ٹرمپ کے گھر پر چھاپے میں اہم خفیہ دستاویزات قبضے میں لی گئیں: ایف بی آئی


ڈونلڈ ٹرمپ
امریکی تفتیشی ادارے ایف بی آئی نے رواں ہفتے فلوریڈا میں سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جائیداد کی تلاشی کے دوران خفیہ فائلوں کو قبضے میں لے لیا۔

یہ بات ایف بی آئی کی سرچ وارنٹ میں بتائی گئی ہے۔

ایف بی آئی کے ایجنٹوں نے دستاویزات کے 11 سیٹوں کو وہاں سے ہٹایا ہے جن میں کچھ نشان زد ‘TS/SCI’ شامل ہیں۔ یہ درجہ بندی ایسے مواد کے لیے ہوتی ہے جو امریکی قومی سلامتی کو ‘غیر معمولی طور پر شدید’ نقصان پہنچا سکتا ہے۔

بہر حال سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کسی بھی غلط کام کی تردید کی ہے اور کہا ہے کہ ان چيزوں کو ڈی کلاسیفائیڈ کر دیا گیا تھا جس کا مطلب یہ ہوا کہ اب وہ خفیہ دستاویزات نہیں رہیں۔

یہ پہلا موقع تھا جب کسی مجرمانہ تحقیقات کے سلسلے میں کسی سابق صدر کے گھر کی تلاشی لی گئی۔

اشیاء کی فہرست جمعے کی سہ پہر کو اس وقت منظر عام پر لائی گئی جب ایک جج نے سات صفحات پر مشتمل ایک دستاویز کی مہر کھولی جس میں مسٹر ٹرمپ کی پام بیچ رہائش گاہ مار-اے-لاگو کی تلاشی کی اجازت دینے والے وارنٹ شامل تھے۔

اس میں کہا گیا ہے کہ پیر کے روز اشیا کے 20 سے زیادہ ڈبوں کو لے جایا گیا، جس میں تصاویر کا ایک بائنڈر (البم)، ہاتھ سے لکھا ہوا نوٹ، ‘فرانس کے صدر’ کے بارے میں غیر مفصل معلومات اور ٹرمپ کے دیرینہ اتحادی راجر اسٹون کی جانب سے لکھا گیا معافی نامہ شامل ہے۔

ان کے ساتھ سرفہرست خفیہ فائلوں کے چار سیٹ بھی ہیں جن میں ‘خفیہ دستاویزات’ کے تین سیٹ اور ‘خفیہ’ مواد کے تین سیٹ شامل ہیں۔

وارنٹ سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایف بی آئی کے ایجنٹ جاسوسی ایکٹ کی ممکنہ خلاف ورزیوں کی چھان بین کر رہے تھے، جس کے تحت ممکنہ طور پر حساس قومی سلامتی کی معلومات کو رکھنا یا منتقل کرنا غیر قانونی ہے۔

خفیہ دستاویزات یا مواد کو اس کی مختص جگہ سے ہٹانا یا کہیں اور لے جانا قانون کے خلاف عمل ہے۔ ٹرمپ نے کرسیِ صدارت پر رہتے ہوئے اس جرم کی سزاؤں میں اضافہ کیا تھا اور اب اس کی سزا پانچ سال تک قید ہے۔

وارنٹ میں یہ بات کہی گئی ہے کہ مار-اے-لاگو میں تلاش کیے جانے والے مقامات میں ’45 آفس’ نامی جگہ اور سٹوریج رومز کا علاقہ شامل ہے، لیکن مسٹر ٹرمپ اور ان کے عملے کے زیر استعمال پرائیویٹ گیسٹ سویٹس نہیں ہیں۔

مسٹر ٹرمپ کا فلوریڈا میں گھر

مسٹر ٹرمپ کا فلوریڈا میں گھر

محکمہِ انصاف نے جمعرات کو عدالت سے اسے عام کرنے کو کہا تھا، یہ اقدام جاری تحقیقات کے دوران نایاب تصور کیے جا رہے ہیں۔

اسے ایک جج نے پانچ اگست کو منظور کیا تھا یعنی آٹھ اگست کو کیے جانے والے چھاپے سے تین دن قبل اس کی منظوری دی گئی تھی۔

بہر حال گذشتہ رات یعنی جمعہ کی رات ٹرمپ کے دفتر نے ایک بیان جاری کیا جس میں کہا گیا کہ ٹرمپ نے صدر رہتے ہوئے اپنے اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے ان دستاویزات کو ڈی کلاسیفائیڈ کر دیا تھا، جس کا مطلب یہ ہے کہ اب وہ دستاویزات خفیہ نہیں رہی تھیں۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ ‘ان کے پاس سٹینڈنگ آرڈر تھا کہ اوول آفس سے ہٹا کر رہائش گاہ میں لے جانے والی دستاویزات کو ڈی کلاسیفائیڈ سمجھا جائے گا۔’

یہ بھی پڑھیے

ایف بی آئی کا سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے گھر چھاپہ، اہلکاروں نے گھر کی تلاشی لی

کیا ٹرمپ کے خلاف تحقیقات انھیں 2024 کی صدارتی دوڑ میں حصہ لینے سے روک سکتی ہے؟

صدر ٹرمپ کو روجر سٹون کی سزا ختم کرنے پر تنقید کا سامنا

بیان میں کہا گیا ہے کہ ‘دستاویزات کی درجہ بندی کرنے اور ان کی درجہ بندی ہٹانے کا اختیار مکمل طور پر امریکہ کے صدر کے پاس ہے۔

‘یہ خیال بالکل نامعقول ہے کہ کاغذات کو آگے بڑھانے والے چند بیوروکریٹ کو، جن کو صدر کے ذریعہ درجہ بندی کا اختیار سونپا گیا ہے، درجہ بندی سے ہٹانے کی منظوری دینے کی ضرورت ہے۔’

قانونی ماہرین نے امریکی میڈیا کو بتایا ہے کہ یہ واضح نہیں ہے کہ آیا یہ دلیل عدالت میں برقرار رہے گی یا نہیں۔ وکیل ٹام ڈوپری پہلے محکمہ انصاف میں کام کر چکے ہیں۔ انھوں نے بی بی سی کو بتایا ‘صدر معلومات کو ڈی کلاسیفائی کر سکتے ہیں لیکن اس کا ایک ضابطہ ہے۔’

‘انھیں فارم پُر کرنے ہوتے ہیں۔ انھیں کچھ اجازتیں دینی پڑتی ہیں۔ وہ صرف یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ دستاویزات ڈی کلاسیفائیڈ ہیں۔ انھیں اس کے لیے ایک ضابطے کی پیروی کرنی ہوگی [اور یہ واضح نہیں ہے کہ] اس معاملے میں ایسا کیا گیا تھا۔’

ٹرمپ کے ایک ترجمان ٹیلر بڈووچ نے کہا کہ صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ ‘ان کام خراب کرنے والے چھاپے کے بعد واضح طور پر نقصان پر قابو پانے کی کوشش کر رہی ہے۔’

بڈووچ نے انتظامیہ پر الزام لگایا کہ وہ ‘اپنے غالب سیاسی مخالف کے خلاف حکومت کو بطور ہتھیار استعمال کی وضاحت کرنے کی کوشش میں جھوٹ اور غلط باتیں کیے جا رہے ہیں۔’

ٹرمپ کے قدامت پسند اتحادیوں نے بھی اس چھاپے کو سیاسی چوٹ پہنچانے کا کام قرار دیتے ہوئے مذمت کی ہے کیونکہ وہ 2024 میں صدارتی انتخابات میں شامل ہونے پر غور کر رہے ہیں۔

ملک بھر میں قانون نافذ کرنے والے ادارے مبینہ طور پر سرکاری اہلکاروں کے خلاف آن لائن خطرات کی نگرانی کر رہے ہیں جو ایف بی آئی کی تلاش کے نتیجے میں ابھر کر سامنے آئے ہیں۔

اس چھاپے کی منظوری دینے والے امریکی اٹارنی جنرل میرک گارلینڈ نے جمعرات کو وفاقی ایجنٹوں کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ وہ ‘مستعد، محب وطن سرکاری ملازمین’ ہیں۔

انھوں نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ ‘جب ان کی دیانتداری پر غیر منصفانہ حملہ کیا جائے گا تو میں خاموشی سے بیٹھا نہیں رہوں گا۔’


ٹرمپ کے تحقیقات کی ٹائم لائن

جنوری 2022 – نیشنل آرکائیوز نے مار-اے-لاگو سے وائٹ ہاؤس کے ریکارڈز کے 15 باکس بر آمد کیے، اور کہا کہ ٹرمپ انتظامیہ کے دور کے اختتام پر موصول ہونے والی کچھ دستاویزات کو پھاڑ دیا گیا تھا۔

فروری – رپورٹس سامنے آئیں کہ مار-اے-لاگو سے ملنے والی اشیا میں خفیہ فائلیں پائی گئیں اور نیشنل آرکائیوز نے محکمہ انصاف سے تحقیقات کرانے کو کہا

اپریل – امریکی میڈیا کی رپورٹ کے مطابق ایف بی آئی نے ابتدائی تحقیقات شروع کر دی ہیں۔

3 جون – محکمۂ انصاف کے ایک سینیئر اہلکار اور ایف بی آئی کے تین ایجنٹ ایک تہہ خانے میں موجود اشیا کا جائزہ لینے کے لیے مار-اے-لاگو جاتے ہیں اور اطلاعات کے مطابق مسٹر ٹرمپ ان سے ہیلو کہنے کے لیے وہاں پہنچتے ہیں۔

8 جون – وفاقی تفتیش کاروں نے مبینہ طور پر ٹرمپ کے ایک معاون کو خط لکھ کر کہا کہ اشیا والے کمرے کو محفوظ بنانے کے لیے ایک مضبوط تالا استعمال کیا جائے۔ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ یہ درخواست جلد پوری کر دی گئی۔

22 جون – ٹرمپ آرگنائزیشن کو مبینہ طور پر مار-اے-لاگو سے سی سی ٹی وی فوٹیج کے لیے محکمۂ انضاف کا سمن موصول ہوا۔

8 اگست – درجنوں ایف بی آئی ایجنٹوں نے مار-ا-لاگو پر چھاپہ مارا، سرچ وارنٹ کے مطابق، 20 سے زیادہ بکس ضبط کیے، جن میں سے کچھ میں خفیہ فائلیں تھیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32496 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments