عالمی نوجوان ڈے: نوجوان نسل کہاں جا رہی ہے؟


بارہ اگست پوری دنیا میں نوجوان ڈے کے طور پر منایا جاتا ہے کہا جاتا ہے نوجوان کسی بھی قوم کا سرمایہ ہوتے ہیں۔ اگر سرمایہ بہترین اور کارآمد ہو تو ترقی ہوتی ہے اور اگر اس کا سرمایہ ردی، بے کار اور فضول ہو تو ساری محنت ضائع چلی جاتی ہے۔ اسی طرح نوجوان مثبت، کار آمد اور نتیجہ خیز امور میں مشغول ہوں تو قوم ترقی کرتی ہے ورنہ اس قوم کو وقت ضائع کرنے کے سوا کچھ نہیں ملتا۔ قوموں کی ترقی میں یہ اصول سب سے زیادہ سرفہرست رہا ہے۔ نبی کریم ﷺ پر اولین ایمان لانے والے لوگ بھی نوجوان ہی تھے۔

نوجوانوں میں سیدنا علی المرتضیٰ، سیدنا عثمان غنی، سیدنا عمر، سیدنا عبدالرحمن بن عوف، سیدنا مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہم اجمعین یہ سارے لوگ طبقہ نوجواناں سے تعلق رکھتے تھے۔ فاتح عالم کہلانے والے اور دنیا پر راج کرنے والے اکثر لوگ بھی نوجوان ہی تھے۔ سکندر رومی محض پینتیس سال کی عمر میں آدھی دنیا فتح کرنے کے بعد دنیا سے چلتا بنا۔

دور کیوں جائیں! وطن عزیز برصغیر پاک و ہند کی آزادی کی جدوجہد بھی نوجوانوں نے ہی لڑی۔ شاملی کے محاذ پر انگریز سے جنگ کرنے یا نہ کرنے کے معاملہ پر علماء کا اکٹھ ہوا، کچھ کا خیال تھا کہ ہم انتہائی بے سر و سامانی کے عالم میں ہیں۔ جنگ کے لیے مطلوبہ قوت ہمارے پاس نہیں ہے، اس لیے ہمیں جنگ نہیں کرنی چاہیے۔ اس دوران بیس سالہ نوجوان محمد قاسم نانوتوی اٹھا اور کہا ”کیا ہمارے پاس اتنے وسائل بھی نہیں جتنے بدر کے لوگوں کے پاس تھے؟

“ بس اتنی سی بات پر سارے لوگ متفق ہو گئے کہ جنگ ہونی چاہیے۔ مجموعی نتیجہ تو اس جنگ کا مسلمانوں کے حق میں نہ نکلا کہ اس کے بہت سے اسباب و عوامل تھے لیکن وقتی طور پر اس چھوٹی سی جماعت نے شاملی کا علاقہ اپنے ہاتھ میں کر لیا۔ جب مسلمان جنگ کے میدان میں انگریزوں سے نہ جیت سکے تو علامہ محمد اقبال، قائد اعظم محمد علی جناح، نواب بہادر یار جنگ اور ان جیسے نوجوانوں نے سیاست کے میدان میں انگریز کو ناکوں چنے چبوا دیے۔

لیکن آج پاکستان کے نوجوان کہاں جا رہے ہیں آئیے اس کا جائزہ لینے کی کوشش کرتے ہیں آج ہمارے معاشرے کی حالت یہ ہے جیسے بظاہر دروازے کی لکڑی اپنے رنگ و روغن کے ساتھ خوبصورت اور اصل حالت میں نظر آ رہی ہے مگر دیمک نے اسے اندر سے کھا کر مکمل کھوکھلا کر دیا ہے اسے ایک زوردار جھٹکا لگے تو بوسیدہ دروازہ لکڑی بھوسے کی مانند نیچے آ گرے گا اس بوسیدہ لکڑی کی مانند آج ہمارا معاشرہ بظاہر خوبصورت چمکتا دمکتا تو نظر آ رہا ہے مگر یہ اندر سے اخلاقی بے راہ روی، حیائی، آوارہ گردی، جھوٹ فراڈ، زنا، چوری حسد بغض بد دیانتی، مادر پدر آزادی، والدین کی نافرمانی وغیرہ جیسی معاشرتی بیماریوں میں مبتلا زوال کے آخری کونے تک پہنچ چکا ہے میں جب عمیق نظروں سے گردوپیش کے حالات کا جائزہ لیتا ہوں تو ایک بھیانک صورت حال نظر آتی ہے ہماری نوجوان نسل تباہ و برباد ہو چکی ہے اور ہمارا مستقبل ہم سب کے لئے سوالیہ نشان بن چکا ہے اولاد ہی تو سب سے قیمتی سرمایہ ہے جو ہمارے سامنے لٹ رہا ہے برباد ہو رہا ہے اور ہم سب بے بسی کا نشان بنے ہوئے ہیں روزانہ اخبارات اور سوشل میڈیا پر نوجوانوں کی اخلاقی بے راہ روی کی خبریں سامنے آ رہی ہیں کوئی دن نہیں کہ اس طرح کی بھیانک خبریں پڑھنے کو نہ ملیں جس میں نوجوان نسل کی اخلاقی بے راہ روی کی داستانیں ہیں پڑھ کر رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں خوف آتا ہے کہ ہم کدھر جا رہے ہیں شاید وطن عزیز میں سزا و جزاء کا ایسا ناقص نظام ہے کہ جس کی بدولت برائیاں بڑھتی جا رہی ہیں دنیا سمٹ کر ہماری ہتھیلی میں آ گئی ہے۔

یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ اس دور کی ٹیکنالوجی کا اصل ہدف بھی نوجوان نسل ہی ہے۔ اب دور جدید میں انٹر نیٹ کے استعمال سے انکار تو نہیں کیا جا سکتا، مگر نئی نسل کو اس کے منفی اثرات سے بچایا تو جا سکتا ہے۔ سوشل میڈیائی مصلحین و مفکرین اکثر لغو قسم کی باتوں کو نقل کرنا اور دوسروں تک پہنچانا اپنی نہایت ہی اہم ذمہ داری سمجھتے ہیں۔ یہ لوگ بیہودہ باتوں کو اور ایسی باتوں کو جو لوگوں کی کردار کشی پر مشتمل ہو اور جن میں استہزاء اور مذاق اڑایا گیا ہو، انہیں بہ زعم خود بغرض اصلاح نہایت ہی مخلصانہ طور پر لوگوں کے درمیان پھیلاتے ہیں۔

بد زبانی اور بیہودہ جملوں کا بے دریغ استعمال نہ صرف روا سمجھتے ہیں بلکہ انھیں اپنے لیے باعث عزت و فخر گردانتے ہیں۔ ان کی تحقیقی باتوں میں حقیقتاً تحقیق اور صحیح نتیجے پر پہنچنے کی سچی طلب اور جستجو کے بجائے بدگمانی کا عنصر بڑی وافر مقدار میں ہوتا ہے۔ ”بغرض اصلاح“ مختلف موقعوں پر اپنی بات کی تائید و تصویب میں جھوٹ، دجل و فریب اور حقیقت کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے کا بھی کام کرتے ہیں۔ اللہ نے بحیثیت انسان ہر شخص کو عزت و تکریم سے نوازا ہے، یہ اپنے اس طرح کے طرز عمل سے جہاں دوسروں کو بے عزت کرنے کی کوشش کرتے ہیں، وہیں اپنی سطحیت اور گری ہوئی سوچ کا اظہار کر کے اپنے آپ کو بڑے پیمانے پر بے عزت کرنے کا سبب بنتے ہیں۔

جو لوگ ملحد ہوں، دین اور اخلاق دونوں سے عاری ہوں یا مذہب کے پیروکار ہوں لیکن اخلاق سے عاری ہوں، ایسے لوگوں کے حق میں تو صرف دعا ہی کی جا سکتی ہے کہ اللہ عزوجل ان کے اندر دین و اخلاق پیدا کرے یا یہ کہ اخلاقی قدروں سے ان کی زندگی کو آراستہ کرے! اپنی باتوں اور کارکردگی کے ذریعے کسی کو بے عزت کرنے کی کوشش کرنا نہایت ہی مکروہ اور گھناؤنا عمل ہے۔ نیز جھوٹ، بدگمانی، دجل و فریب، استہزاء، نامعقول رائے اور لغو قسم کی باتوں کے ذریعے دوسروں کو بے عزت کرنے کی کوشش درحقیقت اپنے آپ کو بھی بے عزت کرنے کو مستلزم ہے اور خود کو بے عزت کرنے کی کوشش عقل و شرع دونوں کے میزان میں ایک احمقانہ حرکت ہے۔

اگر ہم ایک مثالی معاشرہ تشکیل دینا چاہتے ہیں تو پھر ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم کتاب و سنت، عقل سلیم اور اخلاق کے معیار کو سامنے رکھ کر یہ غور کریں کہ ہم سوشل میڈیا کا صحیح استعمال کر رہے ہیں کہ غیراخلاقی جذبات کی تسکین کا سامان فراہم کرنے کی کوشش میں تو نہیں لگے ہوئے ہیں اور در حقیقت اصلاح کے پردے میں فساد پھیلانے کا بدترین کام تو سر انجام نہیں دے رہے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments