد سے افغانستان کی معیشت تباہ ہو رہی ہے، عوامی اخراجات کا تقریباً 75 فیصد بننے والی غیر ملکی گرانٹس کم کر دی گئیں اور بین الاقوامی بینکوں نے بڑے پیمانے پر رقم کی منتقلی کو اس ڈر سے روک دیا کہ کہیں وہ پابندیوں کے قوانین کی خلاف ورزی نہ کر رہے ہوں۔

طالبان امریکہ پر افغانستان کے مرکزی بینک کے ذخائر کو منجمد کرنے کا الزام عائد کرتے ہیں۔ مغربی سفارتکاروں نے اکثر یہ تجویز کیا ہے کہ طالبان کی خواتین سے متعلق جابرانہ پالیسیوں کا مطلب ہے کہ افغان عوام کے لیے کسی بھی مدد کا مطلب ان کی حکومت سے بالا ہو کر کرنا ہے۔

اس بحران کے نتیجے میں شہری علاقوں میں رہنے والے متوسط طبقے کے گھرانوں کی آمدن میں ڈرامائی کمی آئی ہے کیونکہ سرکاری محکموں میں کام کرنے والے افراد کو کئی ماہ سے تنخواہ نہیں دی گئی اور پھر ان کی تنخواہ میں کٹوتی کر دی گئی تھی۔

یہ بھی پڑھیے

وہ افغان خواتین جو خاموش رہنے کو تیار نہیں: ’آپ ایک ہاتھ سے زندگی کیسے چلا سکتے ہیں‘

طالبان سے چھپتے افغان اساتذہ: ‘ہم گھروں میں ایسے بیٹھے ہیں جیسے جیل میں ہوں‘

افغانستان میں پوست کی کاشت جاری مگر طالبان کو متبادل فصلوں کی تلاش

سمیع اللہ

سمیع اللہ کہتے ہیں کہ ’معیشت تباہ ہو گئی ہے، یہاں کوئی کام ہے نہ نوکری، ہر کوئی صرف اپنے ان رشتہ داروں پر انحصار کر رہا ہے جو بیرون ملک ہیں‘

ایسے افراد جن کی گزر بسر پہلے ہی مشکل تھی اب انھیں اپنے خاندانوں کا پیٹ پالنے کی جدوجہد میں مزید مشکلات کا سامنا ہے۔

پدخواب گاؤں میں روزمرہ کی اشیا کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ اور کام نہ ملنے کی شکایات عام ہیں۔ سمیع اللہ کہتے ہیں کہ ’معیشت تباہ ہو گئی ہے، یہاں کوئی کام ہے نہ نوکری، ہر کوئی صرف اپنے ان رشتہ داروں پر انحصار کر رہا ہے جو بیرون ملک ہیں۔‘

گل محمد نے مزید کہا کہ ’آپ گوشت اور پھل کو چھوڑیے لوگ آٹا نہیں خرید پا رہے۔‘

پھر بھی، سمیع اللہ نے گاؤں میں افغان حکومت کے فوجیوں کی موجودگی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’یہ سچ ہے کہ اس وقت زیادہ پیسے تھے لیکن ہمیں بہت زیادہ جبر کا سامنا کرنا پڑا تھا۔‘ وہ افغان فوج پر لوگوں کو ہراساں کرنے کا الزام لگاتے ہیں۔

افغانستان میں طالبان پر سرعام تنقید کم ہوتی جا رہی ہے لیکن طالبان کی جیت نے چند لوگوں کی زندگیوں کو بہتر بنانے میں مدد کی ہے تاہم بہت سے دوسرے لوگ یہ محسوس کرتے ہیں کہ جس ملک کی تعمیر میں انھوں نے مدد کی تھی وہ ان کی آنکھوں کے سامنے ختم ہو رہا ہے اور وہ اس بات پر گہری تشویش میں مبتلا ہیں کہ اسے کس چیز سے تبدیل کیا جا رہا ہے۔


’افغان یوٹیوبرز اب بھی ویڈیوز بنا رہے ہیں‘

پچھلے سال جب طالبان جنگجو کابل میں داخل ہونے لگے تو بہت سے رہائشی خوفزدہ ہو گئے تھے کیونکہ اس گروپ نے کئی برسوں سے شہر میں خودکش بم دھماکے اور ٹارگٹ کلنگ کی کارروائیاں کی تھیں۔

لیکن ایسے میں کابل سے تعلق رکھنے والی ایک نوجوان خاتون روعینہ جو یوٹیوب ویڈیوز بناتی ہیں، نے باہر جانے اور ان سے بات کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔

Youtuber Roeena in the street in Kabul

افغان یوٹیوبر روعینہ

گذشتہ اگست میں انھوں نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ایک ’باغی‘ کے لہجے میں کہا تھا کہ ’مرد و عورت کو برابر کے حقوق حاصل ہیں‘ لیکن وہ اس بارے میں غیر واضح تھیں کہ کیا وہ اپنا کام جاری رکھ سکیں گی یا نہیں۔

ایک سال بعد ان میں یہ غیر یقینی کی کیفیت آج بھی موجود ہے لیکن یہ صرف روعینہ کے لیے ہی نہیں بلکہ پورے ملک کا یہ ہی حال ہے۔

طالبان قیادت کی جانب سے ملک کے بیشتر علاقوں میں لڑکیوں کے سکینڈری سکولوں کو بند کرنے کے فیصلے پر نہ صرف بین الاقوامی سطح پر بلکہ افغان شہریوں کی اکثریت اور طالبان کی صفوں میں بھی اس فیصلے کو زیادہ پسند نہیں کیا گیا اور مایوسی کا اظہار کیا گیا ہے۔

1990کی دہائی میں قائم ہونے والی پچھلی طالبان کی حکومت کے برعکس، کم عمر لڑکیوں کو پڑھنے کی اجازت دی گئی ہے اور یونیورسٹیوں کو صنفی طور پر ایک نیا الگ الگ شیڈول دیا گیا ہے، جس سے طالبات کے موجودہ بیچ کو اپنی تعلیم جاری رکھنے کی اجازت دی گئی ہے۔

لیکن طالبان کی قیادت میں بااثر اور سخت گیر شخصیات نوعمر لڑکیوں کو دوبارہ سکول جانے کی اجازت دینے سے گریزاں نظر آتی ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ گزشتہ 20 سال میں خواتین کے حقوق کے حوالے سے ہونے والی پیشرفت ختم ہو رہی ہے۔

اسی طرح، تعلیم اور صحت کے شعبوں کے علاوہ زیادہ تر سرکاری محکموں میں ملازمتیں کرنے والی خواتین کو دفاتر میں واپس نہ آنے کا کہا گیا لیکن اس کے باوجود، نجی کاروباروں میں کام کرنے والی خواتین کی نسبتاً کم تعداد اپنی ملازمتوں کو جاری رکھنے میں کامیاب رہی ہے۔

روعینہ اب بھی یوٹیوب ویڈیوز بنا رہی ہیں۔ وہ اپنے چہرے پر نقاب نہیں کرتیں لیکن اپنے سکارف کو اپنے چہرے کے گرد زیادہ مضبوطی سے لپیٹ رہی ہیں۔

اب جب وہ کابل کی سڑکوں پر نکلتی ہیں تو پہلے کی نسبت زیادہ قدامت پسند لباس پہنتی ہیں اور شہر کا دورہ وہ کالے عبایا اور سرجیکل ماسک سے چہرہ ڈھانپ کر کرتی ہیں۔

طالبان نے حکم دیا ہے کہ خواتین کو عوامی مقامات پر اپنا چہرہ ڈھانپنا چاہیے لیکن ابھی اس معاملے میں ان کا نفاذ کمزور دکھائی دیتا ہے اور بڑے شہروں میں خواتین کو صرف اپنے بال ڈھانپے دیکھنا اب بھی بہت عام ہے۔

اب زندگی کیسی ہے اس بارے میں بات کرتے ہوئے، طالبان کو مخاطب کرنے کے لیے روعینہ اپنے الفاظ کا انتخاب احتیاط سے کرتی ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ ’خواتین اور لڑکیاں حجاب کی پابندی کرتی ہیں، انھیں وہ تمام آزادیاں ملنی چاہیے جن کی اسلام نے ضمانت دی ہے۔ ان کے حقوق سلب نہ کیے جائیں، انھیں کام کرنے اور تعلیم حاصل کرنے کی اجازت دی جائے۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32493 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments