شمس الرحمان فاروقی بنام ظفر اقبال


یہ جو کہتے ہیں نا کہ ہمارے ہاں زندہ لوگوں کی پذیرائی نہ کرنے کا چلن عام ہے اور جب وہ گزر جائیں تو کتابوں کے منوں صفحات کالے کر دیے جاتے ہیں۔ ان محققین کو نوید ہو کہ ہمیں اس قومی راز کی وجہ معلوم ہو گئی ہے۔ ہم مسلسل سوچ و بچار کے بعد اس نتیجے پر پہنچ گئے ہیں کہ دراصل جو کچھ ہمارے لوگ دوسروں کے بارے میں لکھتے (یا سوچتے ) ہیں۔ اس کے لیے ان کا فوت ہو جانا ہی ضروری ہے۔ ورنہ اگر زندگی میں بعینہ لکھ دیا جائے تو وہ فوراً تردید کرتے ہیں۔

تو گویا میری تحقیق نہیں مانیں گے آپ؟ تو نہ مانیں بھئی! اب آپ کو یقین دلانے کے لیے ہم مر تو نہیں سکتے۔ گو ایک شاعر ایسی حرکت کا بار ہا دعویٰ کرتا پایا جاتا ہے۔ مگر مر کے نہیں دے رہا:

وہ کر نہیں رہا تھا مری بات کا یقیں
پھر یوں ہوا کہ مر کے دکھانا پڑا مجھے

ویسے مجھے معلوم تھا، کہ آپ نے ماننا واننا کوئی نہیں ۔ جبھی پوری تیاری سے آیا ہوں۔ مثالیں بھی ہیں ایک پوٹلی میں۔ رکیں! ابھی کھولتا ہوں۔

ایک دفعہ ظفر اقبال صاحب اپنے کسی صاحب زادے کے ہمراہ بھارت چلے گئے اور وہاں کسی ریڈیو انٹرویو میں غالب اور ظفر اقبال کے موازنے پر بحث چھڑ گئی۔ حالانکہ یہ ردو قدح اگر سرحد سے اس طرف ہوتی تو سامعین ہی شرکاء کی طبیعت درست کر دیتے مگر ۔ ۔ ۔

واپسی پر ظفر صاحب نے کالم لکھا اور جنتا کو آگاہ کیا کہ شمس الرحمان فاروقی نے انہیں غالب سے بڑا شاعر کہا ہے۔ اب جب بات فاروقی صاحب تک پہنچی تو وہ صاف مکر گئے۔ ویسے بھی ’شب خون‘ مارنا سرحد پار والوں کا وتیرہ رہا ہے۔

ظفر اقبال نے بیٹے کو بطور گواہ پیش کیا مگر قانون دان ہونے کے باوجود غچہ کھا گئے کہ باپ کے حق میں بیٹے کی گواہی قبول نہیں ہو سکتی۔ سو وہ ٹچکروں پر اتر آئے۔ شاید کہیں ان کے ذہن میں یہ خیال بھی آیا ہو کہ وہ بیٹے کی بجائے کسی اور کو ہی ساتھ کیوں نہ لے گئے۔

تو بات کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اگر ظفر اقبال کے پیٹ میں بات ٹھہر جاتی اور وہ اب شمس الرحمان فاروقی کے انتقال کے بعد یہ بات کرتے تو بہت سے لوگوں نے محض مرحوم کا مان رکھنے کو مان لینی تھی۔ یا کسی طرح یہ بات آفتاب اقبال کے کانوں میں ڈال دیتے۔ وہ حضرت انہیں میر کے ہم پلہ، امیر خسرو کے استاد اور ولی دکنی سے ’قدیم‘ ثابت نہ کر دیتے تو پھر کہتے۔

اب ایک اور ستم ظریفی ملاحظہ ہو کہ ہم نے جب اس کالم کا ابتدائی خاکہ لکھا تھا تو شمس الرحمٰن فاروقی صاحب بھلے چنگے تھے۔ لیکن اب سچے جہان سدھار چکے ہیں۔ یہ ہمارے ساتھ کوئی پہلی دفعہ نہیں ہوا۔ جب ہم نے عابد جعفری کا انٹرویو کرنے کا سوچا، وہ چل بسے۔ اور جب مائی ماشو پر کالم کے چند حروف باندھے تو ان کے میاں بھی چل دیے۔ یہ ایک مرتبہ ہوتا تو ہم نوٹس بھی نہ کرتے مگر وہ عرب کہاوت تو آپ کو یاد ہی ہوگی نا، کہ

”اگر کوئی بات ایک دفعہ ہوئی ہے۔ تو عیش کریں، وہ پھر کبھی نہیں ہوگی۔ لیکن اگر دوسری مرتبہ بھی ہو گئی ہے تو پھر تیاری پھڑیں، وہ تیسری بار بھی ضرور ہو گی۔“

کالم تو خیر لکھتے ہی رہتے ہیں۔ اختتامی سطور سے ہمارا مقصد حاسدین اور دشمنوں کو خبردار کرنا ہے کہ ہمارے کالم کا عنوان بننے سے بچیں۔ جلد معافی تلافی کر لیں کیونکہ ہم لسٹ مرتب کر ہی چکے ہیں اور حال خیر سے غالب والا ہی ہے :

تالیف نسخہ ہائے وفا کر رہا تھا میں
مجموعہ خیال ابھی فرد فرد تھا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments