”لال سنگھ چڈھا“ کے پہلے پندرہ منٹ


”لال سنگھ چڈھا“ کے پہلے پندرہ ہی منٹ دیکھے ہیں، مگر یہ پندرہ منٹ کم از کم اتنا ضرور متعین کر رہے ہیں کہ ”لال سنگھ چڈھا“ ، ”فورسٹ گمپ“ سے کہیں زیادہ میچور سیاسی بیانیہ لیے ہوئے ہے۔ گولڈن ٹمپل مساکر، اندرا گاندھی کا قتل، ہندو سکھ فسادات، سکھوں کی امرتسر سے بڑے پیمانے پر نقل مکانی، سروائیول کے لیے ایک عام فرد کی اپنے مذہبی تشخص سے دست برداری اور موب لنچنگ : یہ سب پہلو مل کر نیولے نیومین کی ”سپائرل آف سائلنس“ تھیوری کا اثبات کرتے ہیں اور ہندو توا کے اس ابھار کی نشاندہی بھی، جس کے خد و خال ستر اور اسی کی دہائی میں واضح ہونا شروع ہو گئے تھے۔

یوں لگتا ہے جیسے عامر خان پروڈکشنز نے ایک بار پھر ہندوستان کا اجتماعی ضمیر بننے کا فیصلہ کیا ہے اور طاقتور کی آواز کا اثبات کرنے کے بجائے کمزور کی آواز میں آواز ملائی ہے۔ ہمارے ہاں مگر یہ کام صرف ادب کی ڈومین میں ہی ممکن ہے۔ فلم، ڈرامہ اور انفوٹینمنٹ سے یہ توقع کرنا عبث ہے کہ ریاست کے ساتھ ساتھ نان سٹیٹ ایکٹرز بھی اتنے طاقتور ہیں کہ محض گالی اور بائیکاٹ پر بات نہیں رکتی، گولی اور سرویاناش پر جا کر ختم ہوتی ہے۔ پھر یہ کہ، وہ مہارت اور باریکی بھی مفقود ہے جس سے سانپ ہی مرے، لاٹھی نہ ٹوٹے۔

”لال سنگھ چڈھا“ کے پہلے پندرہ منٹوں میں ستر اور اسی کی دہائی کے کلچرل ریفرنسز بھی دکھائی دیتے ہیں جیسے بلاک بسٹر فلم ”شعلے“ کا ایک گیت، ہندوستانی دیہاتوں میں بلیک اینڈ وائٹ ٹیلی ویژن سیٹس کی امد اور کرکٹ کے تیسرے عالمی کپ میں بھارت کی فتح وغیرہ۔ شاہ رخ خان کی کامیو پرفارمنس سرپرائز پیکج ہے۔ شاہ رخ خان سے تمام تر معاصرانہ چشمک کے باوجود اپنی ہی ایک فلم میں اس کی صلاحیتوں اور کامیابیوں کا اثبات کر کے عامر خان نے بڑے پن کا مظاہرہ کیا ہے، جو اس کے پرانے ٹریک ریکارڈ کی روشنی میں کافی غیر متوقع ہے۔

کیمرا ورک، لائٹس اور بیک گراؤنڈ سکور میں کوئی لمبی چوڑی سائنس نہیں لگی ہوئی۔ بس یہ کہ لائٹس مناظر کو سپورٹ کر رہی ہیں، کیمرا مسلسل متحرک ہے اور راوی کی زبانی بیان ہونے والی کہانی کی تیز رفتاری کے ساتھ ہم آہنگ، جبکہ بیک گراؤنڈ سکور اس کی اثر پذیری کو بڑھاوا دے رہا ہے۔ ہمارے نئے فلم میکرز میں یہ کام صرف نبیل قریشی کو آتا ہے، ورنہ شعیب منصور جیسے بلند پایہ وژیول آرٹسٹ کی فلموں کا بصری تاثر بھی فلم سے کہیں زیادہ ڈرامے کا ہے۔

ترن آدرش کا خیال ہے کہ دوسرے ہاف کا سکرین پلے کمزور رہ گیا، جس کے باعث فلم پوری طرح سے مربوط نہیں ہو پائی۔ ترن کی ترن ہی جانے، مجھے تو بس اتنا معلوم ہے کہ پہلے پندرہ منٹ کا سکرین پلے بہت رواں اور چوکس ہے، جو دیکھنے والے کو پوری طرح سے انگیج رکھتا ہے۔ یہ کیا کم ہے کہ محض پندرہ ہی منٹوں میں کم از کم دو سین ایسے ہاتھ لگ گئے، جنہوں نے مجھ جیسے رقیق القلب ویور کو اتنا جذباتی کر دیا کہ چند لمحوں کے لیے سہی، لیکن پلکیں بھیگ گئیں۔

”لال سنگھ چڈھا“ ، ”فورسٹ گمپ“ کا ری میک سہی، لیکن ابھی تک کی فلم بتا رہی ہے کہ اس کی مخصوص سیاسی، سماجی اور ثقافتی فضاء اسے ”فورسٹ گمپ“ سے مختلف معنی اور تاثر فراہم کرنے میں کامیاب رہے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments