ملکی حالات اور سیاسی قیادت کا رویہ


حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ٹکر کے لوگ بنا ٹکرائے ہی پتلی گلی سے نکل گئے۔ سنا ہے ہر ٹکر کے بندے کی آزادی کا راستہ پشاور سے ہوکے جاتا ہے۔ گویا پشاور امن کی وہ جگہ ہے جہاں سے وہ لوگ جنہوں نے ہر طاقتور سے ٹکرانا تھا بنا ٹکرانے پرامن طریقے سے رستہ بدل جاتے ہیں۔ اب سوشل میڈیا کے زور پر تو نیلسن منڈیلا یا پھر چی گویرا تو نہیں بنا جاسکتا تاریخ رقم نہیں کی جا سکتی۔ تقاریر میں بھٹو کا حوالہ دینے سے تو بھٹو نہیں بنا جاسکتا۔ نیلسن منڈیا بننے کے لیے دہائیاں جیلوں میں گزارنی پڑتی ہیں بھٹو بننے کے لیے پھانسی کے پھندے کو گلے میں ڈالنا پڑتا ہے۔ نا ہی جانثاران کی وہ ٹیم ساتھ ہے جو کارساز میں ایک دھماکے کے بعد دوبارہ جمع ہوئے اور پھر دھماکہ ہو گیا مگر یہ سر پھرے تیسری بار بھی جمع ہو گئے۔

دو جماعتوں کو سیدھا کرنے کے لیے تیسری جماعت کی ضرورت تھی۔ قرعہ فال نکلا اور تیسری جماعت کے غبارے میں ہوا بھری گئی مگر یہ شاید کچھ زیادہ ہی بھر گئی اور پھر نتیجہ سب کے سامنے ہے۔ پہلی دو کی طرح تیسری جماعت بھی زیرعتاب ہے۔ اب تیسری جماعت کا وزن اور سائز کم کرنے کی باری ہے۔ تاکہ آئندہ عام انتخابات میں حصہ بقدر جثہ ٹھیک طریقے سے تقسیم کیا جا سکے۔ اور جثہ بھی اتنا ہی ہو جو کسی وقت پریشانی کا باعث نا بن سکے۔ بنیادی طور پر سمجھنے کی بات ہے کہ چار صوبے ہیں اور تین صوبوں تین بڑی سیاسی جماعتوں کے اور چوتھا صوبہ ان تین کو قابو کرنے کے لیے ہے۔ جہاں ضرورت ہوگی چوتھے صوبے کی حمایت اس کے پلڑے میں ڈال دی جائے گی۔

رہی بات وفاق کی تو اچھی بات ہے سب موجود ہوں گے اور کوئی اکثریت میں نہیں ہو گا۔ جہاں دل چاہے گا اور جو تابعدار ہوں گے ان کو یک جان دو قالب کر کے اقتدار حوالے کر دیا جائے گا۔ اور جب کسی نے تنگ کرنے کی کوشش کی تو تیسری جماعت بھی اسی تناسب سے ایوان میں موجود ہوگی اور ہمارے جیسے ملک میں سیاسی اتحاد بنتے دیر نہیں لگتی۔ ملک کے وسیع تر قومی مفاد میں ایک نیا حکومتی اتحاد کسی بھی وقت تشکیل دیا جاسکتا ہے۔ گویا کوئی مستقل نوکری پر نہیں ہے سب ایڈہاک پر کام کریں گے شرط صرف ایک ہی ہے کہ اچھے بچے بن کر حکومت کرنی ہے اور یہ خناس دماغ میں نہیں پالنا کہ ہم جمہور کی رائے سے آئے ہیں۔

اگر بات اتنی ہی سادہ ہے اور سیاسی تقسیم اسی طرح ہی ہے تو پھر پریشانی کیا ہے مسئلہ کیا ہے الجھن کیسی ہے یہ سیاسی بے چینی پھر کیوں عروج پر ہے تو اس سادہ سے سوال کا جواب بھی انتہائی سادہ ہے کہ مسئلہ جثے کا ہے۔ مسئلہ سائز کا ہے کہ سائز کم کیوں کیا جا رہا ہے۔ اگر سائز کم ہو گا تو حصہ بھی بھی کم ملے گا تو کون سمجھائے کہ سائز بھی تو کسی کی مرہون منت تھا اس لیے تو فلور آف دی ہاؤس بات ہوئی کہ یہ الیکٹڈ نہیں سلیکٹڈ ہیں۔ جب سلیکشن ہوگی تو پھر آخری فیصلہ بھی سلیکٹرز کا ہو گا۔ اب یہ اعتراض تو ناجائز ہے نا کہ جب اپنی سلیکشن ہوئی تو سب ٹھیک تھا جب کوئی اور سلیکٹ ہو گیا تو سلیکشن پر پھر اعتراض کس لیے اور کیوں۔

اب سلیکٹرز پر اعتراض مناسب بھی تو نہیں کیونکہ سلیکٹرز نے چانس تو سب کو دیا ہے۔ سب کی باری لگی ہے۔ کون ہے جس کو اس بہتی گنگا میں سے ہاتھ دھونے کا موقع نہیں ملا۔ اب یہ تو اپنی اپنی اہلیت ہے کہ کوئی دو بار تو کوئی تین بار اور کوئی ایک بار بھی اپنی باری پوری نہیں کر سکا۔ حالات ہی کچھ ایسے ہیں کہ شاید اب اقتدار سنبھالنا کسی اکیلے کے بس کی بات نہیں ہے۔ لہذا اب کی بار سب کوایک ہی ساتھ اقتدار دینے کا تجربہ بھی کر لیا جائے کیا پتہ حالات کچھ بہتر ہوجائیں۔ ملک و قوم کا کچھ بھلا ہو جائے۔ ملکی معیشت کچھ بہتر ہو جائے۔ کچھ نا کچھ سیاسی استحکام نصیب ہو جائے۔ عام آدمی کو دو وقت کی روٹی کے ساتھ پرسکون زندگی نصیب ہو جائے۔

سوچنے کی بات ہے کہ سب سے پہلے پاکستان کے بعد جمہوریت بہترین انتقام ہے کے سلوگن کے بعد روشن اور نیا پاکستان اور پھر ریاست مدینہ کی تعمیر کے بعد سیاست نہیں ریاست بچاؤ کے نعرے کے بعد کون سا نعرہ مستانہ باقی ہے جو لگانا رہ گیا ہے۔ سیاسی نظام کے اندر ہم تمام ممکنہ آپشن بہت تیزی سے استعمال کر رہے ہیں۔ اگر یہی رفتار رہی تو شاید مستقبل قریب میں کوئی سیاسی آپشن ہی باقی نا بچے جو استعمال کیا جا سکے۔ اب آسمان سے تو کوئی اترے گا نہیں جو ہمارے حالات ٹھیک کرسکے بس یہی کچھ ہے جو چاک دامن میں ہے۔ ان ہی سے حالات کو بہتر کرنا ہو گا معاملات کو سنبھالنا ہو گا معیشت کی سمت درست کرنی ہوگی۔ یہ سب اچھے ہیں یہ سب محب وطن ہیں مگر اس اہل نہیں کہ منجھدار میں پھنسی اس کشتی کو نکال سکیں۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ ایک وسیع تر این آر او دیا جائے اور ملکی تمام سیاسی قیادت کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کیا جائے۔ ملک و قوم کی خاطر سب اپنے اختلافات کو پس پشت ڈال کر سر جوڑ کر بیٹھ جائیں اور ملک کی بہتری اور قوم کے مفاد میں فیصلے اتفاق رائے سے کریں۔ اس سے جہاں ملک کو سیاسی استحکام نصیب ہو گا وہاں پر یہ اطمینان بھی حاصل ہو گا کہ ملک و قوم کو ایک متفقہ سمت مل جائے گی۔ ایک راستہ متعین ہو جائے گا ایک منزل کی نشاندہی ہو جائے گی کہ کہاں جانا ہے اور کیسے جانا ہے۔

اور اگر یہ ہوجاتا ہے و شاید یہ اس وقت کی سیاسی قیادت کی سب سے بڑٰی کامیابی ہوگی اور ملک و قوم کی سب سے بڑٰی خدمت بھی ہوگی۔ اگر سب بضد رہے اور اپنی الگ کوشش کرتے رہے تو سب ذہن نشین کر لیں کہ موجودہ حالات بھی اسی سیاسی قیادت کے پیدا کردہ ہیں۔ اگر دستیاب سیاسی قیادت اتنی ہی اہل ہوتی تو یہ حالات نا ہوتے جو ہم پر اس وقت بیت رہے ہیں۔ لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ ملکی سیاسی قیادت ایک صفحے پر آ جائے اور اسی میں سب کی بہتری اور بھلائی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments